• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈراموں، ٹاک شوز کی ریٹنگ بڑھی، کئی مارننگ شوز بند ہوگئے

ایک وقت تھا،جب صرف پی ٹی وی ہی کا دَور دَورا تھا، تب نشریات کا دورانیہ بھی مخصوص اور محدود ہوا کرتا ، لیکن 2000ء کے بعد جب ٹی وی چینلز کا گویاایک ریلا سا آگیا، تو بقول مسرور جالندھری ’’شام سے صُبح تلک بند دریچہ نہ کیا‘‘ کے مثل معاملہ ہوگیا۔ اِدھر صُبح کے نو بجے نہیں، لگ بھگ ہر چینل سے وہی گِھسے پٹے فارمیٹ کے ساتھ مارننگ شوز شروع ہوجاتے۔

کسی چینل پر شادی شدہ جوڑے کی دوبارہ شادی کروائی جاتی، تو کہیں میزبان درجنوں بیوٹیشنز، حکیموں، عالموں کے ساتھ بیٹھی دکھائی دیتیں۔یہاں تک کہ ایک میزبان خاتون نے تو بیرونِ مُلک کی جانے والی اپنی خریداری تک کی نمایش کرڈالی۔صد شُکر کہ آج سے تین سال قبل ’’جیو نیوز‘‘ نے ایک منفرد نیوز بیسڈ مارننگ شو ’’جیو پاکستان‘‘ کا آغاز کیا،تو ان روایتی مارننگ شوز کا غلغلہ کچھ کم ہوا۔ ’’جیو پاکستان‘‘ اپنے آغاز ہی سے تاحال اپنے منفرد فارمیٹ کی بنیاد پر ناظرین کے دِلوں پر راج کررہا ہے، جب کہ2019ء میں اِسی طرز کے کچھ دیگر شوز مثلاً ’’صُبح سے آگے‘‘، ’’نیوز کیفے‘‘،’’چائے، ٹوسٹ اور ہوسٹ‘‘ اور ’’نیا دِن‘‘بھی ناظرین میں پسند کیے گئے۔

اس کے برعکس متعدد مارننگ شوز وسائل کی کمی یا موضوعات کی یک سانیت کے سبب یا تو بند کردیئے یا اُن کے فارمیٹ میں تبدیلی لائی گئی۔جس کے بعد چند ایک میزبان خواتین نے دوبارہ ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے شروع کردیئے، تو کچھ نے یوٹیوب چینلز کا آغاز کردیا۔

ذکر کچھ حالاتِ حاضرہ کے پروگرامز کا ،گزشتہ برس جہاں ان پروگرامز کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، وہیں بعض اینکرز کے جارحانہ انداز، نازیبا فقروں، تحقیر آمیز روّیوں اور بہت حد تک جانب دارانہ تجزیوں کے باعث الیکڑانک چینلز پر نظر رکھنے والے سرکاری ادارے، پاکستان الیکٹرانک ریگولیٹری اتھارٹی(پیمرا) کو صورتِ حال کا نوٹس لیتے ہوئے باقاعدہ طور پر انتباہ بھی جاری کرنا پڑا ، جس کے مطابق تمام چینلز مالکان اور اُن کی انتظامیہ کو متنّبہ کیا گیا کہ وہ پیمرا کے وضع کردہ ضابطۂ اخلاق کی سختی سے پابندی کریں۔ان احکامات کا لبِّ لباب یہ تھا کہ اینکرز کا کام زیرِ بحث موضوعات پر اپنی رائے پیش کرنا نہیں، بلکہ غیر جانب دارانہ انداز میں ٹاک شو کا انعقاد کرنا ہے۔ 

