• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلح افواج سے متعلق قوانین میں ترامیم کی منظوری کے حوالے سے پارلیمان کی بڑی پارٹیوں میں ہم آہنگی کی جو مثالی فضا نظر آئی وہ داخلی و خارجی چیلنجوں کے تناظر میں خوش آئند ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ آنے والے وقتوں میں بھی ہماری سیاسی پارٹیاں ملک و قوم کے وسیع تر مفادات مدنظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے تعاون جاری رکھیں گی۔ برسر اقتدار پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی پارٹیاں ہوں، پاکستان پیپلز پارٹی ہو یا پاکستان مسلم لیگ (ن)، ان کے مختلف رہنمائوں کے جو بیانات میڈیا بات چیت اور دیگر ذرائع سے سامنے آئے ان میں یہ سوچ واضح ہے کہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کے تقرر کے لئے صدرِ مملکت کو ایڈوائس دینا وزیراعظم کا خاص اختیار ہے۔ اس باب میں جس قانونی خلا کی نشاندہی آرمی چیف کی میعادِ عہدہ میں توسیع کے حکومتی فیصلے کے وقت سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ایک درخواست کے ذریعے کی گئی اور جسے پارلیمنٹ کی منظوری سے پُر کرنے کے لئے عدالت عظمیٰ کی طرف سے حکومت کو چھ ماہ کا وقت دیا گیا تھا، اس سلسلے میں پارلیمنٹ کی بڑی پارٹیوں نے مذکورہ اصولی سوچ پر قائم رہتے ہوئے اس باب میں تعاون کیا کہ مطلوب قانونی ضرورت جتنی جلد ممکن ہو پوری کرلی جائے۔ مختلف پارٹیوں کے رہنمائوں کی طرف سے آنے والے اشارے واضح کر رہے تھے کہ وہ مسلح افواج کے سربراہوں کے تقرر و توسیع جیسے حساس معاملات اتفاق رائے سے طے کرنے کی ضرورت پورے طور پر محسوس کرتے ہیں۔ معاملے کی حساسیت اور گرد و پیش کے حالات کی سنگینی کے باعث اس معاملے میں قانونی تقاضے جلد پوری کرنے کی ضرورت کو سب ہی نے محسوس کیا۔ منگل کے روز پاکستان آرمی (ترمیمی) بل 2020ء کی بحث کے بغیر کثرتِ رائے سے منظوری کے پس پشت اسی سوچ کی کار فرمائی نظر آئی۔ جمعیت علمائے اسلام (ف)، جماعت اسلامی اور سابق فاٹا کے دو ارکان کے واک آئوٹ کی وجوہ قبل ازیں حکومت سے شکایات کے اظہار کی صورت میں سامنے ا ٓچکی ہیں۔ قومی اسمبلی میں رائے شماری سے پہلے چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے دفاع کی طرف سے پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم اور دیگر ترمیمی قوانین کی منظوری کی رپورٹ دی گئی جبکہ پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی نے اگرچہ مسودہ قانون کو زیادہ بہتر بنانے کیلئے تجاویز دی تھیں تاہم ملک اور خطے کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے مشاورت کے ساتھ فیصلہ کیا ہے کہ ان ترامیم پر زور نہیں دیا جائے گا۔ اسپیکر نے تینوں قوانین کی خواندگیوں اور منظوری کے لئے آواز کے ذریعے ووٹنگ کا طریقہ اختیار کیا۔ ایوان بالا (سینیٹ) میں بھی چیئرمین کی طرف سے مذکورہ ترمیمی قوانین منگل کے روز متعلقہ قائمہ کمیٹی میں بھیجے گئے جہاں سے متفقہ منظوری کے بعد بدھ کے روز سینیٹ کے اجلاس میں ان قوانین کو حتمی طور پر منظور کر لیا گیا۔ صدرِ مملکت کے دستخطوں سے قانون کا درجہ حاصل کرنے والے یہ مسودے 27نومبر 2019ء سے نافذ العمل تصور ہوں گے۔ واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے جاری کردہ آرمی چیف کے عہدے کی میعاد میں توسیع کا نوٹیفکیشن 26نومبر 2019ء کو معطل کیا گیا تھا۔ اب عدالت عظمیٰ کی ہدایات کے مطابق پارلیمنٹ کے ذریعے جو قانون سازی کی گئی اس پر سیاسی قیادتیں مبارکباد کی مستحق ہیں۔ مسلح افواج کے ترمیمی قوانین کی منظوری کے اس موقع کو اگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مسلسل رابطوں اور مشاورت کا نقطہ آغاز بنا لیا جائے تو جمہوریت کا سفر زیادہ سبک بنانا آسان ہو جائے گا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہماری سیاسی قیادتیں اسی جذبے کو قائم رکھتے ہوئے ملکی مفادات کے لئے مل جل کر تیزی سے اگے بڑھیں اور وطن عزیز کو ترقی، استحکام اور خوشحالی کی اعلیٰ منزلوں سے جلد ہمکنار کریں۔

تازہ ترین