• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدیوں کی دانش اور تجربات کا حتمی و مسلمہ نتیجہ یہ ہے کہ جنگ سے کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ جنگ خود ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے جس کی کوکھ سے ہمیشہ موت، ناقابلِ تلافی تباہی و بربادی، بھوک اور احتیاج کے سوا کسی شے کا جنم نہیں ہوا۔ جنگ سے نفرت اور احتراز دراصل انسانیت سے محبت کی علامت و استعارہ ہے۔ صد حیف کہ دو عالمی جنگوں کے تلخ ترین اور شرمناک واقعات کے بعد بھی تیسری عالمی جنگ روکنے کیلئے اقوامِ متحدہ جیسے ادارے کی بنیاد رکھنے والے ممالک بھی دنیا پر اپنی حاکمیت جمانے کی خاطر اِسی راہ پر چلتے دکھائی دے رہے ہیں جس کا انجام تیسری عالمی جنگ یا بالفاظ دیگر دنیاکی تباہی ہے۔ قطر کے امریکی ایئر بیس سے اڑنے والے ڈرون نے تمام جنگی، سفارتی اور اخلاقی اصول روندتے ہوئے بغداد ایئر پورٹ کے قریب ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی القدس فورس کے جنرل قاسم سلیمانی سمیت دس ایرانی فوجی افسروں پر راکٹوں کی بارش کرکے اُنہیں لقمہ اجل بنا دیا۔ قاسم سلیمانی امریکہ و اسرائیل کے خلاف مختلف محاذوں پر ڈٹے ہوئے تھے تاہم اُن کا امریکہ کی نظر میں ’’ناقابلِ برداشت جرم‘‘ یہ تھا کہ وہ مسلم ممالک کے مابین اختلافات ختم کرنے میں کامیاب اقدامات کر رہے تھے۔ امریکی کارروائی پر ایران میں غم وغصہ اور انتقام لینے کی بات کرنا فطری امر تھا اور اس نے ایسا کیا بھی بلکہ یہ بھی باور کرا دیا کہ ’’بدلہ لینے کے لئے جگہ اور وقت کا تعین خود کریں گے‘‘۔ وطنِ عزیز پاکستان کا اِس حوالے سے بیانیہ سب پر عیاں ہے جس کا اعادہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے جمعرات کے روز اسلام آباد میں نوجوانوں کیلئے ہنرمند پروگرام کی تقریب کے دوران کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ’’دنیا کو دو ٹوک پیغام دیا ہے کہ اب پاکستان کسی کی جنگ میں شرکت نہیں کرے گا بلکہ امن والا ملک بنے گا، دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بڑی قیمت چکائی، ہماری سب سے بڑی کوشش ہوگی کہ ایران، سعودی عرب اور امریکہ کو قریب لائیں، پاکستان دنیا میں امن کا داعی ملک بنے گا‘‘۔ مشرقِ وسطیٰ کی حالیہ صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ بیشتر ممالک اپنے سامراجی حلیفوں اور باہمی تنازعات کے باعث ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ سعودیہ اور ایران کا تنازع بہت پرانا ہے، امریکہ پہلے ایران کا ہمنوا تھا لیکن آیت اللہ خمینی کے انقلاب کے بعد امریکہ کو ایران سے کوچ کرنا پڑا، اُس نے سعودیہ سے تعلقات بڑھائے، صدام حسین نے امریکی گرفت سے نکلنا چاہا تو عراق کو روند ڈالا گیا، ’’عرب بہار‘‘ بھی امریکہ ہی کی کارستانی تھی۔ موجودہ حالات میں پاکستان کی طرف سے ایران، سعودیہ اور امریکہ کو قریب لانے کا بیان اِس لئے انتہائی اہم ہےکہ پاکستان ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہے، امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے، ایران نہ صرف پاکستان کا برادر ہمسایہ ملک ہے بلکہ اِس سے پاکستان کے تعلقات بھی اچھے ہیں، سعودیہ سے پاکستان کے تعلقات دیرینہ اور مضبوط ہیں۔ وزیراعظم ایران اور سعودیہ کے مابین ثالثی کی کوشش بھی جاری رکھے ہوئے ہیں، جس پر اگرچہ امریکی کارروائی کے باعث زک پڑنے کا احتمال ہے لیکن اِس کوشش کا جاری رہنا بہتر نتائج لا سکتا ہے۔ پاکستان بلاشبہ جنگ نہیں امن میں شراکت کا خواہاں ہے کہ جنگ سے جتنا نقصان پاکستان نے اُٹھایا ہے شاید ہی کسی اور کے حصے میں آیاہو۔ پاکستان کا موقف دنیا پر عیاں ہو چکا ،کوئی بھی مہذب ملک جنگ نہیں چاہتا۔ دریں حالات دنیا کے تمام تر امن پسند ممالک کو پاکستان کا ہمنوا ہو کر جنگ روک کر دنیا کو تباہی سے بچانے کی مخلصانہ سعی کرنا ہو گی۔ یہ اِس لئے بھی ضروری ہے کہ خدانخواستہ اگر مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کے شعلے بھڑک اُٹھے تو پوری دنیا اُن کی لپیٹ میں آجائے گی۔

تازہ ترین