نیز، تمام سیٹلائٹ چینلز کو دو ٹوک الفاظ میں یہ ہدایت بھی کی گئی کہ وہ اپنے ٹاک شوز میں شریک مہمانوں کا انتخاب خُوب چھان پھٹک کر کریں۔ ایسے ماہرین کو ہرگز مدعو نہ کیا جائے، جن کی زیرِبحث موضوع پر معلومات سطحی ہوں۔جواباً پیمرا کی جانب سے جاری کردہ ان ہدایات میں سے چند ایک کو خاصی تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ تاہم، ایک عمومی جائزے کے مطابق 2019ء میں ان ٹاک شوز میں ہونے والی گفتگو میں شائستگی اور متانت کا عُنصرسابقہ برسوں سے بھی کم نظر آیا۔بعض ناقدین نے انہیں ’’باتوں کا دنگل‘‘ تک کہا۔ 

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب یہ ٹاک شوز بھی ناظرین کے لیے کسی قدر انٹرٹینمنٹ ہی کا ذریعہ بن چُکے ہیں۔ شاید اس لیے بھی کہ قوم کو خود بھی اِسی قسم کے چٹخاروں کی عادت سی ہوچُکی ہے ۔2018ء میں جیو نیوز کے ایک مقبول ٹاک شو’’آپس کی بات‘‘ میں، ایک تھپڑ اگر سال بَھر موضوعِ گفتگو رہا تھا، تو2019ء میں بھی یہ روایت قائم رہی۔جب ایک نجی چینل کے ایک سیاسی پروگرام میں تحر یکِ انصاف کے رہنما مسرور سیال اور کراچی پریس کلب کے صدر کے مابین جاری مباحثہ، مجادلہ بن گیا۔ تاہم، اس ڈرامائی سیچویشن کا ہیرو اور ولن کون تھا،اس کا فیصلہ ناظرین ہی پر چھوڑنا بہتر ہے کہ سوشل میڈیا پر کچھ افراد نے سیاسی رہنما کی بَھرپور حمایت کی، تو بعض نے صحافی کی۔

اب کچھ بات جیو نیوز سے نشر ہونے والے پروگرام’’آج شاہ زیب خان زادہ کے ساتھ‘‘کی کرلی جائے،جو اپنے مزاج، تحقیقی خبروں، غیر جانب دارانہ،ماہرانہ تجزیوں اور ریٹنگ کے اعتبار سے پچھلے کئی برسوں کی طرح2019ء میں بھی’’نمبر وَن‘‘ رہا۔ اس ٹاک شو میں 15اپریل 2019ء کو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے بیٹے، سلیمان شہباز کاٹیلی فونک انٹرویو نشر ہوا،جسےغیر معمولی پذیرائی حاصل ہوئی، تو جیو نیوز ہی کے ایک پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں مُلکی تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم عمران خان نے بطور مہمان لائیو( بذریعہ کیمرا)شرکت کی۔یاد رہے کہ اس سے قبل وزیرِ اعظم کے صرف ریکارڈڈ انٹرویوز ہی نشر ہوئے ہیں۔

دیگر ٹاک شوز میں’’ جرگہ‘‘ کے کئی پروگرامزکی ریٹنگ اوریوٹیوب پر ویورشپ زیادہ رہی،تو’’آپس کی بات‘‘،’’میرے مطابق‘‘،’’ نیا پاکستان‘‘ اور’’ رپورٹ کارڈ‘‘ بھی سال بَھر ناظرین کی توجّہ کا مرکزبنے، جب کہ دیگر ٹاک شوز میں الیونتھ آور، آف دی ریکارڈ، بریکنگ پوائنٹ وِد ملک،نیوز بِیٹ، خبر ہے، حرفِ راز، دی رپورٹرز، کل تک وِد جاوید چوہدری، فیصلہ آپ کا،دو رائے،کراس ٹاک،سوال وِد عنبر شمسی، جی فار غریدہ فاروقی، جواب چاہیے، رائٹ اینگل، آواز، خبر گرم ہے اور نائٹ ایڈیشن بھی دیکھے اور پسند کیے جاتے رہے۔ جرائم کی خبروں پر مبنی پروگرامز کی مقبولیت بھی رفتہ رفتہ دَم توڑ رہی ہے۔

