• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے ہاتھ میں تیرا ہاتھ ہو، ساری جنتیں میرے ساتھ ہوں

الیکشن کا موسم بہار سیاسی لوگوں کے لئے اور غریب عوام کے لئے جھوٹے وعدوں اور دھوکوں کا سیزن شروع ہو چکا ہے۔ عوام تو پچھلے 65 برسوں سے بے رنگ اور بے بو موسم میں زندگی کا شرمناک بوجھ اٹھائے چل رہے ہیں، کیا الیکشن کا زمانہ ہے، کل تک جو ایک دوسرے کو طعنے دیا کرتے تھے، آج شیر وشکر ہو چکے ہیں بلکہ گھاڑا شیرا بن چکے ہیں اور یہ شیرا اب عوام کے گوڈوں میں بیٹھنے کو تیار ہے، چہروں پر لالیاں دہک رہی ہیں، مسکراہٹیں پھوٹ پھوٹ کر باہر آ رہی ہیں۔ کل تک جو کسی دوسرے کو چور، ڈاکو اور لٹیرے کہا کرتے تھے، آج خود چوروں کی برا ¿ت کے سربالے بن چکے ہیں، بقول شاعر
میرے ہاتھ میں تیرا ہاتھ ہو
ساری جنتیں میرے ساتھ ہوں
ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ایک دوسرے کو حوصلہ دے رہے ہیں، ملک کو تو لوٹنا ہے تو کیوں نہ مل کر لوٹیں، ہاتھوں کی ایسی زنجیر بنا دی کہ غریب عوام ان سے بچ کر نہ جا سکیں۔ سنیٹر مشاہد اللہ نے ایک ٹی وی مذاکرے میں جنرل مشرف کے بارے میں سچ ہی تو کہا کہ ایک 22 گریڈ کا افسر تو اپنے بچوں کی فیسیں بھی ادا نہیں کر سکتا، جنرل مشرف کیسے باہر بیٹھے موجیں اڑا رہے ہیں اور اب کسی خفیہ اشارے پر ملک آ رہے ہیں، مگر جب الیکشن کے لئے عبوری حکومت قائم ہو گی، بیورو کریٹ، فوجی اور سیاست دان تو سدا سے اس ملک میں موجیں کر رہے ہیں، البتہ ان کی موجوں میں تو غریب آدمی ڈوب گیا ہے۔ آج جنرل مشرف کہتے ہیں کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے اور ملک کو ان کی ضرورت ہے۔ تو پھر جنرل صاحب آپ جو الیکشن میں کروڑوں خرچ کریں گے اور آپ کے چند حواری بھی اپنے گھر بھر لیں، تو اس سے ملک و قوم کو کیا ملے گا۔ بہتر ہے کہ آپ اس ملک کے پسماندہ علاقوں میں ڈسپنسریاں قائم کریں، اس سے ایک تو غریب عوام کا بھلا ہو گا دوسرے آپ کی آخرت کا سامان بھی ہو جائے گا، آپ کے سر پر تو بے شمار بے گناہ بچوں، بڑوں اور خواتین کا خون ہے۔ جس کا یقینا آپ کو روز قیامت حساب دینا ہو گا۔ جنرل صاحب سدا آپ کی صحت اور آواز ایسی نہیں رہے گی۔
لیجئے وزیراعظم راجہ جی نے کیا خوبصورت بیان داغ دیا کہ 5 برسوں میں ہم نے جو کچھ کر دکھایا، کسی اور حکومت نے نہیں کیا، اس کے بارے میں سیاسی پنڈت ہی زیادہ بہتر تجزیہ کر سکیں گے۔ ہم تو صرف اس عوام کی بات کریں گے جو واقعی بے کس، لاچار اور مجبور ہے، جو میٹرو بس، ویگنوں، ٹانگوں، ریڑھیوں، بیل گاڑیوں اور بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر اور ریلوے کے بدبودار ڈبوں میں یا پھر پیدل میلوں سفر کرتی ہے جن کے ووٹوں کی قیمت لگا کر اور زبردستی دباﺅ ڈال کر ان سے اپنے آپ کو منتخب کرایا جاتا ہے اور پھر حاکم اور محکوم والا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ آج الیکشن میں کوئی غریب حصہ لے سکتا ہے؟ صرف ارب پتی اس کھیل میں ہیں، سنیٹر مشاہداللہ نے تو جنرل مشرف کا ذکر کیا، جنہیں دوران ملازمت کے دوران کئی ڈی ایچ اےز میں کئی قیمتی پلاٹ ملے ہوں گے۔ یہاں تو 19گریڈ کا افسر اپنے بچوں کو امریکہ، یورپ اور کینیڈا میں تعلیم دلاتا پھرتا ہے، کبھی اس پر کسی نے پوچھا کہ بھئی تمہاری تنخواہ کیا ہے اور تم کیا کرتے پھرتے ہو کسی بچے نے اپنے باپ سے بڑے ہو کر بھی نہیں پوچھا کہ ابا تمہاری تنخواہ تو پچاس ہزار تھی اور تم نے ہم چار بہن بھائیوں کو امریکہ یا یوکے میں تعلیم کیسے دلوائی؟ کوٹھیاں بنا لیں، دبئی سے شاپنگ بھی کراتے ہو، غریب عوام میں اتنی جرا ¿ت ہے کہ وہ پوچھیں کہ الیکشن کے دنوں میں تین تین کروڑ روپے کی گاڑیوں میں پھرنے والو! یہ دولت کہاں سے آئی ہے؟ سب ہی ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں، جگر مراد آبادی نے انہی بے چارے ستائے ہوئے لوگوں کے بارے میں کہا تھا
