• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے 3دنوں سے استنبول میں ہوں، یورپ، ایشیا کا سنگم استنبول، دو حصوں میں تقسیم استنبول، ایک طرف یورپین استنبول، دوسری طرف ایشین استنبول، درمیان میں سمندر، کہا جاتا ہے استنبول کی روح میں یورپ بستا ہے، سچ ہی کہا جاتا ہے، یقین نہیں تو آکر دیکھ لیں.

یہ 1کروڑ 67لاکھ آبادی والا شہر یعنی آبادی کے لحاظ سے استنبول، بلجیم، یونان، آسڑیا، سوئٹرز لینڈ، بلغاریہ سے بھی بڑا، یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک، اس کی دو ہزار سال پرانی تاریخ، آپ کہیں سے بھی استنبول میں داخل ہوں، تاریخ بانہیں پھیلائےکھڑی ملے گی، ترکی کا 27فیصد جی ڈی پی، 40فیصد ٹیکس استنبول سے، ترکی کے 30ارب پتی استنبول میں رہ رہے.

استنبول کو سالانہ ایک کروڑ لوگ دیکھنے آئیں لیکن ایک مسئلہ ہے، ماہرینِ ارضیات استنبول کو خطرناک شہر قرار دے چکے، اُن کا کہنا ہے 17اگست 1999کو جو زلزلہ آیا، جس میں 18ہزار افراد ہلاک، 50ہزار زخمی، 3لاکھ بے گھر ہوئے۔

 خدا نخواستہ ایسا زلزلہ پھر آسکتا ہے مگر استنبول والے اِن ماہرین کی ڈرانے والی رائے سنتے ہی نہیں، سنیں تو توجہ نہیں دیتے، پل بھر کی توجہ دیدیں تو ’’اللّٰہ کریم ہے، جو ہوگا دیکھا جائے گا‘‘ کہہ کر بات بدل دیتے ہیں۔

اچھی اچھی باتوں سے پہلے دوچار فضول نما باتیں سن لیں، 3دن پہلے لاہور سے اسی ملک کی ایئر لائن کے جہاز میں داخل ہوا تو جہاز کی اندرونی حالت دیکھ کر اپنے بچپن دور کی ’ریلو کٹا‘ نما بسیں یاد آگئیں۔

مسافر کو عزت دو اس ایئر لائن کا بیانیہ اور یہ بیانیہ بہت سن رکھا تھا مگر اکانومی کلاس چھوڑیں، بزنس کلاس کی حالت یہ تھی کہ ان کا بیانیہ مجھے تو’ووٹ کو عزت دو‘ والا بیانیہ ہی لگا۔

 ابھی تک یہ سمجھ نہ سکا کہ جہاز پرانا تھا یا ایئر ہوسٹسز، یہ علیحدہ بات کہ بعد میں پتا چلا، ہم جیسے غریب ملکوں میں بڑی ایئر لائنیں اپنے ’ریلو کٹے‘ جہاز بھجوائیں کیونکہ ایک تو ہم اسی قابل، دوسرا ہمیں پی آئی اے کی کمی محسوس نہ ہو، ودھیا قسم کے جہاز یورپ، امریکہ، برطانیہ کے روٹوں کیلئے۔

استنبول ایئر پورٹ پر اُترا تو ایئر پورٹ سنسان کیونکہ سردیاں آ چکیں، ٹورسٹ سیزن ختم، ایئر پورٹ سےنکلا تو ہلکی پھلکی بارش ہو رہی تھی اور اِس وقت بھی بارش ہو رہی ہےمطلب پچھلے 3دن سے بارش ہو رہی، بارش کا ذکر بعد میں، پہلے دوسری فضول نما بات سن لیں، استنبول کے ٹیکسی ڈرائیوں سے اللّٰہ بچائے، من مرضی کے کرائے۔

جس ٹیکسی میں میٹر نہیں لگا ہوا، وہ اتنا کرایہ مانگے کہ اتنا سفر جہاز پر کریں تو سستا پڑے، جس ٹیکسی میں میٹر لگا ہوا، وہ اتنے لمبے رستے سے منزل پر لے جائے کہ جانا آپ کو لاہور ہو تو پہلے پشاور جائے، وہاں سے ملتان اور ملتان سے لاہور پہنچے، تیسری فضول نما بات، بلیو مسجد میں جاکر مایوسی ہوئی۔