تاہم، سرِعام، کرائم سین اور ایمرجینسی وارڈ کی ریٹنگ مناسب رہی،جب کہ کھیلوں کے شائقین میں جیو نیوز کا پروگرام ’’اسکور‘‘ اور’’اسپورٹس ایکشن‘‘ بے حد سراہے گئے۔رہی بات مزاحیہ شوزکی، توگزشتہ برس ان شوز میں انتہائی عامیانہ اور ذو معنی جملے بازی بھی ہوئی۔ تاہم، ریٹنگ اورمعیار کے اعتبار سے جیو نیوز کا پروگرام ’’خبرناک‘‘ سرِفہرست رہا،تو حسبِ حال، خبردار اور مذاق رات بھی پسند کیےجاتے رہے۔

پی ٹی وی کے مقبولِ عام بچّوں کے پروگرامز عینک والا جن، ٹک ٹک کمپنی اور الف لیلیٰ سے تفریح و تربیت حاصل کرنے والی ہماری نسل 2019ء میں بھی اپنے بچّوں کو ویڈیوگیمز، موبائل فونز اور دیگر غیر صحت مندانہ سرگرمیوں میں مبتلا دیکھ کر کڑھتی رہی کہ سال بَھر بچّوں کی تعلیم و تربیت اور تفریح لیےکوئی ایک بھی پروگرام نشریات کا حصّہ نہ بن سکا۔

ہر سال کی طرح 2019ء میں بھی تقریباً ہر چینل سے رمضان ٹرانس میشنز بنام، ’’احساس رمضان‘‘،’’عہدِ رمضان‘‘،’’ہمارا رمضان‘‘، ’’شہرِرمضان‘‘، ’’حُسنِ رمضان‘‘، ’’رونقِ رمضان‘‘ اور ’’رمضان پاکستان‘‘ نشر ہوئیں،جن کے میزبان عمومی طور پرشوبز ہی سے تعلق رکھنے والے افراد تھے۔2018ء میںعدالت کی جانب سے رمضان ٹرانس میشن باوقار انداز سے پیش کرنے کی سخت ہدایات جاری کی گئی تھیں، تو2019ء میں پنجاب اسمبلی میں ایک قراردادکے ذریعے پیمرا سے درخواست کی گئی کہ وہ ٹی وی چینلز کو رمضان ٹرانس میشن میں شوبز سے وابستہ افراد کو میزبانی کے فرائض سے روکیں، لیکن نہ پہلے احکامات ،سفارشات پر عمل درآمد ہوسکا اور نہ سالِ گزشتہ۔ بہرحال، جیو کا ’’احساس رمضان‘‘ ہر اعتبار سےناظرین میں مقبول اور ریٹنگ میں سرِ فہرست رہا۔

جب سے رمضان ٹرانش میشنزکا آغاز ہوا ہے ، عموماً دو افراد مل کر میزبانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں،لیکن2019ء میں پہلی باررابعہ انعم نے سحر تا افطار بغیرمعاون میزبان کے بہترین نشریات پیش کیں۔ ’’جیو نیوز‘‘ کے لیے 2019ءاس اعتبار سے بھی لکی سال ثابت ہوا کہ مسلسل تیسری بار ’’ایشین ویورزٹیلی ویژن (ایوٹا) ایوارڈاِسی کے نام رہا،جب کہ 10ویں پاکستان اچیومنٹ ایوارڈ انٹرنیشنل میں رمضان ٹرانس میشن پر بہترین خاتون میزبان کا ایوارڈ رابعہ انعم نے حاصل کیا۔اس کے علاوہ18ویں لکس اسٹائل ایوارڈز کے میڈیا پارٹنر کی چیئر بھی جیو ہی کے حصّے آئی۔ یہ تقریب ایکسپو سینٹر، کراچی میں منعقد ہوئی،جس میں سال کے بہترین اداکار کا ایوارڈ فیروز خان نے، تو اداکارہ کا ایوارڈ اقراء عزیز نے حاصل کیا۔

