• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ اگرچہ ایسا کہنا دُرست ہوگا، مگر شاید یہ مناسب نہ ہو۔ چوں کہ اُس نے یہ کہا، چناں چہ نتیجہ یہ نکلا‘‘، یقیناً اِس اگرچہ، مگرچہ اور چوں کہ، چناں چہ کے چکر سے آپ کا دماغ بھی ہاتھ جوڑنے پر مجبور ہوگیا ہوگا کہ کس مصیبت میں ڈال دیا، لیکن’’ اِس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں‘‘، آپ ہی کو دانش وَرانہ باتیں پڑھنے کا شوق ہے، سو بُھگتیں۔ مگر ذرا ٹھہرئیے! سَر درد کی گولی لینے کے لیے سائیڈ ٹیبل کی جانب ہاتھ نہ بڑھائیں۔ 

ہم اس درد کا کچھ درماں کیے دیتے ہیں۔ گزشتہ برس کچھ ایسی خبریں، واقعات اور نام وَر افراد کے بیانات سامنے آئے، جنھوں نے گاہے لبوں پر مُسکراہٹیں بکھیریں، تو کبھی آنکھوں میں نَمی بھی تیر گئی۔ کئی ایک نے خُوب جوش و جذبہ بڑھایا، تو کچھ خبریں شہہ سُرخیوں میں تو رہیں، مگر اپنی اہمیت کے باوجود عوامی موضوع نہ بن پائیں۔ آج، اُن ہی میں سے کچھ خبریں، واقعات آپ کی نذر ہیں۔

بہترین سیاسی لطیفہ

ایک موقعے پر مشیرِ خزانہ، عبدالحفیظ شیخ نے بیان دیا کہ ’’کراچی کی سبزی منڈی میں ٹماٹر 17روپے کلو فروخت ہو رہے ہیں‘‘، تو ایک اور وزیر، غلام سرور خان بولے’’ ہمارے ہاں تو مٹر 5روپے کلو مل رہے ہیں۔‘‘ حالاں کہ ٹماٹر اُن دنوں 250اور مٹر 180 روپے کلو فروخت ہو رہے تھے۔ 

ان بیانات کا خُوب مذاق بنا، نئے نئے جملے مارکیٹ میں آئے۔لیکن سال کے بہترین سیاسی لطیفے کا اعزاز بلاول بھٹّو کے اُس بیان کو حاصل ہوا، جو اُنھوں نے کراچی میں بارشوں سے متعلق دیا تھا کہ’’ جب بارش آتا ہے، تو پانی آتا ہے۔ جب زیادہ بارش آتا ہے، تو زیادہ پانی آتا ہے۔‘‘

سیاست بائے بائے

علّامہ طاہر القادری ایک مذہبی اسکالر کے ساتھ دھرنا اسپیشلسٹ کے طور پر بھی معروف ہیں۔ وہ سابقہ دو حکومتوں کے ادوار میں اپنی اِس صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کرچُکے ہیں، اُمید تھی کہ پی پی اور نون لیگ کی طرح، پی ٹی آئی حکومت کو بھی سلامی دینے ضرور آئیں گے، مگر اُنہوں نے سیاست ہی چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ تاہم، خوش آئند بات یہ رہی کہ اُنہوں نے سانحۂ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو انصاف دِلوانے کی جدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یعنی مکمل مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، ابھی دھرنے کا دروازہ کُھلا ہے۔

اصل ڈگری کی تلاش

’’ ڈگری، ڈگری ہوتی ہے، اصلی ہو یا نقلی‘‘، جی ہاں، بزرگ سیاست دان، اسلم رئیسانی ہی کی بات ہو رہی ہے۔ مگر گزشتہ برس وہ نقلی کی بجائے، اصل ڈگری کی تلاش میں رہے اور وہ بھی ایم فِل کی۔ اُنہوں نے بلوچستان یونی ورسٹی میں باقاعدہ داخلہ لیا اور اس کے ساتھ ہی پی ایچ ڈی کی بھی خواہش کا اظہار کیا۔

پلاسٹک کے انڈے

سُنا تھا، چین نے پلاسٹک کے چاول متعارف کروائے ہیں، اس حوالے سے کچھ ویڈیوز بھی گردش میں رہیں، مگر کراچی میں نہ جانے کہاں سے پلاسٹک کے انڈے پہنچ گئے؟ اکتوبر کے آخر میں ایک شخص کی شکایت پر سندھ فوڈ اتھارٹی نے پولیس کے ساتھ خیابانِ سحر کی دُکان پر چھاپہ مار کر دُکان دار اور انڈے سپلائی کرنے والے کو حراست میں لے لیا۔اُس شخص کا دعویٰ تھا کہ اُسے پلاسٹک کے انڈے تھما دئیے گئے تھے، جس کا علم اُسے گھر جاکر ہوا۔دو روز اس خبر کا خُوب چرچا رہا، پھر اصل حقیقت سامنے آئی کہ وہ انڈے تھے تو اصلی، مگر ڈھائی ماہ پرانے تھے اور مطلوبہ درجۂ حرارت پر نہ رکھنے کی وجہ سے پلاسٹک کی طرح ہوگئے تھے۔

آپ ڈھائی ماہ پُرانے انڈوں پر حیران ہو رہے ہیں، تو امریکی ریاست، مشی گن کے ایک گھرانے کا ذکر پڑھ لیجیے، جس کے پاس 141 برس پرانا فروٹ کیک ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق،یہ کیک فیڈیلیا فورڈ نامی ایک خاتون نے 1878 ءمیں تیار کیا تھا ،جو اُن کی پڑ پوتی کی پڑ پوتی، جولی رٹنگر کے پاس اب بھی خاندانی وَرثے کے طور پر محفوظ ہے۔گزشتہ برس بھی حسبِ روایت کرسمس کے موقعے پر اس کیک کی’’ زیارت‘‘ کروائی گئی۔

سب لوگ ہیپی، ہیپی

اقوامِ متحدہ کے’’ ورلڈ ہیپی نیس انڈیکس‘‘ میں خوش خبری سُنائی گئی کہ پاکستانی دنیا میں 67 ویں نمبر پر سب سے زیادہ خوش و خرّم شہری ہیں، جب کہ جنوبی ایشیا میں ان کا پہلا نمبر ہے۔ مگر ہماری دِل چسپی کی بات یہ رہی کہ اس رپورٹ کے مطابق، پہلے پاکستان 75 ویں نمبر پر تھا اور ایک سال میں اس کی ریٹنگ میں8 درجے بہتری آئی۔ یعنی نئی حکومت آنے کے بعد عوام کے مصائب میں کمی آئی اور خوشی کے مواقع بڑھے۔ ہائے…’’کہ خوشی سے مَر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا۔‘‘

وِکی، جمائما کا کزن

جمعیت علمائے اسلام کے رہنما، مفتی کفایت اللہ نے ایک ٹی وی پروگرام میں دعویٰ کیا کہ’’ وِکی لیکس والا’’ وِکی‘‘ درحقیقت عمران خان کی سابقہ اہلیہ، جمائما خان کا کزن ہے۔ اصل حقیقت بتانے کے باوجود مفتی صاحب اپنی بات پر ڈٹے رہے۔ اس بیان کا کئی روز تک سوشل میڈیا پر چرچا رہا، یہاں تک کہ جمائما خان نے بھی اس پر مزاحیہ انداز میں ردّ عمل کا اظہار کیا۔ واضح رہے،’’ وِکی لیکس‘‘ ایک انٹرنیٹ ویب سائٹ ہے، جس پر خفیہ معلومات جاری کی جاتی ہیں۔تاہم، جس شخص نے وکی لیکس کی بنیاد رکھی، اُس کا نام وِکی نہیں، جولین اسانج ہے۔

قومی مٹھائی

گزشتہ برس خبر آئی کہ گلاب جامن کو چُپکے سے پاکستان کی قومی مٹھائی کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ 

اس بات کا فیصلہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ، ٹوئیٹر پر کیے گئے ایک سرکاری سروے کی روشنی میں کیا گیا، جس میں15 ہزار افراد نے اپنی آرا کا اظہار کیا۔ اس سروے میں جلیبی دوسرے اور برفی تیسرے نمبر پر رہی۔ تاہم، یہ نہیں بتایا گیا کہ بے چارے لڈّو کا کیا بنا…؟؟

’’ جہازی‘‘ خواتین

چینی دارالحکومت، بیجنگ میں ایک امّاں جی جہاز کے دروازے پر دھرنا دے کر بیٹھ گئیں۔ اُن کا کہنا تھا’’ میری بیٹی ڈیوٹی فِری شاپ سے خریداری کر رہی ہے، جب تک وہ نہیں آتی، جہاز نہیں اُڑنے دوں گی۔‘‘ اور واقعی اُڑنے نہیں دیا۔ بیٹی آئی، تو دھرنا ختم ہوا، جہاز کے دروازے بند ہوئے اور اُس نے اُڑان بَھری۔ دوسری طرف، مانچسٹر ائیر پورٹ پر پی آئی اے کے طیارے میں سوار خاتون نے اچانک دھکّا مار کر جہاز کا ایمرجینسی گیٹ کھول دیا۔ وہ ہنگامی دروازے کو باتھ روم کا دروازہ سمجھ بیٹھی تھیں۔ شُکر یہ ہوا کہ جہاز ہَوا میں نہیں تھا، مگر 37 مسافر خاتون کی وجہ سے جہاز سے اُتار دئیے گئے، کیوں کہ عالمی قوانین کے مطابق جس دروازے کی سلائیڈنگ کُھلی تھی، اُس کے اطراف جگہ خالی رکھنا ضروری تھی۔

5 دن کی حکومت

بھارتی ریاست، بہار میں1968 ء میں ستیش پرشاد سنگھ نامی شخص صرف پانچ روز کے لیے وزیرِ اعلیٰ بنے، خبر یہ نہیں، اصل خبر یہ ہے کہ گزشتہ برس ایک عدالتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ نصف صدی قبل وزیرِ اعلیٰ بننے پر اُنہیں جو بنگلہ الاٹ کیا گیا تھا، صاحب اب تک اُس پر قابض ہیں۔یعنی سرحد کے آر پار سیاسی مزاج کچھ ملتا جُلتا ہی ہے۔

