• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی سے اُتری تو کانوں میں چاروں طرف سے آواز آئی ’’دھول دھپا اس سراپا… کا شیوہ نہ تھا‘‘۔ خالی جگہ اس لئے چھوڑی کہ اسے ’’سراپا ناز‘‘ نہیں کہہ سکتے جو کہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر آپے سے باہر ہوا جاتا ہے مگر کس کے سامنے، جو قندیل بلوچ ہو کہ ٹک ٹاک فیم خاتون، ہر ایک ایسے شخص کا انٹرویو کرتا ہے جسے مقابلہ حماقت میں اول آنے کا شوق ہو۔ ویسے تو ہمارے میڈیا میں جو جتنی زیادہ بے پر کی اُڑائے اور خود کو تہذیب یافتہ کہلانے کیلئے تھوڑی سے انگریزی کا پیوند بھی لگا دے، وہ طُرم خاں بن جاتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک جبہ اور عمامہ بدن پر سجائے، خاتون کے بولنے پہ اتنے معترض ہوئے تھے کہ ایک طرف سے اٹھ کر دوسری طرف سے آکر، اس سے پہلے کہ وہ خاتون کو کچھ کہتے، دوسرے شریک محفل نے، آگے آکر خاتون کو بچا لیا تھا۔ویسے تو اس سال کا آغاز ہی نفرتوں کی زنبیل کھولتے ہوئے بوڑھے ریچھ نے کیا ہے، اس کو اپنے خلاف اپنے ہی ملک میں قرارداد سے توجہ ہٹانے کا دھڑکا لگا ہوا ہے۔ ویسے بھی وہ پل میں تولہ، پل میں ماشہ ہوتا ہے۔ کبھی ایران پہ پابندیاں لگانے کی بات کرتا ہے تو دوسرے پل ایران سے بات چیت کی خواہش کرتا ہے پھر عراق پر حملے کی تیاری پکڑتا ہے، بے چارے غریب عوام چاہے یمن ہو کہ عراق، اِن خود ساختہ آمروں کیلئے کھیت ہو جاتے ہیں۔

کراچی ہو کے آئی تو احوال واقعی یوں ہے کہ لوگ 11بجے سے پہلے رات کو شادی میں شامل نہیں ہوتے اور رات ڈھائی بجے یہ نشست تمام ہوتی ہے۔ اچھا یہ بھی لگا کہ رات کے بارہ ایک بجے بھی لوگ سڑکوں پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ تیس سال پرانا کراچی یاد آگیا مگر پیسے اور وقت کے زیاں کی کوئی حد ہوتی ہے۔ سنا ہے پچھلے دنوں، پنجاب کی طرح، کراچی میں بھی گیارہ بجے شادی ہال بند کرنے اور کھانے میں ون ڈش کی سفارش کی گئی تھی۔ یہ بھی سفارش باقی قوانین کی طرح بونے کی جدوجہد دکھا رہی ہے۔ بزنس مین تو دکان اور مارکیٹ بارہ بجے دن کو کھولتے اور بارہ بجے رات کو بند کرتے ہیں مگر وہ مظلوم جو سرکاری دفتروں کو جاتے ہیں وہ اِس اندازِ زندگی سے کیسے نبرد آزما ہوں یہ غور طلب بات ہے۔ توقع ہے کہ سندھ کے علاوہ اسلام آباد میں بھی یہی پابندی جاری ہو جائے تو کم از کم غریب کی ستر پوشی قائم رہ سکے۔ یہ الگ بات کہ جب سے پنجاب میں ون ڈش کی پابندی ہوئی ہے، ہوٹل والوں نے ڈائننگ روم چارجز الگ وصول کرنا شروع کر دیے ہیں۔ ہال والے پورے ساڑھے نو بجے کھانا لگاتے، پونے دس بجے لائٹس بند کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ لوگ بھاگم دوڑ میں ادھ بچتا کھانا جلدی جلدی کھا لیتے ہیں۔

