• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ایک اعلیٰ سیاسی خاندان کا فرد ہونے کے باوجود سیاست سے کوسوں دور تھا، مجھ میں ایک درویش روح موجود تھی جو شعروشاعری، آرٹ اور سیاحت کی دلدادہ تھی، پچیس سال کی عمر تک میں آدھی دنیا گھوم چکا تھا، دنیا بھر میں سیاحت کے دوران تیس ہزار سے زائد تصاویر کھینچ چکا تھا جن کا ریکارڈ بھی موجود تھا، پھر کچھ اللہ تعالیٰ کا کرم تھا کچھ والدین کی مہربانی کہ شخصیت بھی ایسی پائی تھی کہ انگریز بھی مجھے انگریز ہی سمجھتے تھے، لمبا قد، گوری رنگت، سنہرے بال، سبز آنکھیں جن کے سبب کئی دفعہ یورپ میں ماڈلنگ کی آفر بھی ہوئی اور کئی دفعہ ان آفرز پر لبیک بھی کہا، غرض زندگی ایسی گزر رہی تھی کہ لوگ جس کی آرزو کیا کرتے لیکن پھر ایک روز والد کا حکم ملا کہ سیاست میں آئوں، علاقے کے لوگوں سے ملوں، سیاست کو سمجھوں، ملک و قوم کی خدمت کروں، لہٰذا پہلی فلائٹ سے پاکستان پہنچا، والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، حکم ملا کہ حکومتی سطع پر فیصلہ ہوا ہے کہ ملک میں اختیارات کو نچلی سطع پر منتقل کیا جانا ہے، بلدیاتی نظام لایا جارہا ہے لہٰذا اگلے چند ماہ میں ہونے والے ناظم کے انتخابات میں مجھے حصہ بھی لینا ہے اور کامیابی بھی حاصل کرنا ہے لہٰذا فوری طور پر کام شروع کروں، اس روز پہلی دفعہ اپنے شہر کا دورہ ایک مقامی شہری اورسیاستداں کی نظر سے کیا، افسوس ہوا، سڑکیں ٹوٹی پڑیں تھیں، گٹر ابل رہے تھے جن پر ڈھکن بھی نہ تھے، سڑکوں کے اطراف درخت سوکھ چکے تھے، پارک نہ ہونے کے برابر تھے جہاں نہ پودے تھے اور نہ ہی پھول، بچوں کیلئے کھیل کے میدان بھی نہ ہونے کے برابر تھے، کوئی پوچھنے والا نہ تھا غرض یہ شہر نہیں بلکہ کھنڈر کا منظر نامہ تھا، پھر سیاسی سرگرمیاں شروع کیں، لوگوں کا تعاون بھی حاصل تھا پھر والد صاحب کا ایک نام بھی تھا، اگلے چند ماہ بھرپور سیاست کی اور پھر الیکشن ہوئے اور پھر اگلے روز میری کامیابی کا اعلان ہوگیا، میں نے بلدیاتی انتخابات میں بھاری اکثریت سے ضلعی ناظم کا انتخاب جیت لیا تھا، اگلے چند روز حلف برداری میں گزرے پھر میں اپنے شہر کو تباہ و برباد کرنے والے مافیا سے باغی ہو چکا تھا اور میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اپنے شہر کو ٹھیک کرکے رہوں گا چاہے اس کیلئے پوری مافیا، انتظامیہ سے دشمنی مول لینا پڑے، میں نے اپنے بلدیاتی افسر کو طلب کیا اور اس سے پوچھا کہ ہمارے ضلعے میں کتنے سرکاری خاکروب ہیں، معلوم ہوا تو چھ سو سے زائد لیکن کام پر پچاس سے ساٹھ ہی آتے ہیں، میں نے تشویش سے پوچھا باقی کہاں ہیں معلوم ہوا سب شہر کی بااثر شخصیات کے گھر پر کام کرتے ہیں اور تنخواہ سرکار سے لیتے ہیں، میں نے حکم دیا اگلے تین دن میں پورے