• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حیرت اِس بات پر نہیں کہ حکومت اپوزیشن مک مکا ہوگیا۔ حیرت اِس بات پر ہے کہ سارے ڈرامے۔ مفادات کی جنگ، مک مکا کی سیاست کے کھیل میں جس شخصیت کا سب سے اہم کردار تھا وہ مائنس ہوگیا اور بڑے مولانا صاحب کے دھرنے کا ثواب دو بڑی سیاسی جماعتیں اُٹھا رہی ہیں اور اُن کی حکومتی انتقام کے ہاتھوں روتی پیٹتی قیادتیں اِس سارے ماحول میں لُطف اندوز ہو رہی ہیں۔ ضمانتوں کے موسم میں ہوائوں کا رُخ ایسا بدلا کہ عوام بھی حیرتوں میں ڈوبے پڑے ہیں کہ سیاست کے رنگ نرالے، کس پر اعتبار کریں اور کس کو دھوکے باز کہیں۔ رولا پائو، جان چھڑائو، مٹی پائو تے ہنستے جائو سیاست نے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ اب تو انصافیے ہوں یا جیالے اور متوالے سب ہی حکمرانوں اور سیاستدانوں کی چال بازیوں پر ایک دوسرے کا منہ تکتے نظر آرہے ہیں۔ جیالے اور متوالے تو انصافیوں کا مذاق اڑاتے اور کہتے ہیں کہ پہلے ہی کہا تھا خان احتساب کے نام پر ایک بار پھر بڑا یوٹرن لے گا پر تم نہ مانے اور جب خان کے اپنے تک بات پہنچی تو ایک آرڈیننس سے پورا احتسابی نظام ہی اُڑا دیا اور پوچھتے ہیں کہاں گیا تمہارا احتساب؟ کون کرے گا احتساب؟ کون توڑے گا اسٹیٹس کو؟ بس کچھ نہ پوچھئے بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگانے والے اور جمہوریت کے پاٹے خان سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں، مصلحتوں، منافقتوں، مفادات کے غلام یہ لوگ مریخ سے زمین پر اترے ہیں، کوئی ان سے پوچھے گزشتہ 15ماہ میں جو ہنگامہ برپا تھا جو پکڑ دھکڑ جاری تھی اب ایسا کیا ہوا کہ خان چپ کرکے بیٹھ گیا۔ منتوں، ترلوں پر اُتر آیا اور اب مفاہمت، صلح جوئی، جمہوریت میں مل جل کر آگے بڑھنے کی تدبیریں سوجھنے لگی ہیں۔ جب ہم کہتے تھے کہ خان صاحب باز آجائو! نظام چلنے دو، احتساب کے نام پر قوم کا پیسہ، وقت برباد نہ کرو، سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ نہ بنائو، پارلیمنٹ کو مستحکم کرو، کاروبار، صنعتوں کا پہیہ گھومنے دو، بیورو کریسی کو نہ چھیڑو، ایک دوسرے پر اعتماد کرو، سیاست کو ذاتی انتقام نہ بنائو، گڑھے مردے نہ اکھاڑو، میڈیا کو مافیا نہ سمجھو تو آپ ہی غصے پر اُتر آتے تھے اور کہتے تھے میں تبدیلی لانے آیا ہوں۔ مجھے ووٹ ہی انصاف اور احتساب کے نام پر ملے ہیں۔ اور تو اور آپ نے تو براہِ راست عدلیہ کو للکارا اور ایسے ایسے بیانات دیے کہ پورے کا پورا عدالتی نظام ہی فریق بنا ڈالا۔ آپ نے آزاد عدلیہ کے دعوے تو بڑے کئے اور اعلیٰ عدلیہ سے انصاف کی توقعات بھی بہت ظاہر کیں مگر جب توقعات کے برعکس فیصلے آئے تو آپ ہی انصاف کی راہ میں دیوار بن کر کھڑے ہوگئے۔ جو طرزِ سیاست آپ نے اندرونِ ملک اختیار کیا وہی بین الاقوامی سطح پر اپنایا۔ آج ہم پہلے سے زیادہ دنیا کے مرکز نگاہ بھی ہیں اور تنہا بھی۔ کوڑی کوڑی کو محتاج بھی ہیں اور قرض دار بھی، معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، عوام کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ خان صاحب آپ سچ ہی کہتے تھے تبدیلی آنہیں رہی تبدیلی آگئی ہے، کسی اور میں نہیں صرف آپ میں۔ نیا پاکستان تو کیا بنانا تھا آپ نے تو پرانے پاکستان کی بنیادیں بھی ہلا دی ہیں۔ تمام تر سیاسی مک مکا کے باوجود اس عمارت کو آپ آئندہ تین سال تک دوبارہ کھڑا نہیں کر سکتے۔ آپ جتنا مرضی بیوروکریسی، تاجروں اور صنعت کاروں کو دلاسے دیں، آئے روز نت نئے تقرر و تبادلے کریں، اب بھروسہ ٹوٹ چکا ہے۔ نیب ترمیمی آرڈیننس اور آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے مراحل تو سمجھئے بآسانی طے ہوگئے۔ اصل کہانی اب شروع ہونی ہے جب آپ نے 50لاکھ گھر بنانے اور کروڑوں نوکریاں دینی ہیں۔ اصل احتساب تو اب شروع ہوگا؟ توقع یہی کی جارہی ہے کہ اہم قانونی و آئینی مراحل طے ہونے کے بعد آپ ایک بار پھر پوری شدت کے ساتھ اپنے مخالفین پر وار کریں گے۔ ابھی تو حکومتی اتحادیوں نے ہلکی ہلکی ڈھولکی بجانا شروع کی ہے۔ بلاول بھٹو نے وزارتوں اور حکومتی شراکت داری کا جو پتا پھینکا ہے وہ چوکھا رنگ دکھائے گا۔ اب حکومتی اتحادی پہلے سے زیادہ طاقت سے ’’پلی بارگیننگ‘‘ کریں گے۔ اتحادیوں کے مطالبات روز بروز بڑھتے جائینگے اور آپ سیاست کے جال میں پھنستے جائینگے، بس آپ نے گھبرانا نہیں، ڈٹے رہنا ہے۔ تحریک انصاف پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی اندرونی کہانی تو یہی کہتی ہے کہ آپ کی پارٹی کے اندر بھی اب آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ آخر آپ احساس کارڈ کے نام پر کس کس کا منہ بند کریں گے؟ یوٹیلیٹی اسٹورز پر شناختی کارڈ کی شرط پر اشیا کا میسر آنا عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں۔ عوام منتخب نمائندوں کا گریبان پکڑنے کو تیارکھڑے ہیں، وہ اپنے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے ساتھ ساتھ نوکریاں اور روزگار بھی مانگتے ہیں۔ ٹک ٹاک گرلز نے اقتدار کے ایوانوں میں جو دھما چوکڑی مچائی ہے یہ کسی نئے طوفان کا پیش خیمہ تو نہیں؟ اللّٰہ کی لاٹھی بڑی بےآواز ہے۔ دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے والے آج اس کی پکڑ میں ہیں۔ اللّٰہ کی لاٹھی جب حرکت میں آتی ہے تو پتا نہیں چلتا ۔ تکبر کا شکار انسان خوابوں کی دنیا میں رہنے والا کبھی فیض نہیں پا سکتا۔

تازہ ترین