• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتخابات کے بعد، وزیراعظم عمران خان کی اسی رات منعقد کی گئی پریس کانفرنس اور ایک دو دن کے اندر ان کی پارٹی کی طرف سے جاری کیے جانے والے ایجنڈے کو پڑھنے کے بعد سندھ کے عوام میں اس نئی منتخب حکومت کے بارے میں شدید مایوسی پیدا ہوگئی تھی کیونکہ ایجنڈے میں سندھ کا کوئی ذکر نہیں تھا جبکہ پریس کانفرنس میں سندھ کے علاوہ باقی صوبوں میں کئی ترقیاتی وعدے کئے گئے تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے لئے ضرور کچھ وعدے کئے گئے مگر ان پر بھی ابھی تک کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ بات فقط یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ بعد میں سندھ میں گورنر راج لانے کی بھی باتیں ہوئیں۔

یہاں تک کہ پی ٹی آئی کی ایک اہم اتحادی پارٹی نے سندھ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے سلسلے میں ایک بل بھی قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے سرکاری طور پر اس بل کے بارے میں خاموشی رہی لہٰذا سندھ کے اندر یہ رائے کافی مستحکم ہے کہ اس پارٹی نے یہ بل خود وفاق کی موجودہ حکمران پارٹی کے اشارے پر قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے۔ 

اس صورتحال کے مدنظر سندھ کے عوام میں یہ رائے زور پکڑنے لگی کہ شاید پاکستان کے موجودہ حکمران سندھ کے ساتھ بھی وہ سلوک کرنے لگے ہیں جو مشرقی پاکستان سےروا رکھا گیا مگر سندھ میں موجود اس سوچ کو اس وقت بریک لگی جب دسمبر کے آخری ہفتے میں ہونے والے سی سی آئی کے اجلاس میں کئی اہم بین الصوبائی ایشوز پر سندھ اور دیگر چھوٹے صوبوں کے حوالے سے مثبت فیصلے کئے گئے‘ ان فیصلوں کے بارے میں معلومات سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے منگل 24 دسمبر کو منعقد ہونے والے سندھ کابینہ کے اجلاس میں دیں۔ 

وزیر اعلیٰ سندھ نے بتایا کہ انہوں نے سی سی آئی کے اجلاس میں صوبوں میں پانی کی منصفانہ تقسیم کا مسئلہ اٹھایا تھا لہٰذا اٹارنی جنرل کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی ‘ اٹارنی جنرل نے اپنی رپورٹ سندھ کے موقف کے حق میں پیش کی۔ رپورٹ کے مطابق پانی کی تقسیم کے بارے میں ’’تاریخی فارمولا‘‘ غلط ہے۔ 

وزیر اعظم عمران خان نے پانی کی تقسیم کے بارے میں 1991ء والے فارمولے پر عملدرآمد کرنے کے بارے میں سندھ کے موقف سے اتفاق کیا مگر پنجاب نے اعتراض کیا‘ اس کا موقف تھا کہ ’’تاریخی فارمولا‘‘ ترک کرنے سے پنجاب کو 8 فیصد پانی کم ملے گا جس پر وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ کو تو گزشتہ 28 سالوں سے کم پانی مل رہا ہے۔ 

اجلاس کے سارے شرکاء نے اٹارنی جنرل کے موقف کی حمایت کی‘ اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ سندھ نے سندھ کابینہ کو یہ بھی بتایا کہ سی سی آئی کے اجلاس میں انہوں نے چشمہ جہلم لنک کینال پر پاور پلانٹس قائم کرنے کے لئے ارسا کی طرف سے این او سی جاری کرنے والا ایشو بھی اٹھایا اور موقف اختیار کیا کہ پنجاب سی جی لنک کینال پر پاور پلانٹس لگانا چاہتا ہے مگر اس کینال میں فقط 4 ماہ پانی ہوتا ہے بعد میں کیا یہ منصوبہ بند رہے گا اور یہ کینال تب کھلے گا جب چناب اور جہلم میں پانی کی کمی ہوگی؟ 