نکاح نامے کی شرائط

2019ء میں بھی گزشتہ’’ صدیوں‘‘ کی طرح بیویوں کی جانب سے شوہروں کو ستانے کا سلسلہ جاری رہا۔ بھوپال میں تو ایک شخص تنگ آکر عدالت جا پہنچا۔ اُس کا کہنا تھا کہ’’ بیوی سیلفی میں لگی رہتی ہے، جس کی وجہ سے وقت پر کھانا تک نہیں ملتا۔‘‘اچھی بات یہ ہوئی کہ جج نے میاں، بیوی میں صلح کروا دی۔ اُدھر سعودی عرب سے خبر آئی کہ سالِ رفتہ کے دوران وہاں نکاح ناموں کی کئی نئی شرائط سامنے آئیں۔ دُلہنوں کی جانب سے شرائط عاید کی گئیں کہ’’ شادی کے بعد تعلیم، ملازمت پر پابندی نہیں ہوگی۔ 

سوتن نہیں لائی جائے گی۔ گھر کے کام کاج کے لیے ماسی رکھنی ہوگی۔‘‘ تو شوہروں نے جواباً اس شرط کو نکاح نامے کا حصّہ بنوایا کہ’’ بیوی کوئی موبائل ایپلی کیشن استعمال نہیں کرے گی۔‘‘ اسے کہتے ہیں،’’ ایک لوہار کی۔‘‘ شادی کی بات چل رہی ہے، تو ملائیشیا کے بادشاہ، سلطان محمّد پنجم کے بارے میں پڑھتے جائیں کہ وہ گزشتہ برس اچانک تخت سے دَست بردار ہوگئے۔ بتایا گیا کہ اس دَست برداری کے پیچھے، سابقہ مِس ماسکو تھیں، جن سے وہ شادی کرنا چاہتے تھے۔ تاہم، سال کے آخر تک شادی کی باضابطہ اطلاع سامنے نہیں آئی۔

اقتدار کی پوری ہنڈیا

دو یا دو سے زاید بھائی ایک ہی وقت میں حکومت کا حصّہ تو ہمارے ہاں بھی رہے ہیں۔ جیسے میاں نواز شریف وزیرِ اعظم تھے، تو چھوٹے بھائی، شہباز شریف وزیراعلیٰ۔ تاہم، سری لنکا میں تو کمال ہی ہوگیا۔ گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے انتخابات میں گوٹا بایا راجا پکسے صدر منتخب ہوئے، تو اُنھوں نے اپنے چھوٹے بھائی، مہندا راجا پکسے کو مُلک کا وزیرِ اعظم نام زد کیا اور پھر اُن سے حلف بھی لیا۔یوں دونوں بڑے عُہدے گھر ہی میں رہے۔ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اُن کے مزید کتنے بھائی ہیں، کیوں کہ چیف جسٹس اور فوج کی سربراہی بھی کم اہم نہیں۔

سائیں کی جیکٹ بھی’’ سائیں‘‘

مشہور آدمی کا تو ہر طرح کا پہناوا فیشن بن جاتا ہے، خواہ مضحکہ خیز ہی کیوں نہ ہو۔ پچھلے دنوں سعودی ولی عہد کی جیکٹ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے، جو دیکھنے میں بھی بے حد خوب صُورت تھی۔ 

محمّد بن سلمان ایک تقریب میں جیکٹ پہن کر شریک ہوئے، تو وہ جیکٹ ٹوئیٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گئی اور نوجوان اُس کی خریداری کے لیے آن لائن شاپس پر ٹوٹ پڑے۔ رپورٹس کے مطابق، جیکٹس کا وسیع اسٹاک دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہوگیا، جب کہ نوجوان اُس کی تلاش میں سرگرداں رہے۔

چُھٹّی کے بہانے

’’چُھٹّی مارنا‘‘ کسی فن سے کم نہیں اور بعض افراد تو اس فن میں اتنے طاق ہیں کہ بس کچھ نہ پوچھیے۔ تاہم بی بی سی کا ایک سروے رپورٹ میں کہنا تھا کہ ہر پانچ میں سے تین افراد چُھٹّی کے لیے بیماری کا بہانہ کرتے ہیں۔ نیز،66 فی صد افراد اپنے باس کو یہ نہیں بتاتے کہ اُن کا دوست بیمار نہیں، بلکہ چُھٹّی کے لیے بہانہ کیے ہوئے ہے۔ 

یہ تو برطانیہ کی بات ہے، پاکستانی تو دوستوں کے دوست ہوتے ہیں، لہٰذا یہاں سو فی صد افراد باس کو دوست کی بیماری کا یقین دِلاتے ہیں، بلکہ ایک دو بیماریاں اپنی طرف سے بھی ملا دیتے ہیں تاکہ کوئی شک میں نہ رہے۔

وائٹ ہاؤس کا مہمان کتّا

نومبر کے آخر میں ایک کُتّا، وہائٹ ہاؤس کا خصوصی مہمان بنا، مگر یہ کوئی عام کتّا نہیں تھا۔ امریکی فوج میں شامل’’ کونان‘‘ نے داعش کے سربراہ، ابو بکر البغدادی کے خلاف آپریشن میں حصّہ لیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اپنی اہلیہ کے ساتھ اُس کا استقبال کیا۔ اس موقعے پر اُن کا کہنا تھا’’ یہ کونان ہے۔ اس لمحے یہ غالبًا دنیا کا مشہور ترین کتّا ہے۔ ہم نے یہاں کونان کی میزبانی کا شرف حاصل کیا۔ اسے ایک سرٹیفیکیٹ اور ایوارڈ سے بھی نوازا ، جنھیں وائٹ ہاؤس میں لٹکایا جائے گا۔‘‘