چھ سو خاکروب دفتر میں چاہئے ورنہ سب کی تنخواہیں روک لی جائیں، افسر نے جواب دیا صاحب آتے ہی پورے شہر سے دشمنی نہ لیں لیکن میں بات پر قائم رہا اور اگلے تین دن بعد میرے دفتر کے باہر خاکروبوں کا ایک جم غفیر موجود تھا، چھ سو خاکروبوں کو پورے شہر کی صفائی کا حکم دیا اور روزانہ ان کی چیکنگ کا نظام بنایا اگلے چند دن میں شہر میں صفائی نظر آنے لگی، اگلے روز میں نے سرکاری اکاوئنٹ افسر کو طلب کیا اور معلوم کیا کہ ضلعے کا کتنا فنڈ موجود ہے، حساب کتاب کے بعد معلوم ہوا کہ بیس سے پچیس کروڑ روپے موجود ہیں، میں نے دریافت کیا بینک کیا انٹرسٹ دیتے ہیں کوئی جواب نہ ملا، پھر معلوم کیا تو جواب ملا سر کوئی انٹرسٹ نہیں ملتا، میں نے اسی وقت ایک نجی بینک مینجر کو دفتر طلب کیا اس سے پوچھا کہ اگر آپ کے بینک میں سرکاری کے پچیس کروڑ جمع کرا دیئے جائیں تو سالانہ کتنا نفع دوگے جواب ملا سالانہ ساڑھے تیرہ فیصد، میں نے حکم دیا کہ تمام سرکاری رقم اس نجی بینک میں جمع کرا دی جائے اس طرح ضلع کو پچیس لاکھ روپے ماہانہ اضافی ملنا شروع ہوگئے جس سے علاقے میں ترقیاتی کام تیز ہوگیا، میرے تعلقات تمام سرکاری افسران سے خراب ہونے لگے تھے لیکن مجھے کسی قسم کا ڈر نہ تھا کیوں کہ میں ایک باغی ناظم کے نام سے علاقے میں مشہور ہوچکا تھا، مجھے اپنے ضلعے میں غیرمعیاری گوشت کی سپلائی کی اطلاعات موصول ہورہی تھیں میں نے گوشت کی نگرانی کے انچارج سرکاری افسر کو گوشت کے معیار کو بہتر بنانے کے احکامات جاری کئے لیکن پھر بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی، ایک روز میں نے اپنی ٹیم کے ساتھ گوشت سپلائی سینٹر پر چھاپا مارا اور تمام غیر معیاری گوشت کو تیزاب ڈال کر دریا میں بہادیا، لاکھوں کا گوشت ضائع ہونے کے بعد پھر کبھی غیر معیاری گوشت کے حوالے سے شکایات موصول نہیں ہوئیں، بجٹ کافی تھا لہٰذا خواتین کیلئے الگ میدان تعمیر کرا کر اس میں خواتین کے ضلعی مقابلے کرائے جس میں صرف خواتین کو شرکت کی اجازت تھی اس ایونٹ نے علاقے میں بے پناہ شہرت حاصل کی، سرکاری اسکولوں کی حالت بہتر بنانے پر خصوصی کام کیا، بجٹ کا پیسہ رشوت اور فضول خرچی سے بچا کر اہداف پر خرچ کیا جائے تو کافی ہوتا ہے میری اس کارکردگی کے باعث مجھ پر قاتلانہ حملے بھی ہوئے، کردار کشی بھی کئی گئی، جلوس بھی نکالے گئے، وزیراعلیٰ سے وزیراعظم تک شکایتیں بھی پہنچائی گئیں لیکن میرا شہر، میرا ضلع ایک مثالی علاقہ بن چکا تھا لیکن پھر پاکستان سے ضلعی نظام کا خاتمہ کردیا گیا یقین کریں بلدیاتی نظام پاکستان کے مسائل کا حل ہے اور ایک اچھا ناظم چاہے تو کھنڈر کو شہر بنا سکتا ہے اور ایک نااہل ناظم شہر کو کھنڈر بنا سکتا ہے، فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین