• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جی نہیں، اس طرح نہیں ہو سکتا۔ امن و امان بحال کرنا ہے، ٹارگٹ کلنگ روکنی ہے، فرقہ وارانہ ہلاکتوں کو ختم کرنا ہے، تو اس طرح نہیں ہوگا۔ اپنے رویّے تبدیل کرنا ہوں گے ۔ مجرموں کی پشت پناہی نہیں ہوگی، ہر عصبیت ، ہر تعصب سے بالاتر ہونا ہوگا تب ہی مطلوبہ نتائج حاصل ہوں گے ورنہ امن، خواب و خےال سے بھی دور ایک خواہش ہی رہے گا اور دور ہوتا جائے گا۔ امن و امان کے حصول کا تعلق نیت سے ہے اور اگر یونہی کرنا ہے تو پھر قتل و غارت روکنے کی ذمہ داری قبول کریں، قاتلوں کے ہاتھ پکڑیں، قاتلوں کو صرف قاتل سمجھیں، جان لیں وہ صرف قاتل ہیں۔
سب کہتے تو یہی ہیں بار بار، با اصرار کہ قاتلوں کا، دہشت گردوں کا کسی مذہب، کسی مسلک، کسی لسانی گروہ سے کوئی تعلق نہیں، وہ صرف قاتل ہیں، دہشت گرد ہیں۔کےا اس پر یقین بھی رکھتے ہیں؟ حقائق کچھ اور ظاہر کرتے ہیں۔
پورے ملک میں، کوئٹہ میں، کراچی میں دہشت گردی ہوتی ہے، سیکڑوں لوگ مارے جا چکے ہیں، اس تعداد میں روز ہی اضافہ ہوتا ہے ۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے لوگ نشانہ بنتے ہیں، اےک ہی حملہ میں سو سوا سو بے گناہوں کے گھر اجاڑ دیئے جاتے ہیں،کراچی میں ہر روز دس بارہ گھروں کے چراغ بجھا دیئے جاتے ہیں، مہینہ میں کوئی ڈھائی تین سو۔ قاتل اور دہشت گرد دندناتے پھرتے ہیں۔
سب طبقات کے لوگ، تمام مسالک کے حامی اور ان کے قائدین ان قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں، جائز مطالبہ ہے کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچاےا جائے۔ اس سے کس کو اختلاف ہو سکتا ہے کہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کے خون میں ہاتھ رنگنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے، اس کی کےا اہمیت کہ ان کا تعلق کس طبقے سے ہے۔ اس مطالبہ کے حق میں جلوس نکلتے ہیں، امن مارچ ہوتے ہیں، دھرنے دیئے جاتے ہیں، طویل دھرنے۔ شہری تکلیف برداشت کرتے ہیں، منٹوںکا سفر گھنٹوں میں طے کرتے ہیں ، شکاےت نہیں کرتے، نیک مقصد کے لئے قربانی دیتے ہیں، خاموشی سے اپنا حصہ ڈالتے ہیں،قاتلوں اور دہشت گردوں کی گرفتاری کے مطالبے کے حق میں اپنی آواز شامل کرتے ہیں، براہ راست نہ سہی، بالواسطہ ہی سہی، ملک میں، شہر میں امن و امان کی بحالی میں کچھ کردار ادا کر ہی دیتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں مظلوم صرف مظلوم ہے، صرف مظلوم۔ وہ بے گناہ مارے گئے ہیں، مارے جا رہے ہیں، اپنے مسلک کی وجہ سے، اپنی زبان کی وجہ سے، اپنی پیدائشی شناخت کی وجہ سے۔
مارنے والے کوئی تو ہیں، یقینا۔ انہی کی گرفتاری کے لئے تو سارے احتجاج، سارے دھرنے، سارے مارچ ہوتے ہیں، سارے مطالبات اسی لئے تو ہیں کہ ان ظالموں کو پکڑا جائے،انہیں سزا دی جائے۔ اگر وہ قانون کے ہاتھ نہیں آئیں گے تو اسی طرح معصوم لوگوں کی جان لیتے رہیں گے، گھر اجاڑتے رہیں گے، امن و امان خراب کرتے رہیں گے۔ انہیں گرفت میں لانے کے لئے ہی تو ساری تگ و دو ہوتی ہے اور بالآخر ان میں سے کچھ کبھی نہ کبھی گرفتار کر لئے جاتے ہیں، جب معاملات حد سے مزید باہر نکلتے ہوئے لگتے ہیں تو قانون نافذ کرنے والوں کو کارروائی کرنا پڑتی ہے، ان جانکاہ وارداتوں میں ملوث ہاتھوں کو پکڑنا پڑتا ہے۔ مطالبہ بھی تو یہی ہے کہ قاتلوں کو گرفتار اور دہشت گردوںکا قلع قمع کےا جائے ۔ کارروائی ہوتی ہے، چھاپے مارے جاتے ہیں، ملزمان گرفتار کئے جاتے ہیں،کوئٹہ سے، کراچی سے، دوسرے علاقوں سے۔ ان میں سے بعض پر صرف شبہ ہوتا ہے، بعض اپنے کرتوتوں کا اعتراف بھی کر لیتے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ ان اقدامات کی تعریف کی جائے، قانون کا ساتھ دیا جائے، مجرموں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچنے کا انتظار کےا جائے۔ معاملات عدالتوں کو طے کرنے دیئے جائیں مگر ایسا ہوتا نہیں۔ مرنے والوں کی طرح پکڑے جانے والے بھی کسی نہ کسی مسلک، کسی نہ کسی لسانی گروہ، کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوتے ہیں، اکثر ان کے کارکن ہوتے ہیں۔ ان کے سرپرست، ان کے حامی ایک بار پھر احتجاج شروع کردےتے ہیں۔ کل قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ تھا، آج ان کی رہائی کے لئے جلسے جلوس۔ کہا یہ جاتا ہے بے گناہوں کو پکڑلےا گےا، اگر ہمارے لوگ رہا نہیں کئے گئے تو دھرنا دیں گے، احتجاج کریں گے، راستے بند کردیں گے۔ دھرنے دیئے جاتے ہیں، احتجاج کےا جاتا ہے، پکڑے جانے والوں کو بے گناہ قراردے دےا جاتا ہے، کسی عدالتی کارروائی کے بغیر۔
ماناکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کبھی کبھی اپنے حدود سے باہر نکل جاتے ہیں، بے گناہوں کو پکڑ لیتے ہےں ،خانہ پری کے لئے مگر کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اصل مجرم ہی پکڑے جاتے ہیں، ادارے اتنے ناکارہ بھی نہیں کہ کام کرنا چاہیں تو کرنہ سکیں۔ جب وہ کام کرتے ہیں تو قاتلوں کا سراغ مل جاتا ہے، ان کے سرپرستوں کا بھی پتہ چل جاتا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہر سےاسی جماعت، ہر مسلک اور ہرلسانی گروہ اپنے اپنے لوگوں کا سرپرست ہے ،انہیں پناہ بھی دیتا ہے اور جب قانون کے ہاتھ ان قاتلوں تک پہنچتے ہےں تو احتجاج کرتا ہے،دباو ¿ ڈالنے کے سارے حربے استعمال کرتا ہے۔ابھی ان کا مطالبہ تھا کہ قاتلوں کو گرفتار کیا جائے،اب احتجاج اس لئے کہ قاتلوں کو چھوڑا جائے۔
ےہ مقتول میرا تھا، اس کا قاتل چاہئے۔ےہ بے گناہ ہے ، یہ قاتل میرا ہے ۔ ےہ کسی اےک طبقہ،فرقہ یا سیاسی جماعت کا روےہ نہیں ، سب کا ہے،شاےد ہی کوئی استثنیٰ ہو۔کیا ایسا ہی ہونا چاہئے؟ جی نہیں۔ کوئی بھی ذی ہوش فرد اس سے اتفاق نہیں کرسکتا۔ یہ بہت غلط روایت پڑ گئی ہے۔ مہذب معاشر ے ان سے ناآشنا ہیں۔ بات یوں نہیں بنے گی۔ امن و امان بحال کرنا ہے تو قانون کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے۔ےہ طے کرنا ہوگا کہ قاتل صرف قاتل ہے۔ وہ میرا نہیں ہے، وہ تیرا نہیں ہے، وہ کسی کا بھی نہیں ہے۔ وہ صرف قاتل ہے اور بس۔ انصاف اندھا اسی لئے کہلاتا ہے کہ اپنے پرائے مےں تمیز نہےں کرتا اور تمیز کر بھی کےسے سکتا ہے، اسوہ ¿ حسنہ ان تمام عالموں سے بہتر کون جانتا ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے تو اپنی عزیز ترین صاحبزادی حضرت فاطمہؓ تککا ہاتھ کاٹنے کی بات کی تھی، اگر خدانخواستہ وہ چوری میں ملوث ہوتیں۔ اس میں سبق ہے، رہنمائی ہے۔ وہ سب جو دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں،قاتلوں کو کےفر کردار تک پہنچانا چاہتے ہیں ، لسانی، مسلکی،سےاسی شناخت کو ایک طرف رکھیں۔ قاتلوں، دہشت گردوں کے خلاف متحد ہو جائیں۔ آپ اپنے ہم خےال قاتلوں کو تحفظ دیں گے تو دوسروں کے بھی مسلک اور فکر کے قاتل ہیں وہ انہیں تحفظ دیں گے اور یہ قاتل آزاد ہو کر پھراسی غےر انسانی کام میں لگ جائیں گے، کوئی اور ڈاکٹر ان کے ہاتھوں مارا جائے گا، کچھ اور علماءنشانہ بنیں گے، کچھ عام لوگ قتل ہوں گے، کچھ اور گھر اجڑیں گے، حالات بگڑتے جائیں گے۔ سدھریں گے تب ہی جب آپ سب اپنا رویہ بہترکریں گے،ظالم کا ساتھ دینے کی بجائے اس کا ہاتھ پکڑیں گے۔ آپ سب مظلوم کے ساتھ ہوں بات ےونہی بن سکتی ہے،یونہی بنے گی، فیصلہ تیرا تےرے ہاتھوں میں ہے۔
تازہ ترین