• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا سیاست سے اتنا ہی تعلق ہے یا ہو سکتا ہے جتنا کسی عام پاکستانی کا یعنی میں نہ پیشہ ور سیاست دان ہوں نہ کرسیٔ اقتدار کا متمنی۔ میری سیاست اتنی ہے کہ اس ملک کے لوگوں کی صدیوں پرانی مشکلات اور مصائب میں کمی کرنے کیلئے کچھ کر سکوں تو ضرور کروں۔ اپنے اردگرد کے حالات سے وہی لوگ بے خبر رہ سکتے ہیں جن کے ضمیر مردہ ہو چکے ہوں یا جنہیں محض اپنی ذات سے دلچسپی ہو۔ اگر آپ اپنا شمار ایسے لوگوں میں نہیں کرتے تو پھر آپ کو اپنے اردگرد رہنے والوں کی محرومیوں کا احساس بھی ہوگا۔ اگر آپ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری نہیں ہیں تو پھر آپ یہ غور بھی کریں گے کہ آبادی کی اکثریت محرومیوں کا شکار کیوں ہے؟ اور اگر آپ دردمند دل رکھتے ہیں تو پھر موجودہ خرابیوں کو دور کرنے کیلئے آگے بھی بڑھیں گے۔ عملاً نہ سہی تحریری طور پر ہی سہی، جلسے میں نہیں تو گھر میں، محلے میں، اپنے احباب میں، جہاں بھی موقع ملے گا آپ اس ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کریں گے۔ اُس نظام کے خلاف آواز بلند کریں گے جو چند افراد کی جھولیاں بھر رہا ہے اور آبادی کی اکثریت کو زندگی کی بنیادی ضرورتوں اور معمولی آسائشوں سے بھی محروم رکھ رہا ہے۔ یہی سیاست ہے۔

میں نے یہ معروضات اس لئے پیش کی ہیں کہ میرے کچھ قارئین اور دوستوں نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ میں سیاست میں بہت پڑ گیا ہوں۔ شاید وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے خول میں دبا رہوں اور اردگرد سے آنکھیں بند کر لوں اور یہ تاثر دوں کہ ’’سب اچھا ہے‘‘۔ کاش! میں ایسا کر سکتا مگر افسوس ہے کہ سب اچھا پہلے تھا نہ اب ہے اور نہ ہی کسی معجزے یا مافوق الفطرت کارنامے سے ’’تِنی منٹی‘‘ درست ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے بے غرض اور اپنے مفادات کی قربانی دینے والے بہت سے افراد کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے دیارِ غیر میں بیٹھ کر ملک عزیز کیلئے سوچنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے گھر گھر جانے، ہر دروازے پر دستک دینے اور انہیں نئی صبح کی نوید دینے اور اس کو قریب لانے کیلئے کام کرنے کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔ کیا ہم ایسا کر رہے ہیں؟ کیا ایسے کوئی آثار نظر آتے ہیں کہ آج نہیں تو کل یہ کام شروع ہوگا۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مجھے ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا، ایسے کوئی آثار تک نہیں ہیں۔ ذرائع ابلاغ بھی آزاد نہیں ہیں۔ جو استعمال ہونے سے انکاری ہیں وہ زیر عتاب یا زیر احتساب ہیں۔ ایک ایسا گروہ پیدا ہوگیا ہے جو اس ملک کی غالب اکثریت کی قیمت پر ایک محدود طبقے کے مفادات کا ڈھول پیٹ رہا ہے، رائے عامہ کو گمراہ کیا جا رہا ہے ایسے میں کسی باضمیر فرد کا خاموش رہنا ممکن نہیں ہے۔ ہم نے ملک تڑوا لیا مگر اپنی جہالت، عصبیت اور کم عقلی کو تسلیم کرنے کے بجائے انہی باتوں پر اصرار کرتے رہے اور کر رہے ہیں۔ ذرا سوچئے ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ تاریخ کبھی ایسے لوگوں کو معاف نہیں کرتی جو اس کا رخ پہچاننے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور اگر آج بھی آپ نے عقل و خرد کی باگ ہاتھ میں نہ لی اور ویسے ہی حالات پیدا کرتے رہے اور لوگوں تک اپنی بات نہ پہنچا سکے تو نتائج وہی ہوں گے جو اس سے قبل پیش آ چکے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے کسی غیر معمولی فہم و دانش کی ضرورت نہیں، بس ذرا سا نظر جھکا کر اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ اب آپ ہی بتائیں اس قسم کی حماقتوں کو دیکھتے ہوئے سیاست سے علیحدہ رہ سکتا ہوں؟ اب آئیے! آخر میں یہ دعا کریں۔ ہم نے امیدوں، وعدوں اور دلاسوں کے سہارے ایک اور سال گزار دیا۔ 365دن انتظار کی سولی پر لٹکا دیے۔ نئے سال کا سورج طلوع ہو چکا۔ چاہتا ہوں کہ نئی بات لکھوں لیکن بہتے دریائوں کا رنگ بدلا ہے نہ سورج کی تمازت میں تیزی آئی ہے۔ ٹھٹھرتی راتوں کی یخ بستگی بھی وہی ہے اور امیدوں، وعدوں اور دلاسوں کی بارات بھی روانہ نہیں ہو پائی۔ میں گزشتہ سال انہی دنوں میں مانگی گئی دعا دہراتا ہوں، آپ بھی ہاتھ اٹھائیں کہ دکھوں کی اَن کہی اَن دیکھی مشکلوں سے نجات کا یہ آخری سال ہو۔

مجھے کمی نہیں ہوتی کبھی محبت میں!

یہ میرا رزق ہے اور آسمان سے اترا ہے

تازہ ترین