• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انگریزی میں کہتے ہیں کہ اگر انہیں پیٹ نہیں سکتے تو ان کے ساتھ ہو جاﺅ۔ پاکستان میں طالبان کے سلسلے میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں تیس ہزار سے زائد شہریوں اور سات ہزار سے زائد فوجیوں، پولیس و دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اراکین کی ان کے ہاتھوں ہلاکتوں اور ملالہ یوسفزئی اور ان کی ساتھیوں پر قاتلانہ حملوں اور ہزاروں کے مفلوج و معذور ہونے،کئی ارب روپوں کے نقصانات کے بعد اب انہی طالبان کے ساتھ بات چیت کی باتیں ہورہی ہیں۔ اوپر سے عذر یہ ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے گزشتہ دس برسوں میں پاکستان میں ان کا قلع قمع کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں اس لئے ان کے ساتھ میز پر آکر مذاکرات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے یعنی تھانیدار اگر اپنے علاقے میں مجرموں کو پکڑنے میں ناکام ہوجائے تو پھر ان سے ڈائیلاگ کیا جائے یا پھر ان سے منت سماجت کی جائے کہ وہ بیشک کمین گاہیں تو اس تھانیدار کے علاقے میں بنائیں لیکن وارداتیں کسی اور علاقے میں جاکر کریں۔ طالبان و دیگر شدت پسند، انتہاپسند گروپوں کے ضمن میں پاکستانی ریاستی اداروں و یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے بھی یہی کچھ کیا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب ان شدت پسند مسلح گروہوں سے نمٹنے کیلئے کوئی بھی دبنگ قسم کا ایس ایچ او کافی ہوتا تھا اب ان کو ملی ہوئی ریاستی ڈھیل سے یہ اتنے پھیل گئے کہ دو ڈویژن فوج بھی ان سے نبردآزما نہیں ہو سکتی! یہ سب کچھ بمشکل گزشتہ دو دہائیوں میں ریاستی اداروں کے ناک کے نیچے یا پھر ان کے دستِ شفقت کے ساتھ ظہور پایا ہے۔ نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کاشغر یہ جو مذہبی شدت پسندی، عسکریت پسندی کی پائپ لائن بچھائی گئی ہے اس سے پھوٹتے چشموں نے ملک پاکستان کو ایک بڑے شہر خموشاں میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ ریاست، ریاستی ادارے، حکومت، میڈیا خاموش ہیں، ان کے آگے بے بس ہیں۔ بچارے عوام ہیں کہ بقول فراز:
سہمی سہمی دیواروں میں سایوں جیسے رہتے ہیں
اس گھر میں آسیب بسا ہے عامل کامل کہتے ہیں۔
یہ آسیب کئی سال ہوئے ایک عفریت میں تبدیل ہوچکا ہے جس سے اب مذاکرات کا موڈ بنایا جا رہا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا جس کے عوام اور سماج کا تیہ پانچہ سب سے زیادہ کردیا گیا ہے جس کے قبائلی علاقوں کے چھ سے زائد مشران اس طرح ہلاک کردیئے گئے کہ ایک قبیلے کے مشر کے ہلاک ہونے کے بعد ان کے قیبلے میں جب کوئی بالغ مرد موجود نہ رہا تو مقتول مشر کے چھوٹے بچے معیز خان کو مشر بنادیا گیا جہاں موجودہ حکمران پارٹی عوامی نیشنل پارٹی کے کارکن اور قیادت کے لوگ سب سے زیادہ نشانہ بنے ہیں اس پارٹی نے طالبان سے مذاکرات پر اے پی سی بلالی حالانکہ اسی پارٹی نے ماضی میں فوجی آمر مشرف حکومت کی طرف سے جب سوات میں فضل اللہ سے معاہدہ کیا تھا تو اسی اے این پی نے اس کی مخالفت کی تھی اور درست کی تھی پھر آپ نے دیکھا کہ سوات میں جو فضل اللہ نے حشر کیا۔ بغداد کے تاراج کئے جانے کے بعد تاتاریوں سے کیسے مذاکرات۔ سوات و دیگر مقامات پر لڑکیوں کے دو سو سے زائد اسکول جلادیئے گئے، پولیو ورکروں اور سول سوسائٹی کے اراکین و عالمی ایڈ ورکر قتل کئے گئے، فوجی جوانوں کو ذبح کردیا گیا، فنکاروں کو قتل کیا گیا، عورتوں کو کوڑے مارے گئے اور اب مذاکرات!
