• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی کے عباس ٹاﺅن میں قیامت صغریٰ برپا ہوئی، لاشیں گریں، زخمیوں کے کراہنے اور لواحقین کی چیخ و پکار سے کان پڑی آواز سنائی نہ دی مگر مقامی انتظامیہ، رینجرز اور پولیس تین گھنٹے تک موقع واردات پر نہ پہنچی، کہتے ہیں کہ اعلیٰ افسر اور ادنیٰ اہلکار، منگنی کی ایک تقریب کے حفاظتی انتظامات میں مصروف تھے۔ میڈیا اس بے نیازی، بے حسی اور سنگدلی پر سیخ پا ہے مگر میرے لئے یہ حیران کن واقعہ نہیں۔
جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں اور نو دولتیوں کو اس سماج میں رول ماڈل کس نے بنایا؟ ان کی ہر واردات، غلط کاری اور عوام دشمن کارگزاری پر داد و تحسین کے ڈونگرے کس نے برسائے اور فوج سمیت تمام ریاستی اداروں کو ان کا غلام بے دام بنا کر ہر جائز و ناجائز حکم کی تعمیل کا سبق کس نے دیا، اب نمود و نمائش، لوٹ مار، اپنے اصل فرائض سے پہلوتہی اور اقتدار کے ایوانوں پر قابض شہدوں کی خوشآمد اور چاپلوسی میں مصروف سرکاری ملازمین نے اس ملک کے اصل مالکان سے لاتعلقی اختیار کر لی ہے تو رونا کس بات کا؟ اور واویلا کیوں؟
جب ملک کو اندھیروں، قوم کو غربت و افلاس اور نوجوانوں کو بیروزگاری کی دلدل میں دھکیل کر پرتعیش محلات کی تعمیر جائز ہے؟ قومی اداروں پر چیلوں چانٹوں کا قبضہ روا ہے؟ ترقیاتی فنڈز کے نام پر قومی خزانے کی لوٹ مار میں کوئی حرج نہیں، کوئی احتساب اور تطہیر کی بات کرے تو جمہوریت دشمن اور گردن زدنی ہے تو دو سابق سرکاری ملازمین کے بچوں کی منگنی کی شاہانہ تقریب موہٹہ پیلس میں کرنے، شہر بھر کے سرکاری افسروں اور اہلکاروں کو حفاظتی انتظامات اور پروٹوکول میں مگن رہنے اور عباس ٹاﺅن کے شہدائ، زخمیوں اور غم زدہ لواحقین کی خیر خبر نہ لینے پر ناک بھوں چڑھانے کی وجہ؟ منگنی کی حسین تقریب میں وزیراعظم اسلام آباد سے، حکمران پارٹی کے سربراہ لاہور سے اور دیگر معززین ملک بھر سے شرکت کے لئے دوڑے چلے آ رہے ہوں، وہاں بے چارے سرکاری ملازمین پر غصہ کس بات کا وہ تو اپنا فرض منصبی ادا کر رہے ہیں۔ قوم کے آقاﺅں کی حفاظت ان کی ذمہ داری ہے، عباس ٹاﺅن اور شہر کے دوسرے باسیوں کا کیا ہے، جینا مرنا برابر، زندہ رہیں تو کیا ہے، مر جائیں ہم تو کیا۔
شادی بیاہ کی تقریبات دھوم دھڑکے سے کرنے کا رواج پرانا ہے، ہزار جواز پیش کئے جاتے ہیں، کئی خاندان اس دھوم دھڑکے کے بعد زندگی بھر قرض اتارنے میں لگے رہتے ہیں مگر منگنی اور مہندی کی تقریبات پر کروڑوں لٹانے اور بے وسیلہ عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کا رواج جنرل پرویز مشرف کے دور میں پڑا، نقطہ عروج موہٹہ پیلس کی تقریب ہے شادی کی تقریب کیا ہو گی؟ دیکھنا چاہئے لیکن اس ملک میں ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب ایک نیک نام جاگیردار سیاستدان کی اکلوتی بیٹی کی شادی کے موقع پر گھر سے شہر تک برقی قمقموں سے چراغاں دیکھ کر سید ابوالاعلیٰ مودودی اور حمید نظامی واپس لوٹ گئے کہ نمود و نمائش اور فضول خرچی کا یہ انداز ناپسندیدہ ہے۔
