• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کے حوالے سے ملک اور بیرون ملک ہونے والی بحث سے بیرون ملک مقیم پاکستانی شدید تذبذب کا شکار ہیں۔ اس سلسلے میں بیرون ملک مقیم میرے کئی پاکستانی دوستوں کی مجھے متعدد فون کالز موصول ہوئیں جنہوں نے پاکستان میں دہری شہریت کے معاملے کو متنازع بنانے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی دل آزاری کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ پاکستان میں دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کی حب الوطنی اور ملک سے وفاداری پر شک کیا جارہا ہے جس سے انہیں شدید صدمہ پہنچا ہے۔
امریکہ میں مقیم میرے ایک قریبی دوست نے فون کرکے روندھی آواز میں کہا ”میں گزشتہ کئی عشروں سے امریکہ میں مقیم ہوں، پاکستان میں میرا گھر ہے، میں نے اپنے بچوں کی شادیاں بھی پاکستان میں کیں جبکہ سال میں کئی بار پاکستان جاتا ہوں مگر آج مجھے پہلی بار یہ احساس ہوا ہے کہ میرے مقابلے میں پاکستان میں مقیم پاکستانیوں کے حقوق اور درجات مجھ سے زیادہ ہیں، اگر میں کل پاکستان میں اپنی جائیداد یا کسی اور تنازع کی صورت میں انصاف کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہوں تو میری شنوائی اس بنا پر نہیں ہوگی کہ میں دہری شہریت کا حامل ہوں، کیا میں اس کا یہ مطلب سمجھوں کہ دہری شہریت کے حامل پاکستانی ایک درجے کم کے پاکستانی ہیں؟“
برطانیہ میں مقیم میرے کئی دوستوں کا بھی یہ موقف تھا کہ ”سمندر پار پاکستانیوں اور دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں نے ہمیشہ حب الوطنی کا ثبوت دیا ہے، پاکستان پر جب بھی برا وقت آیا ہم نے کبھی مایوس نہیں کیا، یہ بات درست نہیں کہ ہماری حب الوطنی بٹی ہوئی ہے، دہری شہریت رکھنے کے باوجود ہم اُن ممالک میں جہاں مقیم ہیں وزیر، ممبر پارلیمdنٹ یا لارڈ بن سکتے ہیں اور سیاست میں بھی حصہ لے سکتے ہیں، یہاں کی حکومتوں نے ہم سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ ہم اپنی پاکستانی شہریت سے دستبردار ہو جائیں اور نہ ہی اپنے باشندوں اور ہمارے درمیان کوئی تفریق کی مگر پاکستان میں ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کیوں؟ ان کا کہنا تھا کہ ”آج ہماری حب الوطنی کو مشکوک سمجھنا اور وفاداری پر شک کرنا کہاں کا انصاف ہے؟“
قارئین! پاکستان کا آئین کسی بھی پاکستانی کو دہری شہریت کے حصول کی اجازت دیتا ہے اور پاکستان کے آئین اور قانون کے تحت دہری شہریت رکھنا کوئی جرم نہیں۔ پاکستان کا دنیا کے16ممالک کے ساتھ ”دہری شہریت“ کا معاہدہ ہے جن میں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، فرانس، اٹلی، آئرلینڈ، نیدرلینڈ، سوئٹزرلینڈ، سوئیڈن، آئس لینڈ، بلجیم، آسٹریلیا، مصر، اردن اور شام جیسے ممالک شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 75 لاکھ اوورسیز پاکستانی مختلف ممالک میں مقیم ہیں، ان میں7 سے8 لاکھ افراد دہری شہریت کے حامل ہیں جن کی بڑی تعداد یورپی ممالک، امریکہ اور کینیڈا میں مقیم ہے۔ بیرون ملک مقیم یہ پاکستانی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی جانب سے بھیجا گیا 14ارب ڈالر کا خطیر زرمبادلہ پاکستانی معیشت کیلئے ”خون رواں“ ہے اور ہر سال ان کے بھیجے گئے زرمبادلہ سے بجٹ خسارے کو پورا کیا جاتا ہے، اگر خدانخواستہ یہ ترسیلات زر بند ہو جائے تو پاکستان چند ماہ میں دیوالیہ ہوجائے۔ اسی طرح بیرون ملک مقیم یہی پاکستانی زلزلے اور سیلاب جیسی آفات میں بھی اپنے پاکستانی بھائیوں کی بڑھ چڑھ کر مدد کرتے ہیں۔ بیرون ملک مقیم دہری شہریت کے حامل 8 لاکھ پاکستانیوں میں سے چند نام ایسے ضرور ہوں گے جن کے دہری شہریت کے حصول کے درپردہ سیاسی مقاصد ہوں اور ان شخصیات سے پاکستان کو نقصان پہنچا ہو مگر ان چند مٹھی بھر شخصیات کی وجہ سے دہری شہریت کے حامل تمام پاکستانیوں کی وفاداری پر شک کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ میرے نزدیک ایسے پاکستانی جن کی بیرون ملک جائیدادیں ہیں، ان کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کررہے ہیں اور وہ معمولی بیماری میں بھی بیرون ملک علاج کو ترجیح دیتے ہیں کو بھی 18 کروڑ سے زائد پاکستانیوں کی قسمتوں کے فیصلے کرنے کا حق نہیں ہونا چاہئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان پاکستان میں رہنے والے افراد نے پہنچایا نہ کہ پاکستان سے باہر رہنے والے پاکستانیوں نے۔
ہر آنے والی حکومت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی اہمیت کو تسلیم تو ضرور کرتی ہے مگر افسوس کہ آج سے قبل یہ پاکستانی ووٹ ڈالنے کے حق سے بھی محروم تھے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں، جن میں دہری شہریت کے حامل پاکستانی بھی شامل ہیں، کے ووٹ ڈالنے کے حق کا نوٹس لیا۔ چیف جسٹس کا یہ بیان خوش آئند ہے کہ ”بیرون ملک مقیم 75 لاکھ پاکستانیوں کے بغیر الیکشن کیسے شفاف اور منصفانہ ہو سکتے ہیں“۔ امید کی جارہی ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی آنے والے انتخابات میں پہلی بار اپنے ووٹ کا آئینی حق استعمال کرکے اور قومی دھارے کا حصہ بن کر اپنی پسند کے نمائندوں کو منتخب کرسکیں گے جو ایک مثبت قدم ہے۔
دہری شہریت کے معاملے پر ملک میں ہونے والی بحث نے وطن میں مقیم پاکستانیوں اور وطن سے دور رہنے والے پاکستانیوں کے درمیان تفریق پیدا کر دی ہے۔ کسی بھی شخص کیلئے جس ملک میں وہ پیدا ہوا ہو اس ملک کی مٹی بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، وہ ملک کی اقتصادی صورتحال اور اپنے بہتر مستقبل کی خاطر وطن کی مٹی چھوڑ کر کہیں اور ہجرت تو کرسکتا ہے مگر جس ملک میں وہ پیدا ہوتا ہے اس ملک سے اس کا رشتہ اور وفاداری کبھی ختم نہیں ہوتی۔ آج یہ کالم تحریر کرتے ہوئے بیرون ملک مقیم میرے ایک قریبی دوست کے یہ الفاظ میرے ذہن میں شدت سے گونج رہے ہیں کہ ”ہم نے ہمیشہ اپنے آپ کو پہلے پاکستانی اور بعد میں کچھ اور سمجھا، ہم پاکستان سے باہر مقیم ضرور ہیں لیکن ہمارے دل پاکستان کیلئے دھڑکتے ہیں، برطانیہ میں کئی عشروں سے مقیم رہنے اور برطانوی شہریت حاصل کرنے کے باوجود ہمیں یہاں ”پاکی“ کا لقب دیا جاتا ہے، ہماری وفاداری پر شک کیا جاتا ہے اور ہمارے ساتھ توہین آمیز سلوک روا رکھا جاتا ہے، وطن سے محبت کی خاطر ہمیں یہ سب کچھ گوارہ تھا مگر آج انہی باتوں کے طعنے ہمیں اپنے وطن سے بھی مل رہے ہیں، دہری شہریت کے باعث ہماری حب الوطنی پر شک کرنا جائز نہیں، اگر ہمارا بھیجا ہوا پیسہ وفادار ہے تو ہماری وفاداری پر کیوں شک کیا جارہا ہے؟ کیا دہری شہریت کے حصول کے بعد پاکستانی ہونے کا حق ختم ہوجاتا ہے؟ یہ سوچ درست نہیں کہ دہری شہریت کے باعث کسی پاکستانی کی وفاداری منقسم ہو سکتی ہے اور اس بنا پر کسی کی حب الوطنی کو مشکوک سمجھنا بھی کسی طرح جائز نہیں“۔
تازہ ترین