لہذا اس منصوبے کو ترک کیا جائے‘ اس کے بعد تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور وزیر اعظم نے اس منصوبے کے لئے جاری کئے ہوئے این او سی کو رد کردیا۔ سندھ کے حوالے سے سی سی آئی کے اس اجلاس میں کئے گئے تیسرے اہم فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ نے صوبائی کابینہ کو بتایا کہ سی سی آئی کے اجلاس میں واپڈا چیئرمین کی تقرری کے بارے میں انہوں نے یہ موقف رکھا کہ تقرری ہر صوبے سے روٹیشن پر کی جائے۔

وزیر اعظم عمران خان نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور ہدایات جاری کیں کہ واپڈا ایکٹ میں ترمیم کی جائے جس کے تحت سارے صوبوں سے باری باری واپڈا کا چیئرمین مقرر کیا جائے جبکہ واپڈا کی چیف ایگزیکٹو آفیسر کی پوسٹ کو کیڈر پوسٹ قرار دیا جائے۔ 

سندھ کے وزیر اعلیٰ نے مزید بتایا کہ انہوں نے سی سی آئی کے اجلاس میں تیل اور گیس کے بارے میں آرٹیکل 158پر عملدرآمد کرنے کا مطالبہ کیا اور موقف اختیار کیا کہ جہاں سے گیس اور تیل نکلتا ہے اس تیل اور گیس پر پہلا حق اس علاقے کے عوام کا ہے۔

اس موقف کو بھی تسلیم کیا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سندھ کے توانائی کے محکمے نے ’’متبادل توانائی پالیسی‘‘ پر اعتراض کئے ہیں اس پر وزیر اعظم نے ہدایات جاری کیں کہ کوئی بھی ایشو سی سی آئی میں لانے سے پہلے صوبوں سے بات چیت کرکے ان ایشوز کو یہاں اٹھائیں۔ 

سندھ کے وزیر اعلیٰ کی اس رپورٹ کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اجلاس میں سندھ اور دیگر چھوٹے صوبوں کے حق میں تین اہم فیصلے کئے گئے جس کاکریڈٹ وزیر اعظم کو جاتا ہے مگرچند دنوں کے اندر سینیٹ اور قومی اسمبلی میں گریٹر تھل کینال اور گیس کے ایشوز پر حکومتی وزیروں کے موقف سننے کے بعد سندھ کے اندر احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ سی سی آئی کے فیصلوں کے بارے میں وزیر اعلیٰ سندھ نے کابینہ اجلاس میں جورپورٹ دی ہے کیا پنجاب اور مرکز ان فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں؟ 

مثال کے طور پر جمعرات 26 دسمبر کو سینیٹ کے اجلاس میں سندھ کے ممبران نے پنجاب کی طرف سے گریٹر تھل کینال فیز ٹو تعمیر کرنے کے خلاف احتجاج کیا اور پانی کے وفاقی وزیر اور واپڈا کے چیئرمین پر تنقید کی۔ سندھ سے سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ چیئرمین واپڈا جان بوجھ کر سینیٹ کے اجلاس میں نہیں آتے‘ پانی کے بارے میں سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں پنجاب کے نمائندوں نے اعلان کیا کہ وہ گریٹر تھل کینال فیز ٹو تعمیر کررہے ہیں۔

 یہ بھی بتایا گیا کہ تھل کینال فیز ٹو میں ریٹائرڈ فوجی افسران اور اہلکاروں کو زمینیں الاٹ کی گئی ہیں۔ اس مرحلے پر سینیٹ کے ایک ممبر اسلم انصاری نے سوال کیا کہ تھل کینال فیز ٹو کو پانی کہاں سے دیا جائے گا جبکہ پنجاب ہمیشہ پانی لاسز چھپاتا رہتا ہے۔ اس رپورٹ میں سی جے لنک کینال ’’تاریخی فارمولا‘‘ اور دیگر ایشوز کا ذکربھی کیا گیا ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین