• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روزنامہ جنگ میرے لئے اور میں روزنامہ جنگ کے لئے اجنبی نہیں۔1990ءکی دہائی میں ابھی کالموں کی گرم بازاری کے دور کا آغاز نہیں ہوا تھا، تب میں چار برس تک طائف، سعودی عرب سے روزنامہ جنگ کو کالم ارسال کرتا رہا جو بالعموم روز شائع ہوتا تھا پھر غالباً1997ءمیں حکومت وقت نے جنگ کے کاغذی کوٹے پر پابندی لگا دی تو اخبار محض پانچ چھ صفحات تک محدود ہو کر رہ گیا، یوں روزنامہ جنگ میں میرے کالموں کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔آج سے جنگ میں اپنی کالم نگاری کے نئے دور کا آغاز کرتے ہوئے میرا ارادہ تھا کہ میں تکمیل آرزو کا تذکرہ کروں گا مگر مجھے ابتدا شکست آرزو کی خونچکاں داستان سے کرنا پڑ رہی ہے۔ میری خواہش تھی کہ میں اُن خوابوں کا ذکر کروں گا جو ہم سب کی پلکوں میں آویزاں ہیں مگر مجھے بات ایک خوابِ پریشان سے شروع کرنا پڑ رہی ہے۔ آج سے بیالیس برس پہلے وہ خواب بکھر گیا تھا اور پریشان ہو گیا تھا جو خواب علامہ اقبالؒ اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے دیکھا تھا۔ 1971ءمیں سیاست دانوں کی کم نظری اور فوجی حکومت کی نااہلیت وکوتاہ اندیشی سے مشرقی پاکستان میں بھارت اور کئی دوسری عالمی طاقتوں کو سازشوں کا جال پھیلانے کا موقع مل گیا۔ بھارت نے مشرقی پاکستان پر براہ راست فوج کشی کرکے ہمارا مشرقی بازو ہم سے کاٹ کر الگ کر دیا ۔یوں ہمیں سقوطِ ڈھاکہ کے دلخراش المیے اور صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ بھارتی حملے سے پہلے اور حملے کے دوران متحدہ پاکستان کے دفاع کے لئے اس وقت کی پاکستانی حکومت کا جن محب وطن قوتوں نے ساتھ دیا اُن میں جماعت اسلامی پیش پیش تھی ۔
مگر جب مغربی پاکستان نے بنگلہ دیشن تسلیم کر کے مشرقی پاکستان کے خاتمے پر مہرتصدیق ثبت کر دی تو متحدہ پاکستان کی آخری حکومت کا ساتھ دینے کی پاداش میں بنگلہ دیش نے محب وطن پاکستانیوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے تاہم مشرقی پاکستان کی جماعت اسلامی نے بڑی حکمت و دانش کے تحت نئے حالات میں اپنی دینی وسیاسی سرگرمیوں کے لئے راستہ بنا لیا۔ شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی حسینہ واجد نے جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر جنرل ارشاد کی آمریت کے خلاف زبردست تحریک چلائی اور جمہوریت کے لئے راستہ ہموار کیا۔ اب 42برس بعد ایک نام نہاد ٹریبونل قائم کرکے بنگلہ دیش کی موجودہ وزیراعظم حسینہ واجد نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے نائب امیر مولانا دلاور حسین سعیدی کو پھانسی کی سزا دلوائی تو کسی کال کے بغیر سارا بنگلہ دیش سراپا احتجاج بن گیا۔ مختلف شہروں میں لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے ٹریبونل کے اس ظالمانہ اور غیر عادلانہ فیصلے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے آگ کو بھڑکانے کے لئے احتجاجی جلوسوں پر جگہ جگہ گولیاں چلائیں اور اس وقت تک ستّر سے زیادہ اپنے ہی شہریوں کو شہید کر دیا ہے۔ مولانا دلاور حسین سعیدی بنگلہ دیش کی ایک نہایت ہی مقبول دینی شخصیت ہیں۔ وہ اعلیٰ پائے کے مفسر قرآن ہیں، ان کے درس قرآن میں لوگ ہزاروں کی تعداد میں شرکت کرتے تھے اور ٹیلی وژن پر بھی اُن کے دینی پروگرام بہت مقبول تھے۔ دلاور حسین سعیدی پر1971ءکے حالات کے حوالے سے قتل اور ریپ جیسے سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ جس جگہ کے واقعات کو بنیاد بنا کر یہ الزام لگائے گئے ہیں وہاں مولانا اس وقت موجود ہی نہ تھے۔ عدالت میں جو 9گواہ پیش کئے گئے اُن میں سے کوئی ایک بھی عینی شاہد نہیں سب نے سنی سنائی باتوں کا تذکرہ کیا۔ ٹریبونل نے ایک مضحکہ خیز الزام یہ بھی سنایا کہ مولانا سعیدی چونکہ بہت اچھی اردو جانتے ہیں اس لئے اُن کا اس وقت کی پاکستانی فوج کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ اس سے پہلے جنوری میں مولانا ابوالکلام آزاد کو بھی سزائے موت سنائی گئی ۔مولانا پر بھی ایسے ہی جھوٹے الزامات عائد کئے گئے تھے مولانا ابوالکلام آزاد بنگلہ دیش کے مختلف ٹی وی چینلوں کے دینی پروگراموں کے حوالے سے بہت مقبول ہیں۔ وہ دینی معلومات کے ساتھ ساتھ لوگوں کی حصولِ روزگار، صحت عامہ، سماجی ضروریات، تعلیمی ترقی اور خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے رہنمائی کرتے تھے اسی لئے وہ لوگوں میں بہت محبوب ہیں۔
سوال یہ ہے کہ حسینہ واجد کو آج 42برس بعد گڑے مُردے اکھاڑنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ہے۔ نجی محفلوں میں حسینہ واجد اور عوامی لیگ کے دوسرے رہنما جماعت اسلامی کی ان محترم شخصیات کے بے داغ کردار کا اعتراف کرتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں سیاسی ضروریات کی بنا پر ایسا کرنا پڑ رہا ہے۔ حسینہ واجد کے اس غیر دانشمندانہ اور ظالمانہ اقدام کے تین اسباب ہیں۔ پہلا سبب تو یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی وہ معیشت جو کسی حد تک اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی تھی وہ موجودہ حکومت کی غیر عاقلانہ پالیسیوں کی بنا پر تباہی سے دوچار ہو گئی ہے، مہنگائی بہت بڑھ چکی ہے، گارمنٹس انڈسٹری گور کنارے کھڑی ہے ۔عوام کی توجہ ان مسائل سے ہٹانے کے لئے حسینہ واجد نے انتقام کی شوشہ چھوڑاہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ بھارتی حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے وہ کسی حد تک بھی جانے کو تیار ہیں۔ بھارتی صدر پرناب مکھرجی کا تعلق مغربی بنگال سے ہے وہ کسی طرح بھی مشرقی بنگال میں اسلامی قوتوں کا عروج برداشت نہیں کر سکتے۔ ان دنوں بھارتی صدر بنگلہ دیش کا دورہ شروع کرنے والے ہیں۔ اُن کی آمد سے پہلے حسینہ واجد انہےں تحریک اسلامی پر شدید وار کرکے پھانسیوں کا تحفہ پیش کرنا چاہتی ہیں اور تیسرا سبب یہ ہے کہ گزشتہ دو چار سالوں میں بعض نئی کچھ پرانی کتابیں منظر عام پر بڑی کثرت سے آئی ہیں جنہوں نے بنگالی عوام پر پاکستانی فوج کے مظالم کا پردہ چاک کیا اور اسے بھارتی اور عوامی لیگی پروپیگنڈہ قرار دیا ہے، اس پر حسینہ واجد بہت تلملا رہی ہیں۔
کرنل شریف الحق 1971ءمیں پاک فوج میں کرنل تھے جب مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع ہوا تو وہ کوئٹہ سے فرار ہو کر بھارت چلے گئے اور بعد میں انہوں نے مکتی باہنی قائم کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور پاک فوج کے خلاف بھارت کی حمایت سے کارروائیاں کیں۔ اُن کی انہی خدمات کے اعتراف کے طور پر بنگلہ دیشی حکومت نے انہیں اپنا سب سے بڑا فوجی اعزاز ”بیراُتم“دیا تھا۔ انہی کرنل صاحب پر جب بھارتی فوجی افسروں سے قربت کے دوران اصل حقیقت آشکار ہوئی اور اُن کے لئے ضمیر کا بوجھ ناقابل برداشت ہو گیا تو انہوں نے ایک کتابThe untold Facts لکھی جس میں بتایا کہ مکتی باہنی مشرقی پاکستان کے ناراض نوجوانوں نے نہیں بھارتی فوج کے جنرل ابان سنگھ نے قائم کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ بھارتی حاضر سروس فوجی اس تنظیم میں خدمات انجام دیتے تھے۔ بھارتی فوج ہی عوامی لیگ کے نوجوانوں کو فوجی تربیت دیتی تھی۔ دوسری کتاب بھارت کے مشہور لیڈر سبھاش چندر بوس کے خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون شرمیلا بوس نے لکھی ہے اور اس نے بھارت،پاکستان اور بنگلہ دیش کی کئی اہم فوجی و سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ اور 1970ءسے پہلے اور بعد کے واقعات کی بہت چھان پھٹک کی اور برملا لکھا کہ پاکستانی فوج کے بارے میں اکثر الزامات کے پیچھے بھارتی پروپیگنڈہ ہے جبکہ حقیقت اس سے بہت مختلف ہے۔ تیسری کتاب اس زمانے میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر سجاد حسین کی ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ ”شکستِ آرزو“ کے نام سے چھپ چکا ہے۔ اس کتاب میں بھی پاکستانی فوج کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کو بھارتی سازش ہی قرار دیا گیا ہے۔
موجودہ صورتحال میں پاکستان کو سفارتی و سیاسی میدان میں فوری طور پر بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے ایک طرف تو بنگلہ دیشی سفیر کے ذریعے حسینہ واجد کی حکومت کو خبردار کرنا چاہئے کہ وہ جماعت اسلامی کے مولانا سعیدی اور مولانا ابوالکلام آزاد کی سزائے موت کے فیصلے کو فی الفور واپس لے۔ نیز پروفیسر غلام اعظم جو1970ءکے زمانے میں مشرقی پاکستان کی جماعت اسلامی کے امیر تھے اور اب اُن کی عمر92سال ہے اُن کے اور مطیع الرحمن نظامی کے خلاف مقدمات واپس لے اور انہیں رہا کرے۔ اس کے علاوہ حکومت پاکستان اسلامی سربراہی کانفرنس کا اجلاس منعقد کرائے۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کا اجلاس1973ءمیں لاہور میں بلایا گیا تھا۔ اس اجلاس میں شیخ مجیب الرحمن کو بھی دعوت دی گئی اور یہاں باقاعدہ طور پر پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک نے بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا تھا۔ اب یہ اسلامی ممالک کا فرض ہے کہ وہ محب وطن جماعتوں کی اہم شخصیات کو تحفظ فراہم کرےں۔ پاکستان کا یہ فرض ہے کہ وہ قوتیں کہ جنہوں نے بغاوت اور بھارتی حملے کے دوران حب الوطنی کا ثبوت دیا تھا اُن کی زندگیوں کی حفاظت کا فرےضہ انجام دے۔ اسی طرح ٹرانسپرنسٹی انٹرنیشنل اور دوسری انسانی حقوق کی تنظیمیں یہ قتل رکوائیں۔ حسینہ واجد کو دانشمندی کا ثبوت دینا چاہئے۔ وہ اگر گڑے مُردے اکھاڑیں گی اور بات چل نکلی تو بہت دور تک جائے گی۔ اگرتلہ سازش کیس کو سچ ثابت کرنے والے ایک بار پھر سارے دلائل منظر عام پر لائیں گے۔ بھارت کو پاکستان کے خلاف سازشیں پروان چڑھانے کےلئے بھارت کو بار بار دعوت دینے والے بے نقاب ہوں گے۔ حسینہ واجد کو سمجھنا چاہئے کہ اب بھی جب دسمبر میں سرد ہوا چلتی ہے تو پاکستان میں اکثر لوگوں کو دل کی چوٹیں چین نہیں لینے دیتیں اور انہیں16دسمبر1971ءکو سقوط ڈھاکہ کے مناظر بہت رنجیدہ کر دیتے ہیں۔ حسینہ واجد ہوش کے ناخن لیں۔ جماعت اسلامی اور بی این پی کے قائدین کے خلاف مقدمات فی الفور واپس لیں اور بنگلہ دیش کو خانہ جنگی سے بچائیں۔
تازہ ترین