• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایران اور سعودی عرب کی چپقلش پر تو بعد میں بات کرتے ہیں، پہلے جنوبی ایشیا کے دو ممالک پاکستان اور بھارت کی گرما گرمی کا جائزہ لیتے ہیں۔ 5اگست 2019سے شروع ہونے والی یہ تلخی اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ 

وزیراعظم عمران خان نے کشمیر کے انسانی المیے کو دنیا کے سامنے بہترین اسلوب میں بیان کیا ہے، اُن کی ساری باتیں وہی تھیں جو وہ 5اگست سے مختلف فورمز پر پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔ 

عمران خان کی سوچ یا طرزِ حکومت سے ہمیں ایک سو ایک اختلافات ہو سکتے ہیں، اِن تمام حوالوں سے اُن پر شدید ترین تنقید کے جواز سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن ایک چیز تسلیم کرنا پڑے گی کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیراعظم نریندر مودی کی طرح قطعی غیر روایتی آدمی ہیں جو لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی بات ببانگِ دُہل کہہ دینے کا یارا رکھتے ہیں۔

امریکہ میں اُنہوں نے جب یہ کہا تھا کہ ہم نے طالبان اور القاعدہ کے شدت پسندوں کو ٹریننگ دی تھی تو بڑی تنقید ہوئی، حالانکہ کم از کم اس حوالے سے عمران خان پر تنقید بنتی نہیں تھی بلکہ اُن کی توصیف ہونا چاہئے تھی کہ وہ اپنی سابقہ غلطیوں اور بے اعتدالیوں سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ آئندہ کے لیے اُن کا تدارک بھی کرنا چاہتے ہیں۔ 

لوگوں کو عمران خان پر تنقید کرنے سے پہلے افغانستان کی معرکہ آرائی پر مبنی اُس دور کی صورتحال کو ضرور پیشِ نظر رکھنا چاہئے۔ طالبان تو کافی بعد میں آئے اُس وقت ہمارے جو افغان مجاہدین تھے، مولوی یونس خالص، حکمت یار، ربانی، مجددی عبد الرسول سیاف وغیرہ ان سب کے پیچھے کون سی فورس ٹریننگ اور اسلحہ فراہم کر رہی تھی؟ 

بلاشبہ یہ امریکی اسلحہ تھا بالخصوص اسٹنگر میزائل تھے جنہوں نے سوویت یونین کے خلاف مسلح مزاحمت کو اصل کامرانی بخشی تھی۔ دوسری طرف عرب پیسہ اور عرب مجاہدین تھے۔ 

القاعدہ کا بانی اگرچہ عبداللّٰہ عزام تھا لیکن بعد ازاں اصل قیادت و شہرت اسامہ بن لادن کو حاصل ہوئی۔ یہ کوئی غیر نہیں اُن دنوں ہمارے اپنے ہی لوگ تھے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ تمام عرب مجاہدین ہماری آنکھوں کے تارے تھے۔

اُس وقت کے حالات میں یہ کوئی غلط کام اس لیے نہ تھا کہ ہم نے امریکہ اور اپنے سعودی بھائیوں کے ساتھ مل کر یہ طے کر لیا تھا کہ سوویت یونین جیسی جبر کی شیطانی قوت کا مقابلہ کرتے ہوئے اُسے نہ صرف افغانستان سے نکالنا ہے بلکہ اس کو دنیا کے نقشے سے تحلیل کرنا ہے اور ہم الحمدللّٰہ اپنے اس نیک مقصد میں سرخرو ہوئے۔ 

اصل خرابی اس کے بعد پڑی ہے، چاہئے تو یہ تھا کہ جونہی سوویت فورسز افغانستان سے نکل گئیں اور سوویت سپر پاور زخموں سے چور ہو کر بسترِ مرگ سے جا لگی تو ہم اپنے جہادیوں کو بھی قابو میں کرتے۔ اِن جہادیوں کو یا تو اپنی فورسز میں داخل کرتے ہوئے ڈسپلن میں لایا جاتا یا سوویت یونین جیسے کسی نظریۂ جبر پر قائم سسٹم کو توڑنے کا ٹارگٹ دے دیا جاتا۔ 

امریکہ و بھارت جیسی جمہورتیوں اور اوپن سوسائٹیوں کے خلاف جہاد کرنا یا ایسی سوچ رکھنا تو خود کشی کے مترادف تھا۔ 

آج بھلے عمران خان بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ اس امریکی جنگ میں شمولیت اختیار کرنا ہماری بڑی غلطی تھی لیکن اگر وہ تاریخ اور تاریخی حقائق کا وسیع مطالعہ کریں تو ان پر ثابت ہوگا کہ شاید قدرت نے یہ ملک بنایا ہی اس لیے تھا کہ وہ نظریۂ جبر پر استوار سوویت یونین کا خاتمہ کرے۔

اب جب وزیراعظم یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اپنے جہادی افغانستان، ایران، ہندوستان یا کشمیر بھیجے یا بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی کا ہمارے افسران کو علم تھا تو اس میں کون سی بات غلط ہے۔ 

زندہ قومیں اپنے ماضی کا جائزہ لیتے ہوئے خود احتسابی کا مظاہرہ کرتی ہیں تاکہ آنے والے حالات و معاملات میں بہتر پالیسیاں بنائی جا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے اِس تمام تر تلخ تجربے کی غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے کھلے بندوں یہ کہا ہے کہ پاکستان میں جو کوئی بھی کشمیریوں کا ہمدرد ہے وہ کسی بھی صورت بھارت یا کشمیر میں گھسنے کی کوشش نہ کرے ورنہ پاکستان پر دہشت گردی کا وہ شدید ترین الزام آئے گا جس کی قیمت ہمارے کشمیری بھائیوں کو چکانا پڑے گی۔ 

یہ اُن کا پختہ یقین ہی تو ہے جو وہ مودی سرکار کو یہ آفر کر رہے ہیں کہ وہ اپنے ذرائع سے اس امر کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ ہم دہشت گردی کی سوچ سے قطعی نکل چکے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ ملک کے موجودہ ہنگامی حالات میں اپنا ذاتی غصہ جو بھی ہے، تھوک دیں، قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالیں، سب کو اپنے ساتھ لے کر چلیں۔

اپنے میڈیا کو پوری آزادی دیں، کشمیری عوام کے دکھوں کا انہیں جتنا درد ہے اتنا ہی درد وہ اپنے پاکستانی غریب عوام کے لیے محسوس کریں، جن کا اصل مسئلہ غربت، بیروزگاری، ناانصافی، بیماری اور جہالت ہے۔ اتنی ہوشربا مہنگائی میں غریب گزارا کیسے کرے؟ 

آپ اس کا مداوا کریں اور مودی جیسے مخالفین پر یہ ثابت کر دیں کہ ہم اپنے ملک کو بطریقِ احسن آئینی و جمہوری اسلوب میں چلانے اور تمام اکائیوں کو بخوشی ساتھ ملانے اور آگے لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

تازہ ترین