ٹوائلٹ ہی چوری

برطانیہ میں نامعلوم چور ٹوائلٹ چُرا کر لے گئے۔ یہ کوئی عام ٹوائلٹ نہیں تھا، بلکہ آکسفورڈ شائر میں واقع ایک شاہی محل’’ بلین ہائم پیلیس‘‘ میں نمائش کے لیے رکھا گیا’’ امریکا‘‘ نامی یہ ٹوائلٹ، 18 قیراط سونے سے تیار کیا گیا تھا۔ ٹوائلٹ باقاعدہ کام بھی کررہا تھا اور اس کی ٹوٹ پھوٹ سے پانی کی لائینز متاثر ہوئیں۔اس ٹوائلٹ کو اطالوی فن کار، موریزیو کیٹلان نے بنایا تھا۔

کیا ہی خُوب خواہش تھی

مسجد الحرام کی انتظامیہ نے ایک پاکستانی ملازم کے لیے حرمِ پاک کی صفائی ستھرائی کے کام میں بہترین کارکردگی پر نقد انعام کا اعلان کیا، مگر اُس پاکستانی نے یہ کہہ کر سب کو حیران کردیا کہ ’’مجھے پیسے نہیں چاہئیں۔ 

بس حجرِ اسماعیل(یعنی حطیم، جو خانۂ کعبہ ہی کا حصّہ ہے) میں نوافل کی اجازت دے دی جائے۔‘‘ انتظامیہ نے اُس پاکستانی نوجوان کے لیے حجرِ اسماعیل خالی کروایا اور کچھ دیر کے لیےدروازے بند کردیے تاکہ وہ یک سوئی سے نوافل ادا کر سکے۔

کباڑیا طالبِ علم

ضلع چارسدّہ کے ایک نوجوان کباڑیے نے مثال قائم کردی۔ سلیم خان نے عبدالولی خان یونی ورسٹی، مردان سے ایم اے انگلش میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے گولڈ میڈل جیتا۔ اُس نے میٹرک میں بھی ٹاپ کیا تھا۔ جب کہ چھوٹا بھائی، کامران ساتویں جماعت میں اوّل آیا تھا، مگر نیا یونی فارم نہ ہونے پر دِل برداشتہ ہوکر خود کُشی کرلی تھی۔ طالبِ علم کا والد بے روزگار ہے، جب کہ والدہ، گھروں میں کام کرتی ہیں۔

پہلی ہندو خاتون پولیس افسر

ایک طرف بھارت ہے، جہاں اقلیتیں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں اور دوسری طرف پاکستان، جہاں اقلیتیں کسی تفریق کے بغیر ترقّی کی منازل طے کر رہی ہیں۔ 

گزشتہ برس کوہلی برادری سے تعلق رکھنے والی29 سالہ، پشپا کماری سندھ پولیس میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہوئیں۔ اُنہوں نے ڈاؤ یونی ورسٹی سے انتہائی نگہہ داشت کے شعبے میں گریجویشن کیا اور بے نظیر ٹراما سینٹر میں آئی سی یو ٹیکنالوجسٹ کے طور پر فرائض انجام دے رہی تھیں۔ ویسے اللہ خیر کرے، طب کے افراد نہ جانے کیوں پولیس کا رُخ کر رہے ہیں۔

جل بگولا

یہ’’ آگ بگولا‘‘ کے خاندان سے نہیں، بلکہ الگ چیز ہے۔ گزشتہ برس ٹھٹّھہ کے علاقے، گھوڑا باری کے قریب سمندر میں جل بگولا( واٹر اسپاؤٹ) دیکھا گیا، جسے کیمرے کی آنکھ نے محفوظ بھی کرلیا، جس میں سطحِ سمندر سے آسمان تک پانی کا گول ستون معلّق دیکھا جا سکتا تھا۔ ماہرین کے مطابق، یہ بگولا خطرناک بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات اپنے اردگرد کی بھاری اشیا بھی اپنے ساتھ اوپر اٹھا لیتا ہے۔ واضح رہے، فروری 2016ء میں بلوچستان کے ساحلی مقام، کوہِ کلمت میں بھی جل بگولا دیکھا گیا تھا، جسے عالمی ماہرین نے بحیرۂ عرب میں بننے والا پہلا بگولا قرار دیا تھا۔

’’دی ٹی از فنٹاسٹک‘‘

27 فروری کو بھارتی جہاز پاکستان میں داخل ہوئے، تو پاک فضائیہ کے شاہینوں نے اُنھیں مار گرایا اور ایک پائلٹ، ابھے نندن گرفتار ہوا۔ بھارتی میڈیا نے اُس پر ظلم و ستم کی جھوٹی کہانیاں پھیلانا شروع کیں، تو ابھے کا ویڈیو بیان منظرِ عام پر آگیا، جس میں اُس نے نہ صرف پاک فوج کے حُسنِ سلوک کی تعریف کی، بلکہ ہاتھ میں تھامے چائے کے کپ سے چسکی بھرتے ہوئے کہا’’ ٹی از فنٹاسٹک۔‘‘

