• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ نے 2003ء میں ایک مفروضے کو جواز بنا کر عراق پر حملہ کیا تھا، 16سال بعد پھر امریکہ نے ایک مفروضے کو جواز بناکر عراق کے دارالحکومت بغداد میں ہی ایرانی ملٹری کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کو ایک حملے میں شہید کر دیا۔

2003ء میں اس نے یہ مفروضہ قائم کیا کہ عراق کے پاس کیمیائی ہتھیار ہیں جو وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ امریکہ اس مفروضے کو کبھی درست ثابت نہیں کر سکا۔

3جنوری 2020ء کو جنرل قاسم سلیمانی پر حملے کا یہ جواز بنایا گیا کہ جنرل قاسم سلیمانی امریکیوں پر بڑے حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ یہ مفروضہ بھی کبھی درست ثابت نہیں ہوگا۔ عراق پر امریکی حملہ نہ صرف عراق بلکہ دنیائے اسلام کی تباہی کا آغاز تھا اور اب امریکہ کی حالیہ مہم جوئی عالم اسلام کے حوالے سے امریکی ایجنڈے کی آخری کڑی ہے۔

ایران اس امریکی کارروائی پر سخت جواب دینے کا اعلان کر رہا ہے، وہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ یہ جواب کسی بھی وقت، کسی بھی شکل میں دیا جا سکتا ہے۔

امریکہ جنرل قاسم سلیمانی کو ایک افسانوی شخصیت کے طور پر پیش کرکے یہ تاثر دے رہا ہے کہ اس نے انتہائی کامیاب فوجی مہم جوئی سے ایران کا بہت بڑا نقصان کر دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی بہت اہم شخصیت تھے اور ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے بعد ان کا ایران کے طاقت کے ایوانوں میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ تھا ۔

گزشتہ دو عشروں سے امریکہ نے اپنی جنگوں کا میدان اسلامی دنیا کو بنایا ہوا ہے۔ وہ اپنی سرزمین پر کبھی جنگ نہیں لڑتا بلکہ دوسروں کی زمین پر یہ جنگیں لڑتا اور لڑاتا ہے۔ دوسروں کی سرزمین پر اسے علاقائی ممالک کی حمایت درکار ہوتی ہے۔

امریکہ ایران کے خلاف اس جنگ میں اپنے اتحادیوں کو ملوث کرے گا اور یہ جنگ بالآخر مسلم ممالک کے مابین جنگ بن جائے گی۔ وہ یہ کوشش کریگا کہ اس جنگ کو مسلمانوں کی فرقہ وارانہ جنگ بنا دے۔ عالم اسلام کی فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کو گہرا کرنا اس کا بنیادی ایجنڈا ہوگا۔

مسلم دنیا کی تباہی کے ایجنڈے کے پیچھے ایک اور ایجنڈا بھی کارفرما ہے۔ امریکہ اور مغرب کو 20ویں صدی کے آخری عشروں میں محسوس ہو گیا تھا کہ مشرق میں معاشی ابھار ہے اور مشرق بالآخر مغرب کی بالادستی ختم کرنے جا رہا ہے۔ چین اور بھارت کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک بڑی معاشی طاقت بن کر ابھر رہے ہیں۔ مسلم دنیا کی تباہی دراصل ایک بڑے ایجنڈے کا ذیلی ایجنڈا ہے۔

مشرق کی ابھرتی ہوئی طاقت کو روکنے کیلئے 2001ء والے اس ذیلی ایجنڈے کو ایران کے ساتھ تصادم کے ذریعے مکمل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اب صورتحال بہت تبدیل ہو چکی ہے۔ دنیا میں نئی صف بندی ہو رہی ہے۔ چین، روس، ملائیشیا، انڈونیشیا، جاپان اور شمالی کوریا سمیت مشرق کی کئی اہم اور ابھرتی ہوئی طاقتیں اس خطے میں پہلے کی طرح امریکی فوجی مہم جوئی کو برداشت نہیں کریں گی۔

بھارت اگرچہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے اپنے تجارتی اور معاشی مفادات کی وجہ سے کھل کر اس کی مخالفت نہیں کرے گا، حالانکہ اس کے ایران کے ساتھ تعلقات بھی بہت اچھے ہیں لیکن بھارت یہ بھی نہیں چاہے گا کہ اس خطے میں امریکی فوجی موجودگی میں اضافہ ہو یا کوئی نئی جنگ شروع ہو۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ عالم اسلام اگرچہ پہلے سے زیادہ تقسیم ہے لیکن یہ تقسیم پہلی مرتبہ امریکہ مخالف اور امریکہ کے حامیوں کے درمیان ہوئی ہے۔

امریکہ اس صورتحال کو ضرور مدنظر رکھے گا لیکن یہ بھی خدشہ ہے کہ اس خطے میں اپنے قدم مزید جمانے، عالم اسلام کے باقی ماندہ ملکوں کو کمزور اور مجموعی طور پر مشرق کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لئے تصادم اور جنگ کو ترجیح دے گا۔

پاکستان کے لئے یہ صورتحال بہت بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے سب سے زیادہ خطرناک معاشی اور سیاسی بحران سے دوچار ہے۔ امریکی جنگیں لڑتے لڑتے پاکستان اس حال کو پہنچا ہے، اب ایک اور جنگ ہماری سرحدوں پر منڈلا رہی ہے، اب پھر امریکہ کی طرف سے کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ساتھ ہو یا نہیں؟

پاکستان کے فیصلہ سازوں کے لئے بہت مشکل وقت ہے۔ امکان ہے ڈالرز کی کشش سے پاکستان کو جنگ میں جھونکنے کی کوشش کی جائے۔ اگر ہمارے فیصلہ سازوں نے درست فیصلہ نہ کیا تو اب ہمارے پاس تاریخ میں غلطی کی گنجائش نہیں۔ پاکستان کو اس صورت حال سے نکلنے کے لیے مسلم ممالک کے اتحاد کیلئے کام کرنا چاہئے۔ اب کوئی اور راستہ نہیں ہے۔

داخلی سطح پر مذہبی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کیلئے ضروری اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس وقت پاکستان سمیت پورا عالم اسلام ایک فیصلہ کن آزمائش سے دوچار ہے۔

تازہ ترین