• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ ایران کشیدگی سے کرۂ ارض، بالخصوص مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے امن کو لاحق سنگین خطرات کے تناظر میں پاکستان کا خطے میں کسی تنازع کا حصہ نہ بننے اور امن کا شراکت دار بننے کا اعلان ملکی بقا و سلامتی کا تقاضا بھی ہے اور عالمی امن کے مفاد کی ضرورت بھی۔ وزیراعظم عمران خان نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مختلف دارالحکومتوں کا دورہ کرنے اور اہم ملکوں سے حکومتی و عسکری سطحوں پر روابط کی جو ہدایات دیں وہ مذکورہ حکمت عملی کا حصہ کہی جا سکتی ہیں۔ وزیراعظم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بیان اور عمان کے وزیر مذہبی امور شیخ عبداللہ سے ملاقات کے دوران گفتگو میں جو باتیں کہیں ان کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ ماضی میں علاقائی تنازعات میں پاکستان نے بہت نقصان اٹھایا ہے لہٰذا وہ اب خطے میں کسی تنازع کا حصہ نہیں بنے گا۔ انہوں نے ’’جنگ کسی کے مفاد میں نہیں‘‘ کے اپنے نظریے کے ساتھ یہ پیشکش بھی دہرائی کہ پاکستان امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ ماضی کے اہم ممالک کی خواہش اور اسلام آباد کی ایران و واشنگٹن کے علاوہ تہران و ریاض کے درمیان مصالحت کی کوششوں کو سامنے رکھا جائے تو وزیراعظم کی اس پیشکش کے جذبے کو سمجھا جاسکتا ہے۔ اس باب میں بدھ کے روز چینی سفیر یائو جنگ اور ایرانی سفیر سید محمد علی حسینی کی جی ایچ کیو میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے الگ الگ ملاقاتوں کو دیکھا جائے، امریکی وزیر دفاع مارک ٹی ایسپر کے پاکستانی سپہ سالار سے ٹیلیفون رابطے پر غور کیا جائے تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی تشویش کی بات ضرور ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ واشنگٹن علاقے میں تنازع نہیں چاہتا لیکن ضرورت پڑی تو پوری طاقت سے جواب دے گا جبکہ پاکستانی سپہ سالار نے خطے میں کشیدگی کم کرنے کی ضرورت اجاگر کرتے ہوئے متعلقہ فریقوں پر زور دیا کہ جذباتی فیصلوں کے بجائے سفارتی طریق کار اپنایا جائے۔ عراق کے دارالحکومت میں 6جنوری کو امریکی ڈرون حملے کے ذریعے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے واقعے کے ردعمل کے طور پر 8جنوری کو عراق میں امریکیوں کے زیر استعمال فوجی اڈوں عین الاسد، اربیل اور تاجی پر ایران کی طرف سے درجنوں میزائل داغے جانے اور اس کے فوراً بعد امریکی صدر کی طرف سے ایران پر اقتصادی پابندیاں لگانے کے اعلان سمیت ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر کے دیگر مندرجات کو سامنے رکھا جائے یا ایران سے آنے والی آوازوں پر غور کیا جائے تو صورتحال کی نزاکت واضح ہونے کے ساتھ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ فریقین کشیدگی کم کرنے اور امن کو موقع دینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ایک طرف ایرانی ذرائع امریکی اڈوں پر میزائل حملوں میں 80ہلاکتوں کے ساتھ امریکی ہیلی کاپٹروں سمیت فوجی ساز و سامان کی تباہی کا دعویٰ کر رہے ہیں اور وزیر خارجہ جواد ظریف یہ اعلان کر رہے ہیں کہ مزید کارروائی کی ضرورت نہیں۔ دوسری جانب صدر ٹرمپ احتیاطی تدابیر کے باعث امریکی و عراقی جانی نقصانات نہ ہونے کی بات کرتے ہوئے ایران پر عائد نئی پابندیاں تہران کے طرزِ عمل میں تبدیلی آنے تک برقرار رکھنے کا اعلان کریں تو موجودہ مرحلے پر جنگ کی ہولناکیوں سے بچنے کی خواہش کا احساس ضرور ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے امن پسند حلقوں کو اس باب میں اپنا اپنا مثبت کردار ضرور ادا کرنا چاہئے کیونکہ دوسری صورت میں منفی کیفیات کے غالب آنے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان جب جنگ کے بجائے امن میں شراکت کی بات کرتے ہیں تو وہ دنیا پر واضح کرتے ہیں کہ ہم افغانستان کے بعد اپنے قرب و جوار میں کسی اور جنگ کے شعلے دیکھنا نہیں چاہتے۔

تازہ ترین