• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ اور ایران کی جانب سے ایک دوسرے کو طاقت کے استعمال کی دھمکیوں میں مسلسل اضافے سے مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کی آگ بھڑکنے کے خطرات سنگین صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور حالات کو تیسری عالمی جنگ کی طرف لے جانے سے روکنے کی نہ تو کوئی سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے اور نہ ہی سرِدست اِس کے بار آور ہونے کی امید دکھائی دیتی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ، جن کے حکم پر عراق میں ایرانی جنرل کے قتل سے دنیا کا امن خطرے میں پڑ گیا ہے، کے غضبناک بیانیے سے لگتا ہے کہ وہ ایران کو اس کی ’’گستاخیوں‘‘ کی سزا دینے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ ہزاروں سال قدیم تہذیب و تمدن کے تفاخر سے سرشار ایرانی قوم اپنی آزادی و خود مختاری کے دفاع کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہے۔ اس کے اس عزم کی ایک جھلک پیر کو تہران میں مقتول جنرل قاسم سلیمانی کی نماز جنازہ کے موقع پر دکھائی دی جس میں لاکھوں سوگوار ایرانیوں کے بےکنار سمندر نے شرکت کرکے دنیا کو بتایا دیا کہ وہ ’’سپر پاور‘‘ کی دھونس اور دھمکیوں سے خوفزدہ ہونے والے نہیں، عراقی پارلیمنٹ نے جنرل قاسم کے قتل پر امریکی فوج کو عراق سے چلے جانے کا کہا تھا۔ امریکی ٹاسک فورس کے سربراہ نے عراقی فوجی کمانڈ کے نام ایک خط میں لکھا کہ امریکہ عراق سے نکلنے کیلئے تیار ہے۔ بغداد میں امریکی و عراقی حکام نے اس کی تصدیق بھی کر دی مگر امریکی وزیر دفاع نے اس کی تردید کر کے امن کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اس کے ساتھ ہی صدر ٹرمپ کا سخت بیان آگیا کہ امریکہ نے عراق میں فوجی اڈے اور تنصیبات پر اربوں ڈالر لگا رکھے ہیں۔ عراق یہ پیسہ واپس کرے ورنہ سخت ترین پابندیوں کیلئے تیار ہو جائے۔ اُنہوں نے ایران کو بھی ایٹمی معاہدے سے دستبرداری کے پسِ منظر میں دھمکی دی کہ اسے کبھی ایٹمی طاقت نہیں بننے دیا جائیگا۔ ادھر عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے انکشاف کیا ہے کہ ایرانی جنرل اپنے قتل کے وقت ایران سعودیہ کشیدگی کے خاتمے کی تجاویز لے کر بغداد آئے تھے اور اسی روز ان سے ملاقات کرنے والے تھے۔ عراقی وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں بتایا کہ امریکی صدر نے بغداد میں امریکی سفارتخانے پر مظاہرے کے بعد ان سے ثالثی کی درخواست کی تھی جس پر اُنہوں نے سعودی عرب کا ایک پیغام ایران پہنچایا تھا اور جنرل قاسم ایرانی قیادت کا جوابی پیغام لائے تھے لیکن کسی پیش رفت سے پہلے ہی خود امریکہ نے اُنہیں قتل کرا دیا۔ اگر ذرا سے تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا تو شاید ایران سعودیہ کشیدگی میں کمی کے ساتھ ایران امریکہ تعلقات میں بھی کوئی نیا موڑ آجاتا۔ امریکی صدر کے اس اقدام پر کئی عالمی دارالحکومتوں کے علاوہ خود امریکہ میں بھی سخت ناراضی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ امریکی کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی نے تو ایوان میں ٹرمپ کے خلاف قرار داد لانے کا بھی اعلان کردیا ہے جس کے تحت فوجی طاقت کے استعمال کے بارے میں صدر کے اختیارات محدود کئے جا سکتے ہیں۔ ایران امریکہ کشیدگی سے دنیا کا امن دائو پر لگا ہوا ہے لیکن اقوام متحدہ خاموش ہے۔ اس کی طرف سے معاملہ سلجھانے کیلئے کوئی سرگرمی نظر نہیں آرہی جو انتہائی افسوسناک ہے۔ پاکستان نے جو اس تنازعے میں فریق نہ بننے کا اعلان کر چکا ہے۔ معاملے کو سفارتی ذرائع سے حل کرنے پر زور دیا اور اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔ مشرقِ وسطیٰ میں اس وقت جو صورتحال جنم لے رہی ہے اسے پاکستان سمیت ایشیائی اور خلیجی اسٹاک مارکیٹیں شدید مندی کا شکار ہو گئی ہیں جس کے بین الاقوامی معیشت پر ہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے اس لئے عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ کو فوری مداخلت کر کے مشرقِ وسطیٰ کی آگ پر پانی ڈالنے اور اصلاحِ احوال کی موثر کوششیں کرنی چاہئیں۔

تازہ ترین