• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قاضی حسین احمد ؒ ایک سچے مردِمجاہد تھے اور ان کی داستان ایمان افروز اور اپنے عہد کاروشن استعارہ ہے۔ قاضی صاحبؒ، مولانا مودودیؒ کی فکر، اقبال شناسی، قرآن اور حضورﷺ سے گہرے عشق اور عہد ساز شخصیت تھے۔ جب پاکستان اور اسکے پڑوس افغانستان میں عالمی استعماری قوتوں کے تسلط کے قیام کی سازشیں ہونے لگیں تو قاضی حسین احمدؒ اہل پاکستان اور عالمِ اسلام کو احیائے دین، غیرتِ ایمانی، جرأت و تدبر کیساتھ ولولہ تازہ دینے کیلئےمیدان میں مردانہ وار نکلے اور افغانستان، کشمیر، سعودی عرب، ایران، عراق، فلسطین، سوڈان، وسط ایشیائی ریاستوں، بنگلا دیش، ملائیشیا اور ترکی میں بہت ہی گہرے اثرات پیدا کئے اور استعماری قوتوں سے آزادی کی تحریک اور اتحادِ اُمت کا گہرا اور دور رس فِکر و عمل کا حسین امتزاج پیدا کیا۔ قاضیؒ حسین احمد کے اصولوں، اسلوبِ فکر اور عمل کے میدان میں کینوس اتنا وسیع تھا کہ پاکستان اور امت کے ہر مسئلہ بالخصوص اسلام، انسان اور مسلم دشمن ہر قوت کے شیطانی عمل پر ضرب لگائی، مضبوط آواز بلند کی، خوف و مصلحت نامی شے ان میں جیسے تھی ہی نہیں، جو حق سمجھا اور جانا، بے دھڑک اور اللہ پر کامل توکل کے ساتھ کہہ دینا ہی اُن کا کردار تھا۔قاضی حسین احمد ؒ نے اسلامی تحریک کے ہر فرد پر اپنی شخصیت، اخلاص اور محنت سے گہرے اور انمٹ نقش چھوڑے، 6جنوری 2013ء کو اُنکی رحلت ایک عظیم صدمہ تھا، ہر انسان نے دنیا سے جانا تو ہے ہی لیکن موت کے بعد بھی رہ جانے والے کے نیک اعمال کے ناتے اُن سے تعلق ختم نہیں ہوتا اور وہ اسے مسلسل فائدہ پہنچاتے ہیں۔ ان اعمال میں سے ایک نیک اولاد ہے۔ قاضی حسین احمد مرحوم کو اللہ نے دو بیٹیاں اور دو بیٹے عطا کئے جو نیک اور صالح ہیں۔ قاضیؒ صاحب نے صرف چار بچے پیچھے نہیں چھوڑے بلکہ بے شمار روحانی بیٹے، بیٹیاں چھوڑے ہیں، جو اُن سے محبت کرنے اور ان کے لیے مغفرت اور درجات کی بلندی کی دعا کرنے والے اور اُن کے نقشِ قدم پر چلنے والے ہیں۔

مجاہد اور بہادر قاضیؒ کے ساتھ مصر سے اخوان المسلمون، ترکی سے رفاہ، افغانستان سے حزب اسلامی اور جمعیت اسلامی، ملائیشیا سے پاس پارٹی کی قیادت کا بہت ہی گہرا تعلق تھا۔ اس تعلق کا مقصد یہ تھا کہ اسلامی تحریکیں متحد ہوں، دینِ اسلام کے لیے کام کرنے والی تحریکیں ایک سمت میں چلیں یعنی اسلامی تحریکوں میں شورائی نظام مستحکم کرنا، عدم برداشت اور تشدد کو بطور وسیلہ مسترد کرنا۔ قاضی ؒ صاحب کا یہی جذبہ تھا کہ پاکستان میں نفاذِ شریعت کیلئے دینی جماعتوں اور قیادت کو متحد کیا۔ جب ملک میں فرقہ واریت عروج پر تھی اور مساجد و مدارس، مزارات و خانقاہیں اور امام بارگاہیں سب غیر محفوظ تھے تو اتحاد و وحدت کے جذبہ سے ملی یکجہتی کونسل کی صورت میں تمام مسالک کی قیادت کو متحد کیا اور انتخابی پارلیمانی محاذ پر بھی دینی جماعتوں کو متحدہ مجلس عمل کے اتحاد کی صورت میں اکٹھا کرنے کا عظیم الشان کام سر انجام دیا۔ قاضیؒ صاحب کی زندگی سعادت و جدوجہد سے بھرپور تھی، انہوں نے اپنے اخلاق، کردار اور حسنِ سلوک سے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا، کروڑوں دلوں میں جگہ بنائی اسی لیے اُن کا یوں دنیا سے رخصت ہوجانا بہت غمگین کرنے والا تھا۔ قاضی حسین احمدؒ ایک عظیم رہنما، مربی اور ہمارے امیر تھے، ہر پارٹی اور رہنما، ہر مکتب ِ فکر کا شاعر و دانشور اُنہیں عزت و تکریم کا مقام دیتا تھا۔ مجھے اُن کے ساتھ جماعت اسلامی کی قیادت میں جہادِ افغانستان، جہادِ کشمیر، شریعت محاذ، ملی یکجہتی کونسل، متحدہ مجلس عمل، پاکستان اسلامی فرنٹ، اے پی ڈی ایم، پارلیمنٹ کی جدوجہد، کاروانِ دعوت و محبت، جماعت اسلامی کے اجتماعاتِ عام، ٹرین مارچ، دھرنوں، لانگ مارچ اور اَن گنت محاذوں پر کام کرنے کا اللہ تعالیٰ نے موقع عطا کیا۔ میرے اور میرے خاندان سے اُن کی خصوصی محبت تھی۔

قاضیؒ صاحب ملک کے واحد دینی و سیاسی رہنما تھے جو نہ صرف اقبال ؒ کے اردو، فارسی کلام پر گہری نظر رکھتے تھے بلکہ برمحل و برموقع خوبصورت استعمال بھی کرتے تھے۔ مزاجاً قاضیؒ صاحب وسیع المشرب انسان تھے۔ وہ مبلغ، مفکر، خطیب اور ادیب کی حیثیت سے اپنے پیچھے رہ جانے والوں اور غلبہ دین کی جدوجہد کرنے والوں کو عملی پیغام دے کر گئے ہیں کہ اقامتِ دین کیلئے کارکنان ہمیشہ باعمل اور پُرعزم رہیںسیاسی قیادت ہمیشہ سچائی، اصول اور عدل و انصاف اور آئین و جمہوریت کی راہ اپنائے۔ عالم اسلام کی قیادت امت کے درد کو پہچانے اور امت کی شیرازہ بندی کرے، یہی اُمت کی ترقی اور سربلندی کا ذریعہ ہے۔ قاضی صاحب کی شخصیت جماعت اسلامی کے لیے ہی بڑا اثاثہ نہ تھی بلکہ وہ قوم کا سرمایہ تھے۔ تحریک کے کارکن اپنی جہد مسلسل سے اُن کے صدقہ جاریہ کو جاری و ساری رکھیں۔

تازہ ترین