بعدازاں یہ کپ کراچی میں پاک فضائیہ کے میوزیم میں رکھا گیا۔ پاک فوج کی مزے دار چائے کے چرچے بعد میں بھی رہے۔ رومانیہ سے تعلق رکھنے والے میوزک آرٹسٹ، ایڈریئن سینا نے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر ڈی جی، آئی ایس پی آر، میجر جنرل آصف غفور کے ساتھ ملاقات کی ایک ویڈیو شیئر کی، جس کے کیپشن میں ابھے نندن کا جملہ”پاکستانی ٹی از فنٹاسٹک“ لکھا۔

چاند پر اُگی کپاس

گزشتہ برس کی ایک اہم سائنسی پیش رفت چاند پر کپاس اُگانے کا کام یاب تجربہ تھا۔ چینی سائنس دانوں نے اس مقصد کے لیے7 اِنچ کا خصوصی کنٹینر تیار کیا، پھر اُس میں مٹّی، پانی، ہوا اور بیج ڈالے۔ پہلے بیج کھاد میں دَبا کر ایک ہفتے تک پانی میں رکھے گئے، جس کے بعد کونپلیں نکل آئیں۔ اس کی اہمیت یہ ہے کہ چاند کی سطح پر کسی حیاتیاتی نمو کا یہ پہلا کام یاب تجربہ تھا۔

کُتب خانے

ویسے آپ کا کیا اندازہ ہے، دو، ڈھائی کروڑ آبادی کے شہر، کراچی میں عوامی کُتب خانے کتنے ہوں گے؟ اس سوال کا جواب سندھ کے وزیرِ تعلیم و ثقافت، سیّد سردار شاہ نے وقفۂ سوالات کے دوران ایوان میں دیا۔ اُنھوں نے بتایا کہ کراچی کے تین کروڑ افراد کے لیے محض3 پبلک لائبریریز ہیں، جب کہ خیرپور میں عوام کے لیے4 کُتب خانے قائم کیے گئےہیں۔

فولڈنگ مین

چین میں ایک شخص 30 سال کے بعد گزشتہ برس سیدھا کھڑا ہو کر چلنے کے قابل ہوا۔46 سالہ، لائی ہوا’’ اینکلوزنگ اسپونڈی لائٹس‘‘ نامی مرض میں مبتلا تھا، جس سے اُس کا دَھڑ آگے کی جانب اس قدر مُڑ چکا تھا کہ چہرہ رانوں سے چپک گیا تھا۔ ڈاکٹرز نے طویل اور پیچیدہ آپریشن کے بعد اُس کی کمر سیدھی کردی۔اُسے’’ فولڈنگ مین‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔

اچھے نمبرز

’’میرے پیارے ابّو اور میری ماں! مجھے معاف کر دینا۔ میرا رزلٹ بہت خراب آیا ہے اور جس کی وجہ سے اب میری کہیں عزّت نہیں رہے گی، مگر مَیں نے نمبر لینے کی کوشش کی تھی۔ بس مجھے معاف کر دینا۔ اللہ حافظ‘‘یہ بھکّر کے ایک 17 سالہ طالبِ علم کے خط کے الفاظ ہیں۔ یہ خط لکھنے کے بعد اُس نے نہر میں کود کر خود کشی کرلی۔گزشتہ برس زاہد محمود کی الم ناک موت جہاں عوام کو سوگوار کر گئی، وہیں اچھے نمبرز کی دوڑ میں بچّوں پر غیر ضروری دباؤ ڈالنے کے بڑھتے رواج پر بھی بہت سے سوالات اُٹھے۔

خواتین مارچ کی دُھول

بھلا خواتین کو اُن کے حقوق دینے کا کون مخالف ہو سکتا ہے…؟؟ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے معاملات میں خواتین ناانصافی اور صنفی امتیاز کا نشانہ بنتی ہیں، مگر’’ خواتین مارچ‘‘ میں جو اودھم مچایا گیا، اُس کے سبب وہ کچھ کچھ’’ لافنگ مارچ‘‘ کی صُورت اختیار کر گیا۔ ایک بینر پر لکھا تھا’’مجھے کیا معلوم تمہارا موزہ کہاں ہے؟‘‘مان لیتے ہیں، حالاں کہ بیوی کو شوہر کے ذہن سے گزرنے والے خیال تک کا علم ہوتا ہے۔ 

ایک طرف سے آواز لگی’’ اپنا کھانا خود گرم کرو‘‘، اب بھلا اپنی گھربیتی یوں عوام کو بتانے کی کیا ضرورت تھی؟ کچھ اور بھی گرم، سرد باتیں تھیں، مگر وہ بینرز ہم ٹھیک سے نہیں دیکھ پائے، مگر جنھوں نے دیکھے، وہ سخت ناراض تھے۔حتیٰ کہ خواتین نے بھی اس طرح کی باتوں کو پسند نہیں کیا، بلکہ بہت سی خواتین کا تو کہنا تھا کہ’’ خواتین مارچ‘‘، خواتین کے حقیقی مسائل کو پس منظر میں دھکیلنے کا سبب بنا۔

جان تو دینی ہے مگر…

’’جان اللہ کو دینی ہے، سانحۂ ساہی وال کے ملزمان کو کیفرِ کردار تک پہنچائیں گے‘‘،’’ جان اللہ کو دینی ہے، رانا ثناء اللہ پر منشّیات کیس ثابت کریں گے‘‘،جان تو سب نے اللہ ہی کو دینی ہے،(بلکہ سب کی جان اللہ نے لینی ہے) مگر وفاقی وزیر، شہر یار آفریدی نے یہ بات اتنے تواتر سے دُہرائی کہ یہ ضرب المثل ہی بن گئی۔ شاید اس جملے سے وہ اپنی بات کی صداقت، میرٹ اور بے خوفی ثابت کرنا چاہتے تھے، لیکن ہر’’ قسمیہ معاملے‘‘ میں نااہلی ہی ثابت ہوئی۔

اسی لیے رانا ثناء کی رہائی پر کہا گیا ’’ اِس بار شاید جج نے سوچا کہ جان تو اللہ کو دینی ہے۔‘‘ شہریار آفریدی نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ وہ عدالت میں رانا ثناء اللہ کے خلاف بطور ثبوت ویڈیو پیش کریں گے، مگر جب دور ہی یو ٹرن کا ہے، تو اُنھوں نے بھی لے لیا۔ کہا’’ مَیں نے ویڈیو نہیں، فوٹیج کی بات کی تھی۔‘‘ وہ دن، لوگ پوچھتے پِھرتے ہیں’’ بھیّا، یہ ویڈیو اور فوٹیج کیا الگ الگ ہو وے ہیں…!!‘‘

حریم’’ بڑے حَرموں‘‘ میں

2019 ء میں ایک اہم انکشاف یہ بھی ہوا کہ جن مقامات تک کسی کی پہنچ نہیں، وہ ٹِک ٹاک گرل، حریم شاہ کے لیے آسان ہدف ہیں۔ اُنھوں نے وزارتِ خارجہ کے کانفرنس روم میں اس ناز و انداز سے تصاویر بنوائیں کہ تنقید کرتے ہوئے ترس آ رہا تھا، مگر تنقید تو بنتی تھی، سو خُوب ہوئی۔ پھر ایک ٹی وی اینکر کے جہاز میں چوری کے حوالے سے حریم کا نام گونجا۔ 

پنجاب کے وزیر، فیاض الحسن چوہان اُن کا شکار بنے اور سال کے آخری دنوں میں شیخ رشید اُن کی لپیٹ میں آگئے۔ اُنھوں نے وزیرِ ریلوے کے ساتھ ویڈیو چیٹ پبلک کردی۔ اس موقعے پر حریم شاہ کے نام سے ٹوئٹ سامنے آئی کہ ’’زیادہ تنگ کیا، تو عمران خان کے ساتھ ویڈیو بھی جاری کردوں گی‘‘، مگر اچھا ہوا کہ وہ ٹوئیٹر اکاؤنٹ’’ جعلی‘‘ نکلا۔

وزیرِ اعظم کی بڑی باتیں

ہمارے ایک دوست کہتے ہیں’’ بڑی بڑی باتیں کرنی چاہئیں تاکہ آدمی بڑا نظر آئے‘‘، شاید یہ بات وزیرِ اعظم تک پہنچ گئی۔ وہ مسلسل’’ بڑی، بڑی‘‘ باتیں ہی کر رہے ہیں، بلکہ اب تو ٹرافی اُن کے نام ہوچُکی۔ خان صاحب نے دورۂ ایران کے دوران بتایا کہ ’’جرمنی اور جاپان پڑوسی ممالک ہیں۔‘‘ اِس انکشاف سے جغرافیے کے طلبہ کے علاوہ دونوں مُمالک بھی پریشان ہوگئے کہ رات سوئے تو ایسا کچھ نہیں تھا، صبح پاکستان سے کیا اطلاع مل گئی؟ مگر بعدازاں تسلّی ہوگئی کہ سرحدیں پُرانی جگہ ہی پر برقرار ہیں، بس پاکستانی وزیرِ اعظم نے’’ بڑی‘‘ بات کردی تھی۔ 

ویسے عوام کو اس طرح کی باتوں پر دھیان دینے کی بجائے صرف لیڈر کا ویژن دیکھنا چاہیے۔ ہم نے دوسری، تیسری کلاس میں رٹّا لگایا تھا کہ’’ درخت دن میں آکسیجن اور رات کو کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں‘‘، مگر وہ پُرانے سائنس دان تھے۔ خان صاحب نے عوام سے نیا سائنسی تجربہ شئیر کیا کہ’’ درخت رات کو آکسیجن خارج کرتے ہیں۔‘‘ ویسے ہر بات کو’’ سِلپ آف ٹنگ‘‘ کہہ کر ٹال دینا بھی ٹھیک نہیں، خاص طور پر مذہبی معاملات میں تو بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس میں کوتاہی سے پنجابی والی ٹنگ بھی سِلپ ہو سکتی ہے اور خان صاحب کا پاؤں تو ویسے بھی چِھلکے پر ہے۔

پلیٹیں

میاں نواز شریف جیل میں علیل ہوئے، تو معلوم ہوا کہ اُن کے پلیٹ لیٹس تیزی سے گر رہے ہیں، جس کی وجہ سے بہت سی طبّی پیچیدگیاں جنم لے رہی ہیں۔ اس کیس کے منظرِ عام پر آنے سے پہلی بار عوام کو پلیٹ لیٹس کے اُتار چڑھاؤ کے بارے میں تفصیلی علم ہوا، حالاں کہ اِس سے قبل اسٹاک ایکس چینج ہی سے اِس طرح کی خبریں آیا کرتی تھیں۔ 

