• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی احتساب بیورو (نیب) سے متعلق قانون کے شرعی جائزے کے بعد اخذ کیے گئے جو نتائج اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کی بریفنگ کے ذریعے سامنے آئے، اُنہیں پیشِ نظر رکھتے ہوئے بعض حلقوں کے برسوں بلکہ عشروں سے جاری اِس موقف کا وزن ظاہر ہوتا ہے کہ قوانین پر اِن کے نفاذ سے پہلے نہیں تو نفاذ کے فوری بعد شرعی تجزیہ حاصل کیا جانا چاہئے۔ نیب قانون کے بعض پہلو، خصوصاً پلی بارگین کے ذریعے خورد برد شدہ رقم کی کُلی یا جزوی واپسی کی صورت میں جرم کے مرتکب کو کلین چٹ دینے کے طریق کار پر عوامی و قانونی حلقوں کو تحفظات رہے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان بھی اس باب میں ریمارکس دیتے رہے ہیں مگر تاحال پرنالہ اسی طرح گر رہا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ وہ ریاستی قوانین کا از روئے شریعت جائزہ لیتی رہے۔ یہ کام مطلوب رفتار سے جاری رہتا اور حکومتی حلقے بھی کونسل کی آرا کو مدِنظر رکھ کر قوانین پر نظر ثانی کرتے رہتے تو خاصی الجھنوں اور غلط فہمیوں سے بچنا ممکن ہو سکتا تھا۔ کونسل کے دو روزہ اجلاس میں دیگر متعدد امور پر سفارشات مرتب کیے جانے کے علاوہ نیب آرڈیننس کے جائزہ کیلئے بنائی گئی کمیٹی کی رپورٹ پر بھی غور کیا گیا جس کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر نیب کا قانون اپنے اندر اس قدر سقم رکھتا ہے کہ اسے دین اسلام کے قانونِ جرم و سزا کے ساتھ ہم آہنگ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ رائے ایسے وقت سامنے آئی جب نیب قوانین میں ترامیم کی ضرورت پر وسیع تر اتفاق کا احساس ہوتا ہے اور اس باب میں ایک ترمیمی آرڈیننس بھی آچکا ہے۔ کونسل حالیہ نیب ترمیمی آرڈیننس کے ابتدائی جائزے میں اسے مزید امتیازی قرار دے چکی ہے۔ اچھا ہو کہ اس باب میں اسلامی نظریاتی کونسل کی حتمی سفارشات اور ماہرین قانون کی آرا کو سامنے رکھ کر جلد فیصلے کیے جائیں اور اداروں کو زیادہ فعال کیا جائے۔

تازہ ترین