• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور ترکی میں ایک بات مشترک رہی ہے، دونوں ممالک میں فوج نے طویل عرصے تک ملکی نظم و نسق پر اپنی گرفت قائم رکھی ہے۔ فوجی حاکمیت نے عوام میں جمہوری عمل کی نشوونما کو مسدود کر دیا اس لئے ان میں سیاسی سوجھ بوجھ اور شعور بھی بیدار نہ ہو سکا۔ ترکی میں وقتاً فوقتاً سول حکومت تو اقتدار میں آتی رہی، ان حکومتوں کو اتنا وقت نہیں کہ وہ اپنے عوام کےلئے سول آئین تیار کر سکیں۔ پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ پاکستان میں1973ءکے آئین کے فوجی ڈکٹیٹرز کی جانب سے پرخچے اڑائے جانے کے باوجود بعد میں برسراقتدار آنے والی سول حکومتوں نے اس آئین کو اس کی اصل شکل میں بحال کرنے میں کامیابی حاصل کی لیکن ترکی میں فوج کا اتنا دباﺅ برقرار رہا کہ وہاںمنتخب حکو متوںکو سول آئین تیار کرنے کی جرا ¿ت ہی نہ ہو سکی۔ ترکی میں ایردوان حکومت جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ جمہوریہ ترکی کے دور کی مضبوط ترین سول حکومت ہے مگر یہ ابھی تک اپنے نظم و نسق کو کنعان ایورن اور ان کے فوجی ٹولے کی جانب سے تیار کردہ فوجی آئین کے تحت ہی چلانے پر مجبور ہے۔ برسراقتدار جسٹس اینڈ ڈولپمنٹ پارٹی نے اگرچہ طویل عرصے سے نئے آئین مرتب کرنے کی تیاریاں شروع کر رکھی ہیں لیکن ابھی تک اسے حزب اختلاف اور دیگر سیاسی جماعتوں سے اس سلسلے میں پوری طرح حمایت حاصل نہیں ہو سکی ہے جس کی وجہ سے ابھی تک ترکی میں بتیس سال گزر جانے کے باوجود نیا سول آئین تیار نہیں کیا جاسکا ہے۔ البتہ اس فوجی آئین کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں تمام رائے دہندگان پر ووٹ ڈالنے کی پابندی عائد کر دی گئی ہے اور کسی کو بھی اس سے مبرا قرار نہیں دیا گیا ہے۔ آئین کے تحت ترکی کے تمام باشندے جو کہ ووٹ دینے کی عمر (اٹھارہ سال)کو پہنچ جائے ان کے لئے ووٹ دینا لازمی قرار دیا جاچکا ہے اور ووٹ نہ ڈالنے کی صورت میں اس پر جرمانہ عائد کردیا جاتا ہے۔ اس لئے ترکی جہاں پر بلدیاتی انتخابات ہوں یا عام انتخابات ہوں ووٹ ڈالنے کی شرح نوّے فیصد کے لگ بھگ رہتی ہے۔ اس شرح کو حاصل کرنے میں ملک کی سیاسی جماعتیں بھی بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں اور اپنے ووٹروں کو ووٹ ڈالنے کے فریضے سے گاہے بگاہے آگاہ کرتی رہتی ہیں اور اپنی اپنی سیاسی اکیڈمیز میں ووٹرز کو ووٹ ڈالنے اور اپنے بنیادی سیاسی حق سے آگاہ کرنے کی تربیت کا بندوبست کرتی رہتی ہیں۔ یہ تمام سیاسی جماعتیں اس بات سے پوری طرح باخبر ہیں کہ ان کے حمایتی ان کے حق میں ووٹ ڈالیں گے تو ان کو پارلیمینٹ میں ان کی نمائندگی کرنے کا موقع میسر آسکے گا۔ ترکی میں ان دنوں تیار کئے جانے والے نئے آئین میں بھی اس شرط کو جوں کا توں رکھا جا رہا ہے تاکہ عوام ماضی کی طرح مستقبل میں بھی اتنی ہی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالتے رہیں۔
اسی قسم کی شرط پاکستان میں بھی عائدکرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان میں ووٹ ڈالنے کی شرح بہت ہی کم ہے اور متعدد علاقوں میں یہ چالیس فیصد سے بھی کم ہو جاتی ہے۔ ذرا سوچئے جس علاقے کے عوام کا ساٹھ فیصد حصہ ووٹ ہی نہیں ڈالے گا وہاں بھلا جمہوریت کیسے فروغ پائے گی؟ علاقے کی قسمت بھلا کیسے بدلے گی؟ ہمارے ہاں ووٹ ڈالنے کے دن تعطیل ہونے کی وجہ سے پڑھے لکھے لوگ تو گھر سے باہر نکلنا اور ووٹ ڈالنا گوارہ ہی نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ گھر بیٹھ کر چھٹی کو انجوائے کرتے ہیں جبکہ اَن پڑھ لوگ اس دن کو میلے کا دن سمجھتے ہوئے میلہ لوٹنے چل پڑتے ہیں اور پھر وہ واقعی میلہ ہی لوٹ کر واپس آتے ہیں کیونکہ انتخابات کا رزلٹ انہی کے حق میں ہوتا ہے اور باو ¿ لوگ تبدیلی ہی کی آگ میں اگلے پانچ سال تک جلتے رہتے ہیں۔ پاکستان الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہے بلکہ یہ ان کا فریضہ ہے کہ وہ انتخابات کو یقینی، پُرامن اور منصفانہ بنانے کے ساتھ ساتھ تمام رائے دہندگان کو ووٹ ڈالنے کا پابند بنانے کے لئے ابھی سے زمین کو ہموار کرنا شروع کر دے۔ پاکستان الیکشن کمیشن کو چاہئے جس علاقے میں پچاس فیصد سے کم ووٹنگ ہو وہاں پر دوبارہ سے ووٹنگ کرانے کا بندوبست کرے یا ووٹ ڈالنے کا ڈیجیٹل طریقہ کار بھی استعمال کرتے ہوئے ووٹ ڈالنے کی شرح کو بلند کرے۔ اگر ملک میں ایک خاص حد سے کم سطح پر ووٹنگ ہوگی تو اس سے ملک کو جمہوری لحاظ سے شدید نقصان پہنچے گا۔ جس طرح عدلیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف نہیں ہوتا بالکل اسی طرح ایک خاص حد سے کم شرح سے ووٹنگ کو جمہوریت نہیں کہا جاسکتا۔
پاکستان الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ وہ تمام ووٹروں پر ووٹ ڈالنے کی پابندی عائد کردے اور اس سلسلے میں پارلیمینٹ سے سولہ مارچ سے قبل تک بل کو منظور کرالے یا پھر صدارتی آرڈیننس اور پھر کوئی اور طریقہ کار وضع کرتے ہوئے ووٹ ڈالنے کی پابندی پر عملدرآمد کرائے۔ علاوہ ازیں الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ وہ غیر ممالک میں آباد پاکستانیوںکے ساتھ ساتھ پاکستان ہی کے دور دراز علاقوں اور ایسے علاقوں جہاں دہشت گردی کا خطرہ لاحق ہو وہاں پر موبائل ٹیلی فون کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا بندوبست کرے۔ موبائل فون پر ووٹ ڈالنے کے نظام پر عمل کرانا کوئی مشکل کام نہیں ہے بلکہ عام ووٹنگ سے بھی زیادہ منظم اور بہتر طریقہ ہے جس میں دھاندلی کے امکانات بھی ختم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس کے لئے سوفٹ ویئر تیار کرنے کی ضرورت ہے جو پاکستانی سوفٹ ویئر انجینئر آسانی سے تیار کر سکتے ہیں کیونکہ اس قسم کے سسٹم پر پہلے ہی کئی ممالک میں عملدرآمد بھی کیا جا رہا ہے۔ موبائل فون ووٹنگ کا نظام بڑا قابل اعتماد ووٹنگ سسٹم ہے جس کا باقاعدہ ریکارڈ بھی رکھا جا سکتا ہے اور چیلنج کرنے کی صورت میں ان ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ثبوت کے طور پر عدلیہ میں بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔
غیر ممالک میں آباد پاکستانیوں کا پاکستان کی سیاست میں حصہ لینا ایک مثبت پیشرفت ہے، پاکستانی جس طریقے سے اس وقت پاکستان کی اندرونی سیاست میں ملوث ہیں اس سے قبل کبھی ایسا ممکن نہ تھا۔ اس کی بڑی وجہ غیر ممالک میں پاکستان کے ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز کا دیکھا جانا ہے۔ پاکستان میں آباد عوام پاکستان کی سیاست میں اس قدر گہری دلچسپی نہیں لیتے جس قدر گہری دلچسپی غیر ممالک میں پاکستانی لے رہے ہیں۔ وہ پاکستان میں ہونے والی تمام سرگرمیوں سے پوری طرح باخبر ہوتے ہیں اور پاکستان کی سیاست میں کھوئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کے ایک سابق وزیر اطلاعات شیخ رشید کے اس بیان سے غیر ممالک میں آباد پاکستانیوں کی سیاست میں دلچسپی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ جب وہ مشرف دور میں وزیر تھے اس وقت تک تو غیر ممالک میں آباد پاکستانیوں نے کبھی بھی مختلف ہالز میں ان کے لئے سیاسی تقریب کا اہتمام نہیں کیا تھا اور نہ ہی کبھی لوگ مختلف ہالز میں جمع ہوا کرتے تھے لیکن اب جس ملک میں بھی چلے جاﺅ تمام پاکستانی سیاسی تقریب میں شرکت کے لئے امڈے چلے آتے ہیں۔ شیخ رشید کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ غیر ممالک میں آباد پاکستانی ،پاکستان کی سیاست میں اب بڑی گہری دلچسپی لینے لگے ہیں۔
اس لئے اب یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ تمام پاکستانیوں کے لئے ووٹ ڈالنے کا بندوبست کرے۔ اس کے لئے وہ سفارت خانوں میں پولنگ اسٹیشن بنانے کی بجائے موبائل فون سسٹم کے تحت انتخابات کا بندوبست کرے کیونکہ ووٹنگ جتنی زیادہ ہوگی جمہوریت کو اتنا ہی فروغ حاصل ہوگا۔
تازہ ترین