• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بطور قوم ہم خبط عظمت (superiority complex)میں مبتلا ہیں اور صدقِ دل سے سمجھتے ہیں کہ ہم وہ لافانی مخلوق ہیں جس نے ماضی میں ایک سپر پاور کو شکست دی اور وہ دن دور نہیں جب مستقبل میں ایک اور سپر پاور کا غرور خاک میں ملا کر اسے پاش پاش کر دیں گے۔ گاہے بگاہے ہم دلفریب نعرے لگا کر اپنا لہو گرماتے رہتے ہیں چنانچہ اس وقت ہمارے لہو کا درجہ حرارت تھرمامیٹر توڑ کر باہر ابل رہا ہے اور ہماری حالت زکوٹا جن جیسی ہو چکی ہے جو ہر دم یہی کہتا رہتا ہے ”مجھے کام بتاﺅ، میں کیا کروں ،میں کس کو کھاﺅں؟“ کھانے کے لئے ہمارے پاس اور کچھ تو ہے نہیں سو ہم اپنے ہی مسلمان بھائی بہنوں اور ان کے بچوں کو قتل کرکے ان کی بوٹیاں کھا رہے ہیں ۔اس متشدد رویے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سرفہرست وہ تین نظریات ہیں جو پاکستان میں کھڑکی توڑ حد تک مقبول ہیں ۔پہلا ،افغان جنگ میں اسلام نے کفر کو شکست دی ،دوسرا،قومیت صرف مذہب کی بنیاد پر ہوتی ہے لہٰذا تمام کلمہ گو چاہے کسی بھی رنگ ،نسل،علاقے یا زبان سے تعلق رکھتے ہوں ایک قوم ہیں اور تیسرا یہ کہ جو پہلے دو نظریات سے اتفاق نہیں کرتا وہ لا دین اورملک دشمن ہے ۔
پیارے بچو،آئیے باری باری ان نظریات کا جائزہ لیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ افغان جنگ کوجہاد یا اسلام اور کمیونزم کی جنگ کہنا خود فریبی کی انتہا ہے ۔یہ ایسی ہی خودفریبی ہے جیسے کوئی سڑک چھاپ کسی لڑکی پر عاشق ہو جائے اور پھر یہ تصور کر لے کہ لڑکی بھی اسی چھچھورے انداز میں reciprocateکرے گی ۔لیکن ہم چونکہ عالمی قسم کے سڑک چھاپ ہیں اور ہر راہ چلتی جنگ کو محبوبہ سمجھ کر گلے لگا لیتے ہیں اس لئے افغان جنگ میں بھی ہم نے سچ مچ یہ سمجھ لیاکہ ہمارا جہادی عشق کامیاب ہو گیا ہے حالانکہ یہ جنگ اسلام اور کمیونزم کی جنگ تھی ہی نہیں ،یہ کیپیٹل ازم اور کمیونزم کی جنگ تھی جس میں جیت کیپٹل ازم کی ہوئی۔ دلیل نہایت سادہ ہے ،سوویت یونین کمیونزم کا نمائندہ ملک تھا اور امریکہ سرمایہ دارانہ نظام کا سرخیل۔جب سوویت فوجیں افغانستان میں اتریں تو امریکہ نے پاکستان کو جہاد کا سبق پڑھا کر روسیوں کے آگے کر دیا ۔ہمیں بتایا گیا کہ کمیونسٹ لا دین ہوتے ہیں اور تم اسلام کے رکھوالے ہو، ایک لادین قوت تمہارے برادر اسلامی ملک پر حملہ آور ہے لہٰذا تمہارا فرض ہے کہ اس کے خلاف جہاد کرو ۔چنانچہ امریکہ کے پیادے کی حیثیت سے وہ ”جہاد“ ہم نے کیا۔اب فرض کریں اگر پاکستان کی جگہ ہندوستان ہوتا تو کیا امریکہ انہیں بھی پیادے کے طور پر استعمال نہ کرتا؟ یقینااس صورت میں ہندوﺅں کو یہ پٹّی پڑھائی جاتی کہ یہ لادین سرخے تمہارے پرکھوںکے مذہب کے دشمن ہیں، تمہاری پرمپرا کو نہیں مانتے ،لہٰذا شیوا کا جھنڈا اٹھاﺅ اور ان پر پل پڑو ۔کیا وہ” ہندو جہاد“ ہوتا؟
بات سادہ سی ہے کہ افغان جنگ میں ایک بادشاہ نے دوسرے بادشاہ کو شکست دی جبکہ ہم صرف شامل واجے تھے ۔امریکہ اس جنگ کے ذریعے اپنے life, liberty and pursuit to happiness کے نظریات کا دفاع کر رہا تھا اور یہ بات صدر ریگن نے ببانگ دہل کہی تھی۔اب کوئی اس میں مذہب کا جھنڈا گاڑنا چاہتاہے تو یہ بھی سن لے کہ اگر کفر و الحاد کا معرکہ ہی مارنا تھا تو پھر زیادہ موزوں محاذ پڑوسی ملک تھاجہاں مسلمانوں کی آبادی اشتراکیوں کے قبضے میں تھی(ہے) ۔ اوریہ بات بھی کسی لطیفے سے کم نہیںکہ امریکہ، جس کے ہم آج لتّے لیتے ہیں، اس وقت ”افغان جہاد “میںہمارے شانہ بشانہ تھا۔