گو کہ یہ ایک سنجیدہ اور خالصتاً طبّی معاملہ تھا، مگر یار لوگوں نے پھر بھی تفریح کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ سوشل میڈیا پر قائم علی شاہ سے منسوب بیان دَھڑا دَھڑ شئیر ہوا کہ’’نواز شریف پلیٹیں کم ہونے پر پریشان ہونے کی بجائے بازار سے نئی خرید لیں۔ ہمیں دیکھیں! ہمارا تو پورا ڈنر سیٹ ہی چوری ہوگیا۔‘‘

’’پیچھے تو دیکھو‘‘

گول مٹول سے بچّے، احمد شاہ کا معصومانہ انداز میں کہا گیا جملہ’’ اوئے پیچھے تو دیکھو‘‘ وائرل ہونے والے جملوں میں سرِ فہرست تھا۔

اِس جملے نے جہاں احمد شاہ کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا کہ وہ ٹی وی چینلز پر چھایا رہا اور سوشل میڈیا پر اُس کی ویڈیوز لاکھوں افراد نے دیکھیں اور پسند کیں، وہیں سیاسی کارکنان اور عام افراد نے اس جملے کو اپنی بھڑاس نکالنے کے لیے بھی خُوب استعمال کیا۔

کالے کی امّی

ڈربن میں جنوبی افریقا کے خلاف وَن ڈے میچ میں پاکستان کے جیتنے کے قوی امکانات تھے کہ’’ اندیلی پہلوِک وایو‘‘ وکٹ پر ڈٹ گئے اور اپنی ٹیم کو کام یابی کی جانب بڑھا دیا۔ 

یوں یقینی فتح ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر پاکستانی ٹیم کے کپتان، سرفراز احمد کچھ جذباتی ہوگئے اور بے اختیار بول اُٹھے ’’ ابے کالے! تیری امّی کہاں بیٹھی ہوئی ہیں آج، کیا پڑھوا کے آیا ہے تُو۔‘‘ جہاں اس جملے پر قہقہے بکھرے، وہیں اسے نامناسب بھی قرار دیا گیا۔ بعدازاں، سرفراز احمد نے اس پر معذرت کرلی۔

دو ٹکے کی عورت

ڈراما سیریل’’ میرے پاس تم ہو‘‘ میں ہمایوں سعید کے ایک ڈائیلاگ’’ دو ٹکے کی عورت‘‘ نے کئی دنوں تک سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کی شکل اختیار کیے رکھی۔بہت سے مَردوں نے اس جملے پر’’ ذاتی تجربات‘‘ کی بنا پر اِس قدر جھوم جھوم کر گردنیں ہلائیں کہ کئی ایک کی گردنوں میں بل آگیا۔ 

تاہم عمومی طور پر اس ڈائیلاگ کو پسند نہیں کیا گیا۔ دراصل، اس جملے کے ذریعے عورتوں کی بے وفائی نمایاں کی گئی تھی، حالاں کہ دیکھا جائے تو مَردوں میں سے شاید ہی کسی نے عورت کے لیے کبھی جان دی ہو۔ سسّی، ہیر، ماروی اور دیگر لوک کہانیوں میں بھی قربانی عورت ہی نے دی، مَرد تو بیٹھے بانسری بجاتے رہے۔

گاؤں پھر مسمار

فلسطین کے گاؤں، العراقیب کو دنیا بھر کے دیہات میں ایک منفرد’’ اعزاز‘‘ حاصل ہے۔ صیہونی فوجیوں نے اُسے مسلسل اپنی جارحیت کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ اسرائیلی افواج نے گزشتہ برس اسے مسمار کردیا۔تاہم، یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا، کیوں یہ گاؤں اس سے پہلے بھی سات برسوں میں 137 بار مسمار کیا جا چُکا ہے۔

اپنی للّو مت چلاؤ

ایک ٹی وی شو میں گھریلو ناچاقی اور خلع و طلاق کے معاملات زیرِ بحث تھے کہ مہمانوں میں شامل رشتے کروانے والی آنٹی، مسز خان نے لڑکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے سخت لہجے میں کہا’’اپنی للّو مت چلاؤ، زبان بند رکھو۔“ وہ کہنا یہ چاہ رہی تھیں کہ اگر لڑکیاں زبان کا غلط استعمال نہ کریں، تو گھر میں لڑائی جھگڑوں کی نوبت نہ آئے۔ مگر اس نصیحت پر خُوب زبانیں چلیں، کسی نے حمایت کی تو کوئی مخالفت میں ڈٹ گیا۔ حالاں کہ بات صرف اتنی ہے کہ زبان خواہ کسی کی ہو، اسے ماچس کی تیلی نہیں بنانا چاہیے۔

مہوش کو ملا تمغہ

لوگوں کو کوئی انعام یا تمغہ ملے، تو اُن کا قد کاٹھ بلند ہوتا ہے، مگر مہوش حیات اس معاملے میں بدقسمت رہیں۔ اُنھیں صدرِ مملکت نے یومِ پاکستان کے موقعے پر تمغۂ امتیاز سے کیا نوازا کہ لوگ باقاعدہ لٹھ لے کر اُن کے پیچھے پڑ گئے۔اپنے تو نشیمن پر بجلیاں گراتے ہی ہیں، مگر اُن پر خاصی تنقید شوبز کے باہر سے بھی ہوئی۔ اتنی تنقید تو رحمان ملک کو یہ تمغہ اور پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دینے پر بھی نہیں ہوئی تھی۔