کہنے کو تو شادی سادگی سے ہوئی مگر وہ جو اوپر کے لوازمات جس میں کپڑوں کا لین دین بھی شامل تھا، اپنے عروج پر تھا۔ ہم اپنی دوست نور جہاں بلگرامی سے شکوہ کیسے کریں کہ وہ مع سیلز ٹیکس، سونے کے تول لباس فروخت کرتی ہیں۔ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ اتنی ساری بوتیک کچھ نوکری پیشہ اور کارکن عورتوں کیلئے بھی، اوسط درجے کا مال بنائیں کہ سب کی عزت رہ جائے۔ میں نے دو سال سے ساڑھی پہننا چھوڑ دی ہے مگر شادی پر ساڑھیوں کی بہار اچھی لگی کہ یہ تو ہماری اماں کا پہناوا تھا۔ اب ہم جیسی وہ خواتین جو فربہ ہو گئی ہیں، ان کے پاس چارہ نہیں کہ روز روز بلائوز کا سائز بدلیں اور ساڑھیاں پہنیں۔کراچی پریس کلب نہ جائو اور کراچی میں ہو، یہ قبول نہیں ہوتا۔ وہاں فاضل اور وسعت کے علاوہ باقی دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ ہر سمت یہ رولا تھا کہ ایک طرف حکومتی ادارے، پتھارے اور ریڑھیاں اٹھا رہے ہیں۔ہر چند یہ واقعہ ہے کہ سڑک کے دونوں جانب اتنے ریڑھے کھڑے ہوتے ہیں کہ دو گاڑیاں تو گزر ہی نہیں سکتیں مگر یہ بھی واقعہ ہے کہ سرکار ان کو کوئی متبادل جگہ دے کہ وہ اپنی روکھی سوکھی بال بچوں کے ساتھ کھا سکیں۔

اسلام آباد واپس آکر پتا چلا کہ جن بادلوں کو آسمان پر چھوڑ کر گئی تھی، وہ ابھی تک کبھی برستے ہیں اور کبھی سچ پوچھیں تو اسلام آباد کی سڑکوں اور گاڑیوں پر پھوار کی طرح مسلسل قائم ہیں۔ جب پوچھو محکمہ والوں سے تو بتاتے ہیں کہ یہ سائیکل کبھی مشرق سے آرہا ہے، کبھی مغرب سے، ہمارے کسان محض ’’سلام کسان‘‘ کے نعرے سے تو بہلنے والے نہیں، انہیں تو فصلیں اگانے کے مہینوں اور طریقوں کو بھی بدلنا پڑے گا۔ سورج کب تک نقاب اوڑھے رہے گا اور کب تک دھوپ فصلوں کو نہ پکنے دے گی۔ یہ سارے راز، محکمہ موسمیات کو کھولنے اور کسانوں کو سمجھانا پڑیں گے۔ ابھی شاید رازوں کو کھولنے کا موسم نہیں آیا ورنہ جہاں ہم ادویات کیلئے بھارت کے ساتھ تجارت کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ وہیں ہم ڈاک پر سے بھی پابندیاں اٹھا لیتے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سفر کی سہولتیں کم از کم ان لوگوں کے خاندانوں کو حاصل ہوتیں جو کشمیر، بھارت اور پاکستان میں تقسیم ہیں۔ بھارت تو دوسری جنگِ عظیم میں جو ہٹلر تھا، وہی بنا ہوا ہے۔ اردو سے کیوں اتنا بیر ہے۔ آپ کی ساری فلموں میں اردو ہی تو بولی جاتی ہے جسے ہندوستان والے اور خاص کر جاوید اختر ہندوستانی کہتے ہیں۔ شبانہ اور جاوید اختر کو اللہ میاں اپنی پناہ میں رکھے کہ ہندوستان تو آشوب میں مبتلا ہے۔ یکے بعد دیگرے، ایسے قوانین آرہے ہیں کہ سارا معاشرہ، تلپٹ ہوتا نظر آرہا ہے۔ کوئی پوچھے کہ ہندوستان کی گنگا جمنا تہذیب، دکن اور بھوپال کی تہذیب اور الٰہ آباد کے امرودوں کو لوگوں کے دلوں سے کیسے نکال سکتے ہو۔ تہذیبیں غیظ و غضب سے مرا نہیں کرتی ہیں۔ جامع مسجد کے نیچے، دلی میں فروخت ہونے والی مہا بھارت اور بہشتی زیور دونوں، اردو میں فروخت ہوتی ہیں۔ غالبؔ ہو کہ فیضؔ ان کا کلام ہندوی میں مقبول ہے۔ صدیوں پرانی تہذیبیں۔ سات سو سال ہونے کو آئے، مگر اسپین میں ساری قوم قیلولہ کرتی ہے۔ تہذیب کا خمیر مٹی میں ہوتا ہے۔ کاش ہم دونوں ملک سمجھ سکیں۔

تازہ ترین