ستّر اور اسّی کی دہائی میں پاکستانی ڈرامےہر اعتبار سےبہترین تھے۔نہ صرف حقیقت سے قریب تر نظر آتے،گھر گھر کی کہانی بھی معلوم ہوتے،مگرجب سےریٹنگ اور مسابقت کی دیوانہ وار دوڑ شروع ہوئی ہے،معیارتو کہیں بہت پیچھے رہ گیا ہے ۔ افسوس کہ2019ء میں بھی ڈراموں کاکھویاہوامعیار بحال نہ ہوسکا۔ 

تاہم، ناظرین کی آراء سے مرتّب کی جانے والی ایک فہرست کے مطابق دسویں نمبر پر دو ڈراموں نے جگہ بنائی۔ایک کالے جادو کے موضوع پر ڈراما’’بندش‘‘ ، جسے سیّد نبیل اور شاہد نظامی نے تحریر کیا، جب کہ ہدایات عباس رضا کی تھیں،تودوسرااسماء نبیل کا تحریر کردہ ڈراما’’دِل کیا کرے‘‘ رہا۔ نویں نمبر پر ثمینہ اعجاز کا تحریر کردہ جیو چینل سے نشر ہونے والا 27اقساط پر مشتمل ڈراما ’’یاریاں‘‘ اور معاشرے کی روایتی سوچ کو چیلنج کرتا ،ثمینہ اعجاز ہی کا لکھافیملی ڈراما ’’کیسا ہے نصیبا‘‘ رہے۔ 

آٹھویں نمبر پرمزاحیہ ڈراما’’ رومیو ویڈز ہیر‘‘ اور انتہائی حسّاس موضوع پر لکھا گیا ڈراما’’حیوان‘‘ٹھہرے۔ان کے رائٹرز بالترتیب محمّد یونس بٹ اور سارہ سدین شاہ تھے۔ ساتویں نمبر پر جیو چینل کا فیملی ڈراما’’اب دیکھ خدا کیا کرتا ہے‘‘تھا،جسے سیّدضراراحمد پیرزادہ نے تحریر کیا، تو ہدایت کار سیّد علی رضا اسامہ تھے۔چھٹے نمبر پر ڈراما ’’خاص‘‘ کو قرار دیا گیا۔ ڈرامے کی کہانی ثروت نذیر نے لکھی،جب کہ ڈائریکٹر دانش نواز تھے۔پانچویں نمبر پردو ڈراموں نے جگہ بنائی۔

ایک ڈراما’’بَلا‘‘نے،جس کے مصنّف اور ہدایت کار زنجبیل عاصم شاہ اور بدر محمود تھے(ویسے تو ڈرامے کی پوری کاسٹ ہی نے اپنے کردار بہت عُمدگی سے نبھائے، مگر ثمینہ پیرزادہ کی اداکاری کا تو کوئی جواب ہی نہ تھا)،تو دوسرے ڈرامے’’چیخ ‘‘نے،جس کے مصنّف اور ہدایت کار بھی زنجبیل عاصم شاہ اور بدر محمود ہی تھے۔چوتھے نمبر پر ثروت نذیر کا تحریر کردہ ڈراما ’’دو بول‘‘ رہا۔

تیسرے نمبر پر جیو چینل کا ڈراما ’’میرا رب وارث‘‘ تھا، جسے جہانزیب قمر نے تحریر کیا، جب کہ ڈائریکشن اسد جبال کی تھی۔دوسرے نمبر پر ظفر معراج کے قلم سے لکھا اور کاشف نثار کی عُمدہ ہدایت کاری میں تیار کیا گیا ڈراما ’’انکار‘‘رہا، تو پہلے نمبر پر ناظرین نے معروف لکھاری ،فائزہ افتخار کے تحریر کردہ ڈرامے ’’رانجھا رانجھاکردی‘‘کو قرار دیا،جس کے ہدایت کار کاشف نثار تھے۔