مگر مہوش نے بھی مخالفین کو چِڑانے کا تہیّہ کر رکھا تھا کہ تمغہ سینے پر سجا سجا کر خُوب سیلفیاں بنوائیں۔ عام خیال یہی ہے کہ یہ سیاسی نوازش تھی۔ اگر بات سیاسی انعام ہی کی ہے، تو وینا ملک کئی ماہ سے ٹوئیٹر پر پی ٹی آئی کا مقدمہ لڑ رہی ہیں اور پھر حریم شاہ کی پارٹی کے لیے قربانیاں بھی سامنے ہیں، لہٰذا اُن کا بھی کچھ حق تو بنتا ہے۔

لائیو منگنی

’’ اٹھارویں لکس اسٹائل ایوارڈز‘‘ کی تقریب جاری تھی۔ اداکار یاسر حسین نے اچانک کیمروں کے سامنے اداکارہ اقرا عزیز کو شادی کی پیش کش کردی۔ چوں کہ پروپوز کرنے کا انداز خاصا عامیانہ تھا، تو اُس پر کافی لے دے بھی ہوئی۔ بہرحال، پیش کش پر چٹ ہاں ہوئی اور پٹ منگنی کی انگوٹھی بھی پہنا دی گئی۔ یوں دونوں نے اپنی منگنی کو ایک منفرد شکل دے ڈالی۔ اور پھر سال کے آخر میں دونوں شادی کے بندھن میں بھی بندھ گئے۔

انڈے والے

گزشتہ برس شروع ہونے والے مقبولِ عام ڈرامے’’میرے پاس تم ہو‘‘کے ڈائیلاگز کے ساتھ بعض کرداروں نے بھی خُوب داد سمیٹی۔ ایسا ہی ایک کردار ایک بچّے’’رُومی‘‘ کا ہے، جسے ڈرامے میں اتنے انڈے کِھلائے گئے کہ اتنے تو شاہد آفریدی نے میچز میں بھی حاصل نہیں کیے۔ رُومی کے یوں انڈے کھانے پر مِیمز بنیں اور وہ ’’انڈا کھانے والا بچّہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ کچھ لوگوں نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ ’’رُومی نے ہاسٹل میں رہنے کی خواہش اسی لیے کی تاکہ وہ گھر پر روز روز آملیٹ کھانے سے بچ سکے۔‘‘اسی ڈرامے کے ایک کردار نے’’ میرے ابّا کہتے تھے‘‘ کی کچھ ایسی تکرار کی کہ ناظرین سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ابّا صرف’’ فرماتے‘‘ ہی رہتے تھے یا کچھ اور کام کاج بھی کرتے تھے۔ 

بھارت سے آنے والی خبر یاد آئی کہ ریاست اُتر پردیش سے تعلق رکھنے والے 42 سالہ، سبھاش نے ایک ہی نشست میں 2 ہزار روپے کے عوض 50 انڈے کھانے کی شرط لگائی۔ پھر چھابڑی والے سے اُبلے انڈے خریدے اور ایک ایک کر کے انڈے کھانے لگا، لیکن جیسے ہی 42 واں انڈا منہ میں رکھا، اچانک نیچے گرا اور بے ہوش ہو گیا۔ اسپتال لے جایا گیا، مگر وہ راستے ہی میں دَم توڑ گیا۔اُتر پردیش ہی سے خبر آئی کہ ایک خاتون شوہر سے ناراض ہو کر میکے چلی گئیں۔ اُن کا کہنا تھا’’ مجھے انڈے کھانا پسند ہیں، مگر شوہر کھانے سے روکتا ہے۔‘‘بے چارے شوہر نے دہائی دی کہ’’ یومیہ اُجرت پر مزدوری کرتا ہوں، روزانہ انڈے نہیں خرید سکتا۔مگر بیوی روزانہ کھانے میں انڈا مانگتی ہے۔‘‘

’’ ہائے ہائے مزے مزے‘‘

ڈراما سیریل’’ رانجھا رانجھا کردی‘‘کا کردار،’’ بھولا‘‘ بھی شائقین میں بے حد مقبول ہوا۔ عمران اشرف نے اپنی طبعی عُمر سے چھوٹے ذہن کے ایک نوجوان کا کردار ادا کیا، جو بچّوں جیسی حرکتیں کرتا ہے، مگر اُس کی شادی ایک نارمل لڑکی سے ہو جاتی ہے۔ بھولا ’’ہائے ہائے، مزے مزے‘‘ کچھ اس معصومیت سے کہتا ہے کہ اُس پر بے ساختہ پیار آ جاتا ہے۔ 

بھولے کے کردار کو اِس لیے بھی زیادہ سراہا گیا کہ اس کے ذریعے معاشرے میں موجود اُن ہزاروں ذہنی طور پر پس ماندہ افراد پر بھی توجّہ مرکوز ہوئی، جو عموماً نظرانداز کر دئیے جاتے ہیں۔ ویسے پچھلے دنوں ایک بڑے سیاست دان کے متعلق بھی خبر آئی کہ اُن کا دماغ چھوٹا ہو گیا ہے، مگر لگتا نہیں۔

تازہ ترین