• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران دراصل 2018ء کے الیکشن کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا جب حزب اختلاف نے اس کے نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے پہلے دن سے احتساب، احتساب کے نعرے لگانا شروع کر دیے تھے جس کی وجہ سے وہ ’’احتساب‘‘ کو مرکزی سیاسی حیثیت دینے میں کامیاب ہوگئی۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں کوئی بھی شخص احتساب کے اصول سے انکار نہیں کر سکتا کیونکہ احتساب جمہوری سیاسی عمل کا حصہ ہوتا ہے جو سماج میں انصاف کے بنیادی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود احتساب کو موثر اور جائز حیثیت میں اسی وقت ہی پذیرائی حاصل ہو سکتی ہے جب عام آدمی کو اس کا اطلاق جامع طور پر سماج کے ہر شخص پر ہوتا ہوا یوں دکھائی دے کہ کوئی خاص و عام اس کی زد سے نہ بچ سکے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے جس طریقے سے حزب اختلاف کے تقریباً تمام ہی بڑے رہنمائوں کو نہ صرف گرفتار کر لیا بلکہ نیب کی حیثیت عام شہری کے سامنے مکمل طور مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ جب بھی حزب اختلاف کا کوئی رہنما حکومت کے خلاف آواز بلند کرتا ہے تو اسے نیب دھر لیتی ہے۔ احسن اقبال اس کی تازہ مثال ہیں، جب انہوں نے پرویز مشرف کے خلاف عدالتی فیصلے کو سراہتے ہوئے پاکستان کا تاریخی فیصلہ قرار دیا تو اگلے ہی لمحے نیب کی وہ تلوار جو صرف حزبِ اختلاف کے سر پر ہی منڈلاتی نظر آتی ہے، ان کے دروازے پر آپہنچی۔ رہبر کمیٹی کے چیئرمین اکرم درانی ہر ہفتے نیب کی عدالت بلا لیے جاتے ہیں اور اب تو حد یہ ہے کہ ان سے ان کی پچاسی سالہ بیمار والدہ کے بھی پچھلے چالیس سال کے اعداد و شمار مانگے جا رہے ہیں۔ احتساب کا یہ سلسلہ شروع ہوئے ایک سال ہونے کو ہے مگر ابھی تک کسی بھی کیس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، کوئی ثبوت پیش نہیں کیے گئے اور لگتا یوں ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت جو محض کرپشن کے دبنگ نعروں کے سہارے اپنا پانچ سالہ دور اقتدار پورا کرنا چاہتی تھی، اپنا ایک سالہ اہداف بھی پورے نہیں کر پا رہی۔ اب جیسے ہی تحریک انصاف کی حکومت کو یہ خدشہ محسوس ہوا کہ ان کے اپنے لوگ مالم جبہ، بی آر ٹی اور بلین ٹری سونامی کیس میں پکڑے جانے کے قریب ہیں اور حزب اختلاف کے رہنمائوں پر کرپشن کا کوئی کیس ثابت نہیں ہو رہا تو انہوں نے فوراً نیب کے قانون میں نہ صرف ترمیم کرلی بلکہ اسے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نافذ بھی کر دیا، حالانکہ حزبِ اختلاف نے سینیٹ کے اندر نیب قانون میں ترمیم کا بل اس سے پہلے ہی جمع کرا رکھا تھا اور ایک عام جمہوری تقاضا بھی یہی تھا کہ حزب اختلاف کے ساتھ مل کر وہ ترامیم کی جاتیں تاکہ پورے سماج میں ان ترامیم کو پذیرائی حاصل ہوتی۔ سیاسی مدبرین کا خیال ہے کہ بعض ادارے اور حکومت تو پہلے ہی نیب کی احتسابی دسترس سے باہر تھے، اب بیورو کریسی، جاگیردار اور سرمایہ دار بھی اس کی دسترس میں نہیں رہیں گے جبکہ حزب اختلاف بدستور اس کے انتقام کا نشانہ بنتی رہے گی۔ اس نئے آرڈیننس کی وجہ سے نیب، پٹواری سے لے کر وفاقی سیکرٹری تک براہ راست کارروائی نہیں کر سکے گا۔ اس قانون کے مطابق طریقہ کار کی غلطی سے جن سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کے خلاف مقدمات بنائے گئے ہیں، اگر انہوں نے کوئی مالی فائدہ نہیں اٹھایا تو ایسے مقدمات واپس لے لیے جائیں گے۔

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو اندرونی طور پر بالخصوص بیورو کریسی کے ذریعے یہ پیغامات مل رہے تھے کہ نیب کی بے انتہا طاقت کی وجہ سے پورا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے اور اس قانون پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے، لیکن جس طرح اچانک یک جنبش ِ قلم سے راتوں رات اس آرڈیننس کا نفاذ کیا گیا ہے، اس سے بہت سارے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ درحقیقت پاکستان کا اصل مسئلہ معاشی ہے جو کبھی سیاسی، سماجی، انتظامی اور کبھی دیگر مسائل کی شکل میں سامنے آتا ہے، اس کا حل راتوں رات آرڈیننس کے نفاذ سے نہیں نکل سکتا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان حکومت نے جس طور سے پارلیمنٹ کی توقیر کو کم کیا ہے، اس کی نظیر کسی اور جمہوری دور میں نہیں ملتی۔ 12مارچ 2020ء تک سینیٹ کا اجلاس کم از کم ایک سو اسی دن تک جاری رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن بدقسمتی سے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی کے بعد پچھلے چار مہینوں سے کسی ناگزیر وجہ سے یہ اجلاس نہیں بلایا گیا اور اب جبکہ حزب اختلاف نے اجلاس بلانے کی ریکوزیشن دی ہے تو حکومت نے خود اجلاس طلب کر لیا ہے لیکن اس کے باوجود 55دن کی کمی جسے بارہ مارچ تک پورا کرنا ہے، حکومت کی دسترس سے باہر ہے۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ حزب اختلاف کے ساتھ مل بیٹھ کر نیب قانون کو حتمی شکل دی جائے تاکہ احتساب کا عمل جس کے ساتھ تحریک انصاف کی حکومت ایک سال سے کھلواڑ کر رہی ہے، کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ سیاسی مسائل کے حل میں سب سے بڑا مسئلہ عمران خان کی انا کا بھی ہے جس کی وجہ سے وہ قائد حزب اختلاف کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دیتے ہیں حالانکہ یہ ایک لازمی آئینی ضرورت ہے جسے ہر حال میں پورا ہونا ہے۔ ایسا کیے بغیر چیف آف آرمی اسٹاف کی ایکسٹینشن اور الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری جیسے اہم مسائل حل نہیں ہو پائیں گے۔ اس لیے عمران خان کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد اپنے خول سے باہر نکلیں اور اپنی اَنا کو قوم کے بہتر جمہوری مستقبل پر قربان کر دیں تاکہ جمہوریت ارتقا پذیر ہو سکے کیونکہ یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے پاکستان کے بائیس کروڑ عوام جمہوریت کے ثمرات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

تازہ ترین