2019میں کچھ ڈرامے اپنے ناموں کی وجہ سے بھی تنقید کی زد میں رہے، اُن میں ’’مجھے بیٹا چاہیے‘‘، ’’مَیں بانجھ نہیں ہوں‘‘، ’’محبوب آپ کے قدموں میں‘‘ وغیرہ شامل تھے، جب کہ ایک ڈرامے ’’کُن فیکون‘‘ کے نام پر اس قدر تنقید ہوئی کہ بالآخر اس کا نام تبدیل کرنا پڑا۔اب یہ ڈراما’’جو تُو چاہے‘‘ کے نام سے نشر ہورہا ہے۔ اسی طرح بعض ڈراموں کاچرچا تو بہت ہوا، مگر ناظرین میں زیادہ مقبول نہ ہوسکے۔ مثلاً آنگن، دیوارِ شب وغیرہ۔ 

علاوہ ازیں،کم ظرف، انا، محبّت نہ کریو، بیٹی، بھول، سُرخ چاندنی، جال، میر آبرو، میرے ہم دَم، تُو عشق ہے، باندی، آتش، حسد، ہانیہ، بند کھڑکیاں، تاوان، کوئی چاند رکھ،گُل و گلزار،چھوٹی چھوٹی باتیں اوربابا جانی وغیرہ بھی سراہے گئے، تو سُنو چندا (سیزن ٹو) نے بھی ناظرین کی خُوب توجّہ سمیٹی۔تادمِ تحریرنشر ہونے والے ڈراموں میں سرِ فہرست جیو چینل سے نشر ہونے والا ڈراما ’’الف‘‘ اور ’’میرے پاس تم ہو‘‘ ہیں، جب کہ یہ دِل میرا، بے وفا، عشق زہے نصیب، کہیں دیپ جلے، دمسئہ، رسوائی، ملالِ یار، قسمت،تھوڑا سا حق اور رشتے بکتے ہیں، بھی دِل چسپی سے دیکھے جارہے ہیں۔ 

پچھلے کئی برسوں سے انٹرٹینمنٹ شوز کی طرح مزاحیہ ڈرامے بھی تقریباًایک ہی فارمیٹ پر پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے،جواکثر و بیش تر ایک، دو خاندانوں کی احمقانہ حرکتوں ہی پر مبنی ہوتاہے۔ پھر بھی وقت گزاری کے لیے ناظرین نے’’ڈولی ڈارلنگ‘‘،’’ شاہ رُخ کی سالیاں‘‘،’’ بلبلے سیزن ٹو‘‘،’’ برفی لڈو‘‘،’’ ریشم گلی کی حُسنہ‘‘ اور’’ جادوگریاں‘‘ وغیرہ دیکھے۔

سال 2019ءکی معروف جوڑیوں میںاقراء عزیز اورفرحان سعید،اقراء عزیز اور عمران اشرف، حرا مانی اور عفّان وحید، ،ازیکہ ڈینئیل اور بلال عباس خان ،ثنا ءجاوید اورفیروز خان سرِ فہرست رہے، تو ڈراموں کے اوریجنل ساؤنڈ ٹریکس میں راحت فتح علی خان کی آواز میں’’بھول جانے کا ہنر مجھ کو سکھا جاؤ‘‘، نبیل شوکت اور آئمہ بیگ کی آوازمیں’’جا تجھے معاف کیا‘‘اور ’’وہ جو تھا بہت ہی خاص‘‘،جس کی گلوکارہ نتاشاتھیں ،بے حد پسند کیے گئے۔

تازہ ترین