فلک کے جور زمانے کے غم اٹھائے ہوئے
ہمیں بہت نہ ستاﺅ کہ ہیں ستائے ہوئے
کیا پاکستان کا حصول قیمتی گاڑیوں میں بیٹھ کر ممکن ہوا تھا؟ کیا تحریک پاکستان کے رہنماﺅں نے اس طرح دولت خرچ کی تھی، وہ ایک مقصد تھا، جس کے لئے لوگ تن من سے اکٹھے ہوئے، آج (ق) لیگ کو اس بات کا درد ہے کہ گجرات کی تنگ و تاریک گلیوں میں لوگوں کی زندگیاں بدلنا ہیں؟ کیا ن لیگ اس لئے پریشان ہے کہ لاہور میں سینکڑوں بستیوں میں لوگ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیا مولانا فضل الرحمن کو رات دن یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ ملک میں اسلام کا نفاذ کیوں نہیں ہو رہا؟ کیا تحریک انصاف میں شامل ہونے والے اس لئے پریشان ہیں کہ وہ عوام کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس عوام کو کس طرح دلائیں یا ایم کیو ایم ملک کی کی تقدیر بدلنے کے لئے پریشان ہے؟ کوئی عوام کے لئے پریشان اور تکلیف میں مبتلا نہیں، پریشانی تو اس بات کی ہے کہ کس طرح اس الیکشن میں وہ آ سکیں تاکہ پانچ سال میں موجیں مار سکیں، پھر پتہ نہیں زندگی وفا کرے یا نہ کرے، بہت سارے عمر کے اس حصے میں آ رہے ہیں جب زندگی کبھی بھی بے وفائی کر سکتی ہے۔
مولانا فضل الرحمن کا ہاتھ بے شک میاں نواز شریف کے ہاتھ میں ہو لیکن قدرت کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں اور وہ فیصلے اوپر سے آتے ہیں، تو کئی ہاتھ چھوٹ جاتے ہیں، عوام کی خدمت کا دعویٰ کرنے والے سیاست دان اپنے بچوں کو جلسہ گاہوں میں لائیں اور ان کے سروں پر، ان کی زندگیوں کی قسم کھا کروعدہ کریں کہ وہ صرف اور صرف عوام کی خدمت کریں گے کوئی لوٹ مار نہیں کریں گے۔ عوام اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ کوئی نئی حکومت آئے گی اور ان کے حالات، ان کی قسمت جاگے گی، پاکستان ان کے لئے جنت بن جائے گا، ایسا ہرگز نہیں ہو گا، لوگ انصاف حاصل کرنے کے لئے اس طرح در بدر ہوتے رہیں گے۔ دس دس سال سے لوگوں کے فیصلے نہیں ہوتے، گندی بستیوں میں پولیس راج اس طرح رہے گا، اس ملک کی گلی، محلوں میں یقین کریں ایسی ایسی خوفناک اور دردناک داستانیں ہیں کہ آپ سنیں تو یقین نہیں آئے گا۔ شادی بیاہ میں ویڈیو بنانے والے لوگ جس طرح چھوٹے اور غریب گھرانوں کی بچیوں کو بلیک میل کر رہے ہیں، وہ لمبی داستانیں ہیں۔ خادم پنجاب نے ویسے تو بے شمار اچھے کام کئے ہیں، چلتے چلتے وہ ان گلیوں بازاروں اور محلوں کے ان مسائل کے بارے میں کچھ کر گزریں، جہاں پر بڑے عجیب و غریب واقعات رونما ہوتے ہیں۔ میاں شہباز شریف نے میٹرو بس تو لاہور کے عوام کو ایک تحفے کی صورت میں دے دی ہے۔ اب عوام کا فرض ہے کہ اس میٹرو بس کو اس طرح رکھیں جس طرح اس کو رکھنے کا حق ہے، اس کی حفاظت اپنے گھر کی طرح کریں۔ بس میں لوگ بیٹھیں تو خوشبو آئے، سیٹیں صاف ستھری ہوں، بس کے اندر کی صفائی اس طرح ہو جیسے ترکی کی بسوں میں ہوتی ہے۔ کاش ہمارے عوام اس تحفے کی قدر کر سکیں۔
ریمنڈ ڈیوس کو امریکہ میں ایک شخص کو تشدد کرنے پر دو سال قید ہو جاتی ہے اور ہمارے ملک میں دو شہریوں کے قتل کرنے والے کو رات کے اندھیرے میں ملک سے فرار کروا دیتے ہیں، وہی ریمنڈ ڈیوس جس کو جب پکڑا گیا تو وزیر داخلہ نے بیان دیا تھا کہ قانون کے مطابق اس کو سزا ہو گی، مگر پتہ نہیں بعد میں کس نے اس کو یہاں سے فرار کرا دیا۔ ہمارے حکمرانوں کا ہاتھ، امریکہ کے ہاتھ میں ہے، چنانچہ ساری جنتیں حکمرانوں کے ساتھ ہیں۔ اگلے جہان کی حکمرانوں کو کیا فکر؟ جب بلاول ہاﺅس لاہور ہی میں سب جنتیں ہوں۔ مگر موت کے فرشتے کے لئے کہیں بھی کوئی رکاوٹ نہیں، وہ بلٹ پروف کمروں میں سے بھی روح کھینچ کر لے جاتا ہے۔
تازہ ترین