• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر عہد میں عوام کی آنکھوں میں سہانے خواب ہوتے ہیں، حکمرانوں کی ساحری بھی اور دِل رُبا کہانیوں کی سرسراہٹ بھی۔ ہم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں، اِس میں جو کہانیاں گردش کر رہی ہیں، وہ زیادہ تر فریب کے طلسم میں لپٹی ہوئی اور ذہنی پستی کی پیداوار ہیں۔ 3؍جنوری کے بطن سے جس واقعے نے جنم لیا اور اِس کے گرد جس عجیب و غریب کہانی کا حصار کھینچا گیا، اُس نے اذہان پر زلزلہ طاری کر دیا ہے۔ مغربی تہذیب کے امام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حکم صادر کیا کہ ایرانی میجر جنرل قاسم سلیمانی کو ڈرون حملے میں موت کی نیند سلا دیا جائے جو عراق میں امریکی فوجیوں پر حملہ آور ہونے والا ہے، چنانچہ قطر میں امریکی اڈے سے ڈرون اُڑا اور اُس نے بین الاقوامی قانون اور عراق کی خود مختاری کو پامال کرتے ہوئے جنرل قاسم اور اُن کے ساتھیوں کے بغداد ایئر پورٹ کے قریب پرخچے اُڑا دیے۔ وہ گزشتہ بیس برسوں سے پاسدارانِ انقلاب کی القدس فورس کی کمان کرتے رہے تھے۔ اِسلامی کاز کے لیے بڑے بڑے کارنامے سر انجام دینے پر اُنہیں ایران کے روحانی پیشوا حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ’زندہ شہید‘ کا لقب عطا کیا تھا۔ وہ مختلف محاذوں پر امریکہ اور اسرائیل کے خلاف بڑی استقامت سے ڈٹے ہوئے تھے اور عرب و عجم کے مابین پل تعمیر کرنے کے لیے کوشاں تھے۔

بغداد سے اُن کی میت ایران کے ایک بڑے شہر اہواز میں لائی گئی جو عربوں کا شہر کہلاتا ہے اور یہاں حکومت کے خلاف مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔ فلسطین کاز کے ہیرو کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے پورا شہر اُمڈ آیا۔ پھر تہران میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ اُن کی آنکھوں سے آنسو چھلک رہے تھے اور پچیس تیس لاکھ کے لگ بھگ مرد و زن حزن و ملال کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ جناب آیت اللہ خمینی کے بعد یہ تہران کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ شہید کی بیٹی زینب نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے خلاف ہماری مزاحمت کی تحریک میں ایک نیا عزم پیدا ہوا ہے اور ہم اِسے ہر قیمت پر کامیابی سے ہمکنار کرکے دم لیں گے۔ امریکہ نے ایران کے 52مقامات کی تباہی اور عراق کے خلاف ناقابلِ برداشت پابندیاں لگانے کی جو خوفناک دھمکیاں دی ہیں، اُنہوں نے پوری عالمی برادری میں شدید اشتعال پیدا کر دیا ہے اور عراقی وزیرِاعظم نے اپنی پارلیمنٹ سے امریکی فوجوں کے فوری انخلا کی قرارداد بھی منظور کرا لی ہے۔

امریکی صدر اور اِس کے حواریوں نے القدس فورس کے کمانڈر جنرل سلیمانی کو ایک دہشت گرد کے روپ میں پیش کرنے کے لیے پروپیگنڈا مہم بہت پہلے سے شروع کر دی تھی اور یہ تاثر دیا تھا کہ اِس کے ہاتھوں پانچ سو سے زائد امریکی مارے جا چکے ہیں۔ اہلِ پاکستان کو اُس سے برگشتہ کرنے کے لیے یہ بےسرو پا باتیں پھیلائی گئیں کہ وہ پاکستان کا بہت بڑا دشمن اور اہلِ سنت مسلک کا شدید مخالف ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ قاسم سلیمانی نے کمانڈو ٹریننگ پاکستان میں لی تھی اور جنرل اسلم بیگ سے رسم و راہ بھی قائم تھے۔ سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ایران نے پاکستان کی نوزائیدہ ریاست کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا۔ اِس کے علاوہ فلسطین کی آزادی کے لیے دو تنظیمیں اخوان المسلمون کے خطوط پر کام کر رہی ہیں: حماس اور مجاہدین ِ آزادیٔ فلسطین۔ اِن کو ایران کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔ گزشتہ سال جب نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے لیے عملی قدم اُٹھایا تو وہ ترکی اور ملائیشیا کے ہمراہ پاکستان کے ساتھ ایک مضبوط چٹان کی طرح کھڑا تھا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ علاقائی اور عالمی معاملات میں ایرانی قیادت مسلک سے بالاتر ہوکر اصولوں کا ساتھ دیتی اور عملی جدوجہد میں حصہ لیتی ہے۔