دوسری تھیوری یہ ہے کہ دنیا میں رنگ ،نسل،علاقے، کلچر یا زبان کی بنیاد پر قوم نہیں بن سکتی ،جب سے نیشن سٹیٹ کا تصور وجود میں آیا ہے مغرب نے دو عظیم جنگوں میں اس بنیاد پر کروڑوں لوگ مار دئیے ہیںجو درندگی کی معراج ہے، قومیت کی بنیاد صرف مذہب ہو سکتی ہے جس کی رو سے دنیا کا ہر کلمہ گو مسلمان ایک قوم کا حصہ ہے۔ اوکے، مان لیتے ہیں ۔لیکن صاحب بات یہ ہے کہ مغرب نے تو دو جنگوں کے بعد سیکھ لیا اور آپس کے معاملات اس قدر خوش اسلوبی سے طے کئے کہ وہ ملک جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ،اب ان کی سرحدیں آپس میں یوں ملی ہوئی ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب دوسرا ملک شروع ہو گیا، کرنسی بھی ایک ہے ۔جب یہ مغربی ممالک نیشنلزم کی بنیاد پر لڑ رہے تھے توان کا نظریہ تھا کہ دوسرے ملک یا قومیت کا بندہ مارنا جائز ہے جبکہ ہمارا تو یہ حال ہے کہ ہم اپنے ہی ملک میں کلمہ گو مسلمانوں کے گلے کاٹ رہے ہیں!اگر مذہب ہی کی بنیاد پر قوم تشکیل دینی ہے تو بسم اللہ دیر کس بات کی مگر حضور آپ کا محبوب ملک افغانستان کلمہ گوہے ،ہمسایہ ہے مگر علیحدہ ملک ہے ،ایران بھی ہمسایہ ہے، مسلمان ہے مگر علیحدہ ملک ہے ،اور تواور ایک برادر مسلم ملک ہمیں بطور کلمہ گو مسلمان شہریت دینے کو تیار نہیں جبکہ کینیڈا جیسا ”کافر“ ملک شیخ الاسلام کو بھی شہریت عنایت کر دیتا ہے ۔ہم تو اپنے ملک میں کلمہ پڑھنے والوں کو مسلمان نہیں مانتے ،پوری امت مسلمہ کو مذہب کی بنیاد پر قوم بنانا توبہت دور کی بات ہے۔اور پھر یہ کہاں لکھا ہے کہ اگر کلچر یا زبان کی بنیاد پر قوم تشکیل پائے گی تو اس میں مذہب کی گنجائش نہیں ہوگی؟
سو پیارے بچو،یہ صرف جذباتی دلائل ہیںکہ مسلمان مسلمان کے خلاف نہیں لڑ سکتا جبکہ ساری دنیا میں مسلمان ایک دوسرے کے خلاف جنگ کر رہے ہیں ،خود اپنے ملک میں مخالف فرقے کے لوگوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ جس معاشرے میں تشدد اور خوں ریزی اس قدر بڑھ جائے وہاں ذرا سی غیر ذمہ دارانہ بات آگ لگا سکتی ہے، ایسے ماحول میں سب سے زیادہ ذمہ داری دانشورو ں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ جذبات کو بھڑکانے کی بجائے دلیل سے بات کریں لیکن مصیبت یہ ہے کہ جب دلیل کمزور ہو تو پھر مخالف نقطہ نظر رکھنے والے کے خلاف افسانے تراش کر لوگوں کو تشدد پر آمادہ کیا جاتا ہے جو کم از کم دانشوروں کے شایان شان نہیں ۔
نظریات کی اس جنگ میں تازہ ترین نشانہ پاکستان کے چوٹی کے صحافی اور دانشور نجم سیٹھی بنے ہیں ۔الزام ان کے خلاف کوئی بھی نہیں سوائے اس کے کہ انہوں نے ماضی میں بلوچستان کی جدوجہد کی عملی حمایت کی اورچونکہ اس جدوجہد کی بنیاد مذہب نہیں تھی لہٰذا گناہ گار ٹھہرے۔ اعتراض کرنے والوں کی منطق تو مجھے سمجھ نہیں آتی البتہ ایک واقعہ ضرور یاد آ گیا ۔مئی 1958میں مسلم اکثریتی ملک الجزائر ،فرانس سے آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا ،اس جنگ نے فرانس کے اندر ایک شدید سیاسی تقسیم پیدا کردی تھی ،کچھ لوگ آزادی دینے کے حق میں تھے اور کچھ مخالف۔الجزائر کی آزادی کے حامیوں میں سب سے بڑا نام ژاں پال سارتر کا تھا۔بیسویں صدی کا یہ عظیم فلسفی فرانسیسی حکومت کی کھلم کھلا مخالفت کر رہا تھا ،ایسے ماحو ل میں جب اس کی گرفتاری کا مطالبہ شدت پکڑ گیا تو فرانس کے صدر ڈی گال نے وہ فقرہ کہا جو تاریخ کا حصہ بن گیا ”میں سارتر کو کیسے گرفتار کر سکتا ہوں،سارتر تو فرانس ہے۔“سو حضور،جو لوگ نجم سیٹھی جیسے دانشوروں کی حب الوطنی پر شک کرتے ہیں ،ان کے لئے بھی فقط اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ ”نجم سیٹھی تو پاکستان ہے ۔“ بات اگر کرنی ہے تو نجم سیٹھی کی طرح دلیل سے کریں ،آپ کا بھی قد اونچا ہوگا۔
تازہ ترین