طالبان آئرش ری پبلیکن آرمی نہیں اور نہ ہی افریکن نیشنل کانگریس ہے۔ سری لنکا کی فوج کو تربیت دینے والے پاکستانی سیکورٹی اداروں کو سری لنکا جیسے ملک کی حکومت سے سبق سیکھنا چاہئے کہ کس طرح انہوں نے تامل ایلم یا تامل ٹائیگرز جیسی جنوبی ایشیاءکی شدت پسند دہشت گرد تنظیم کو شکست دی۔
ریاستی ادارے جو بلوچوں کو تو مار لگاتے ہیں ان کے گھروں کو ان کے گمشدہ بچوں، بوڑھوں، جوانوں کی مسخ شدہ لاشیں بھیجتے ہیں لیکن طالبان سے مذاکرات کرنے نہ کرنے کی صوابدید سیاسی حکومت کا ڈرامہ رچاتے ہیں۔
ہزارہ قوم کے دو ہزار لوگوں کے قتل اور اتنی ہی تعداد میں شریف انسانوں کے قتل عام کرنے والے بھی تو طالبان کی ہی فرنچائز ہیں، کون نہیں جانتا؟ بینظیر کو قتل کرنے والے بھی کس کی فرنچائز تھے؟ کس کے اسٹرٹیجک اثاثے تھے۔ نواز شریف، منورحسن اور مولانا فضل الرحمن جیسے رہنماﺅں پر طالبان کی طرف سے اعتماد کا اظہار،کل کے مورخ کی نظر میں انہیں معتبر نہیں گنوائے گا۔ سند رہے تاکہ بوقت ضرور کام آئے کہ بینظیر بھٹو کو مبینہ طور پر قتل کرنے والوں نے نواز شریف، فضل الرحمن اور منورحسن پر اعتماد کا اظہار کیا، ان کو مذاکرات کا ضمانتی گردانا۔ کیا اب بھی انہیں طالبان کے وکیل یا ان کا سیاسی چہرہ نہیں کہا جا سکتا؟
طالبان خلاف انسانیت مجرم ہیں جن کی سرپرستی میں اتنے ہی مجرم بینظیر بھٹو اور ان کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر تھے جنہوں نے انہیں اپنا بچہ قرار دیا تھا۔ یہ جو سندھ میں اب ان کی موجودگی کا رونا رویا جارہا ہے ان کی پہلی نسل کے کھرے تو انس سو چھیانوے سے ہی سندھ میں ملنے شروع ہوگئے تھے جب شکارپور کا لطیف بروہی نامی نوجوان طالب اپنی گلی محلے میں کابل کی فتح کے قصے بتاتا تھا۔ جب کراچی کے مدرسوں میں پڑھنے والے نوجوان غائب ہوکر ڈبل کیبنوں اور بسوں میں بھر بھر کر بغیر کسی سفری دستاویزات کے پاکستان افغان سرحد پار کرکے افغانستان جہاد کرنے پہنچے تھے۔ اب یہ شمالی و جنوبی وزیرستان سے براستہ کوئٹہ شوریٰ و کراچی سمیت سندھ کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں کب کے پہنچ چکے ہیں۔اس سے اندازہ لگائیں کہ زبردستی تبدیلی مذہب کی شکار ایک لڑکی کے ماموں کو بھتے کے دھمکی ٹیلیفون پر افغانستان کے نمبر سے ملتی ہے۔ فلموں کا جدی پشتی معروف تقسیم کار اغوا ہوکر وزیرستان سے واپس ہوتا ہے۔ امریکی صحافی ڈیوڈ روڈس افغانستان سے اغوا ہوکر وانا سے اغوا کنندگان کے چنگل سے ”بھاگ“ آتا ہے۔ سوات آپریشن شروع ہونے سے بھی قبل یہ ”اچھے طالبان“ براستہ ڈیرہ اسماعیل خان و ڈیرہ غازی خان جنوبی پنجاب اور سندھ بلوچستان بارڈر پر پہنچادیئے گئے تھے۔ یہ ایک اور تورا بورا تھا۔ دریائے سندھ کے کچے کے ملحقہ علاقوں میں ان کی موجودگی کی اطلاعات تو ان وفاقی پیرا ملٹری انٹیلی جنس کی رپورٹوں میں بھی ہیں جنہیں داخل دفتر کردیا گیا۔ پنجابی طالبان کی اصطلاح سے خادم پنجاب کیوں چڑ کھاتے ہیں جن کو حقیقت میں انہوں نے کسی تھانیدار کی طرح ان کے علاقے میں وارداتیں نہ کرنے کی گزارش کی تھی۔کیوں اب پنجاب میں کسی شیعہ شخصیت کو پی ایم ایل این میں شامل کرنے سے احتراز برتا جاتا ہے؟ اب یہ متھ بھی ٹوٹنے لگی ہے کہ صوفیوں اور ولیوں کی سرزمین سندھ اس طالبانی عفریت سے محفوظ رہی تھی کہ سندھ کے لوگ صوفی مزاج لوگ ہیں۔ سندھ میں صوفی سندھ کا تو فیبرک اس دن ہی ادھڑ گیا تھا جب انیس سو ستانوے میں ٹھٹھہ ضلع کے ایک پُرسکون نیلگوں جھیل کینجھر اور مرتے ہوئے کھجوروں کے درختوں والے چھوٹے سے پُرسکون شہر جھمپیرمیں پاراچنار کے ایک صوفی اور اس کے بھانجے کو عید کے دن بعد نماز عید ایک ہجوم نے سنگسار کردیا تھا۔ پارا چنار سے فرقہ وارانہ خونریزی کے خلاف آواز بلند کرنے پر اپنا آبائی شہر ترک کر کے سندھ کے جھمپیر شہر میں اپنا آستانہ بنانے والے صوفی کے خلاف دوران خطبہ عید ایک مولوی نے نمازیوں کو بھڑکایا تھا اس کا تعلق سجاول شہر کے ایک مدرسے سے تھا۔ حال ہی میں جیکب آباد میں انتہائی عقیدت رکھے جانے والے بزرگ حسین شاہ ، شکارپور میں علاقے کے صوفیوں کے مرشد سید غلام شاہ جیسے صوفی پر قاتلانہ حملے صوفی سندھ کے چہرے پر گویا تیزاب پھینکنے کے مترادف ہے۔ اس سے قبل شکارپور میں خانپور کے قریب ڈاکٹر ابراہیم جتوئی اور ان کی امام بارگاہ میں گزشتہ محرم کی مجلس کے دوران ناکام خودکش حملہ اور نیٹو کے ٹرکوں پر منظم حملے بتارہے ہیں کہ سندھ بھی پاکستان کے باقی صوبوں کی طرح طالبانی نرغے میں آ چکا ہے۔ خانپور شکارپور سے میرا دوست مجھے بتارہا تھا کہ کس طرح دیکھتے دیکھتے گزشتہ کچھ عرصے سے ان کے گاﺅں میں باریش گنڈاسے والے پیدا ہوئے ہیں جو گاﺅں میں موسیقی کی محفلیں کرنے نہیں دیتے اور گنڈاسے لیکر تقریبات میں پہنچ جاتے ہیں۔ اب اہل حکومت اور سیاست ایسے لوگوں سے مذاکرات کیلئے بے چین ہوئے جاتے ہیں۔ شاید یہ ایک ایسی فاش غلطی ہو کہ جس سے بوئی جانے والی فصل کئی نسلوں تک کاٹنی پڑے۔
تازہ ترین