صدر ٹرمپ نے دنیا کو یہ تاثر دینے کی احمقانہ کوشش کی ہے کہ اُنہوں نے امریکی فوجیوں کو ایک بڑے خطرے سے محفوظ رکھنے کے لیے پیشگی اقدام کیا ہے جس کی اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں اجازت دی گئی ہے۔ اِس غلط بیانی کا پردہ عراقی وزیرِاعظم نے یہ کہہ کر چاک کر دیا کہ جنرل سلیمانی سعودی عرب سے ایک اہم پیغام لے کر آ رہے تھے۔ دراصل بغداد میں امریکی سفارت خانے کے باہر عوام کے مسلسل مظاہروں کے بعد صدر ٹرمپ نے عراقی وزیرِاعظم سے درخواست کی تھی کہ اِس ہنگامہ آرائی کے خاتمے کے لیے ایران اور سعودی عرب سے بات چیت کی جائے، چنانچہ اُنہوں نے یہ کام جنرل سلیمانی کو تفویض کیا جو سعودی عرب کے اہم رہنماؤں سے رابطہ قائم کرکے اُن کی طرف سے اہم پیغام لے کر بغداد آ رہے تھے اور اُسی روز وزیرِاعظم سے ملاقات طے تھی، مگر امریکی صدر کی طرف سے ڈرون حملے نے سارا نقشہ ہی تبدیل کر ڈالا۔ اصل کہانی خیر سگالی کو فروغ دینے اور شرقِ اوسط میں امن قائم کرنے کی تھی جسے امریکی صدر نے تیسری عالمی جنگ کے آغاز کا شاخسانہ بنا دیا ہے۔ اِس تاریخی تناظر میں ظالم اور مظلوم کو صبر کی تلقین بے موقع اور مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے۔ پاکستان کو جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی صدر کے انتہائی وحشیانہ اقدام کی مذمت اور ایران کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا چاہئے۔ اِس وقت سب سے اہم ضرورت امریکہ میں ایک ایسی فضا پیدا کرنے کی ہے جس میں صدر ٹرمپ کے لیے ایران اور عراق کے خلاف طاقت کا استعمال تقریباً ناممکن ہو جائے۔

امریکی کانگریس کی اسپیکر، صدر کے اختیارات کم کرنے کی خاطر بہت متحرک ہیں، اُنہیں مختلف ملکوں کی سرگرم لابیز بہت طاقت فراہم کر سکتی ہیں۔ اِسی طرح یورپی یونین کے ممالک انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ چین، روس، انڈونیشیا، ملائیشیا، ترکی، شمالی کوریا امریکی فوج کو اہم خِطوں سے نکل جانے پر مجبور کر دیں گے۔ تب ایران بھی جنرل سلیمانی کا انتقام لینے میں ایک حد سے آگے نہیں جائے گا۔ اگرچہ اُس نے عراق میں تین عدد امریکی اڈوں پر حملہ کر دیا ہے۔ پاکستان اصولوں اور اس کی علم بردار طاقتوں کا ساتھ دے کر تیسری جنگِ عظیم کے خطرات میں بہت کمی لا سکتا اور بہت بڑی اقتصادی اور سیاسی آزمائش سے بچ سکتا ہے۔

تازہ ترین