دل تو شائد سنگدلی، بے حسی اور بے نیازی کا طعنہ سننے والے سرکاری اہلکاروں اور افسروں کا بھی چاہتا ہو کہ وہ پروٹوکول ڈیوٹی اور ناروا حفاظتی انتظامات تج کر عباس ٹاﺅن کے شہیدوں کی خبر لیں، زخمیوں کو ہسپتالوں تک پہنچانے کے کام کی نگرانی کریں اور لواحقین کے دکھ درد میں شریک ہوں مگر عباس ٹاﺅن جا کر انہیں کیا ملتا؟ زخمیوں کی کراہیں، لواحقین کی آہیں اور مشتعل مظاہرین کی گالیاں جبکہ موہٹہ پیلس کی سکیورٹی قومی وسائل پر چلنے والی اشرافیہ کے پروٹوکول اور منگنی کے انتظامات میں کوئی کسر رہ جاتی تو بڑے صاحب ان کا دھان بچہ کولہو پلوا دیتے۔ سو انہوں نے سوچا ہو گا عباس ٹاﺅن کو چھوڑو کہ یہ خون خاک نشیاں تھا رزق خاک ہوا اپنے مستقبل کی فکر کرو، انعام، ترقی اچھی پوسٹنگ موہٹہ پیلس میں موجود لوگ دلوائیں گے اور انہی کی خدمت کا حق ادا کرو۔
عباس ٹاﺅن کے دلخراش واقعہ پر ہماری اشرافیہ اور اس کی غلام و تابعدار سرکاری انتظامیہ نے جس سنگدلانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے جمہوریت کے نام پر اس ملک پر مسلط وڈیرہ شاہی کلچر کا شاندار مظاہرہ ہے اور اس بات کا ثبوت کہ اگر اشرافیہ کو بار بار حکمرانی کا موقع ملا تو جس طرح کوئٹہ اور کراچی کے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں، دہشت گردی نے ملک کی چولیں ہلا دی ہیں۔ زوال پذیر معیشت پاکستان کو ناکامی اور شکست و ریخت کے خطرے سے دو چار کر چکی ہے اور عوام کا اعتماد ریاست اور ریاستی اداروں پر ختم ہوتا جا رہا ہے، بالکل اسی طرح بے حسی، سنگدلی اور عوام دشمنی کا یہ کلچر مزید پروان چڑھے گا اور آج جو عباس ٹاﺅن کے غم زدگان کے ساتھ بیتی، پچھلے دو ماہ کے دوران کوئٹہ میں ہزارہ برادری کو جس کا تجربہ ہوا پاکستان کے دیگر شہریوں کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمیں اپنی باری کا انتظار کرنا چاہئے۔
تحریک انصاف کے انتخابات ہماری سیاسی تاریخ کا خوشگوار اور انمول تجربہ تھا مگر عمران خان کے ارد گرد بعض غیر سیاسی نابغوں نے اپنی ناتجربہ کاری یا پرکاری کے ذریعے اسے تلخ تجربے میں تبدیل کر دیا۔ اطلاعات تو دیگر شہروں سے بھی یہی ہیں مگر لاہور میں جو لوگ دھن دھونس دھاندلی کے زور پر تحریک انصاف کا چہرہ بنے وہ تبدیلی کے خواہش مند نوجوانوں، بالخصوص آئی ایس ایف کے ٹائیگرز کے لئے ڈراﺅنا خواب ہیں، اب مسلم لیگ (ن) کو لاہور میں زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں صدر اور جنرل سیکرٹری تحریک انصاف کی شہرت اس کی انتخابی مہم کو چار چاند لگا دے گی، میاں محمود الرشید نے ہار مان لی، عمران خان خورسند ہوئے مگر اب لاہور میں پی ٹی آئی کو ووٹوں کی خرید و فروخت، دولت مند افراد کے اثر و رسوخ اور مختلف مافیاز کی سیاسی جماعتوں میں بے جا پذیرائی کے حوالے سے دوسروں پر تنقید کرتے ہوئے سوچنا ضرور پڑے گا تاکہ کوئی سر پھرا اٹھ کر یہ نہ کہہ دے
دامن کو ذرا دیکھ
ذرا بند قبا کو دیکھ
تازہ ترین