1609سے 1616کے درمیان تعمیر ہوئی اِس مسجد کا بہت سن رکھا تھا، مانا 141فٹ لمبے اور 312فٹ چوڑے گنبد، 200کھڑکیوں والی مسجد کے اندر ہاتھ سے بنی ٹائلیں لگی ہوئیں، مانا نقش و نگار، آرائش بھی قابلِ قبول، مانا قرانی آیات کی کیلی گرافی بھی عمدہ مگر جتنا مسجد کے بارے میں سن رکھا تھا، اتنا نظر نہ آیا، یوں کہہ لیں، جتنا کچھ ہے، اِس سے ڈبل مشہوری اس مسجد کی۔

مگر یہ سب فضول نما باتیں تب بے معنی ہوئیں، سب مایوسیاں تب ختم ہوئیں، جب استنبو ل میں 4صحابہ کرامؓ کی آخری آرام گاہوں کی زیارت نصیب ہوئی، پہلی زیارت حضورؐ کے میزبانِ مدینہ اور جانثار ابو ایوب انصاریؓ کے مزار کی، استنبول میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار کے تین حصے، پہلا جامع مزار جس میں مسجد اور مدرسہ۔

دوسرا، ایوب مزار، جس میں مزار مبارک، تیسرا قبرستان ایوب جس میں تب کے اہم اور غیر اہم لوگوں کی قبریں، جامع ایوب حصے کے ایک کمرے میں سبز چادر میں لپٹا وہ عَلم بھی موجود جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ وہ تاریخی عَلم جسے حضرت ابو ایوب انصاریؓ غزوات اور جنگوں میں اٹھایا کرتے تھے۔

ابو ایوب انصاریؓ کو ترکی میں سب ایوبؓ سلطان کے نام سے جانیں، جس علاقے میں مزار اس علاقے کا نام بھی ایوب سلطان، کہا جاتا ہے کہ آپ کو قسطنطنیہ (استنبول) کی فصیل کے سامنے دفن کیا گیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قبر مبارک لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوگی۔

757میں سلطان محمد فاتح نے جب صحابہ کرامؓ کی قبروں کو دریافت کرنے کا عمل شروع کیا تو اس وقت کے جید روحانی بزرگ شیخ شمس الدین نے ایک جگہ کی نشاندہی کی اس جگہ دو ہاتھ زمین کھودی گئی تو ایک پتھر برآمد ہوا جس پر عبرانی زبان میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ لکھا ہوا، یہ پتھر آج بھی ابو ایوب انصاریؓ کے مزار کے باہر ایک دیوار میں لگا ہوا۔

میں برستی بارش، تیز ہوا میں بھیگتا، ٹھٹھرتا ہوا، سنگِ مرمر کی سفید ٹائلوں کا وسیع صحن عبور کرکے مزار شریف کی طرف جانے والی تنگ راہداری میں داخل ہوا، سبز قالین پر پہلا قدم رکھا تو بارش، سردی سب پیچھے رہ گئے۔

 ایک عجیب سا سکون، عجیب سا اطمینان، چند قدم چلا سامنے مزار آگیا، پھر مجھے اتنا یاد ہے کہ میں مزار کی دیوار سے لگ کر بیٹھا تھا، باہر برستی بارش اندر آنسوئوں کی جھڑی، باہر تیز طوفانی ہوائیں، اندر دعائیں، التجائیں، نجانے کیا کیا مانگا، کیا کیا کہا، کیا کیا عرضیاں، درخواستیں، کہاں اٹھا، کہاں بیٹھا، کچھ پتا نہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد جب پہلے عمرے کے وقت پہلی بار خانہ کعبہ پر نظر پڑی تو اسی قسم کی کیفیت تھی، جب پہلی دفعہ روضہ رسول ؐپر دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے تھے تب بھی کیفیت کچھ اسی قسم کی تھی، آج حضورؐ کے میزبان، نبی ؐکے پیارے کے پاس آیا تو جو کیفیت وہ ناقابلِ بیان، ہاں یہ تو بتانا بھول گیا کہ حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار مبارک کے ایک طرف چند نایاب نوادرات کی زیارت بھی ہوئی۔

 جن میں حضورؐ کی داڑھی مبارک کے بال، حضورؐ کے ہاتھ مبارک سے لگائے پودے کے پتے، حضورؐ پر درود بھیجنے اور ان سے ہم کلام ہونے والا پتھر، حضورؐ کی قبر مبارک کی مٹی کا ٹکڑا، یہ سب، یہ گنہگار آنکھیں، یہ کرم، یہ فضل، سب کچھ ناقابلِ یقین، مزار مبارک سے نکلا، تیز بارش، خوفناک آواز والی طوفانی ہوا، اگلی منزل حضرت عمر بن العاصؓ، حضرت سفیان بن عیینہؓ اور حضرت وہب بن عشیرہؓ جیسے صحابہ کرام کی آخری آرام گاہوں کی زیارت تھی ۔ (جاری ہے)

تازہ ترین