• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ 11مارچ2011ءاور جمعے کا دن تھا نماز جمعہ سے فارغ ہوکر مسجد سے باہر نکلا تو سامنے جاپانی پولیس کے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار ہر نمازی کو بڑی خوشدلی سے سلام کرتے بڑا اچھا منظر پیش کررہے تھے۔ مجھ سے بھی موصوف نے بڑی خوشدلی سے ہاتھ ملایا مجھے نہیں معلوم کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس یہ اہلکار مسجد اور نمازیوں کی حفاظت کےلئے موجود ہوتے ہیں یا نگرانی کےلئے لیکن دونوں صورتوں میں یہ ایک سیکورٹی کا اچھا انتظام ہے جو جاپانی پولیس نے تقریباً جاپان کی تمام مساجد میں کیا ہوا ہے۔ مسجد سے دفتر کا فاصلہ دس منٹ کا ہی ہے جو میں عموماً پیدل ہی طے کیا کرتا ہوں اس روز بھی میں سڑک کے دونوں اطراف میں طویل المنزلہ عمارتوں کے ساتھ راہداری پر چلتے ہوئے جاپانی ترقی پر رشک ہی کر رہا تھا کہ کتنی کم مدت میں جاپان جیسے تباہ حال ملک جس نے جنگ عظیم دوم میں امریکہ کی جانب سے اپنے دو شہروں پر ایٹم بموں کے حملے برداشت کئے اور اسی جنگ میں شکست بھی جاپان کا مقدر بنی تاہم اس بہادر قوم نے محنت اور لگن کے باعث ایک بار پھر اپنے آپ کو دنیا کے جدید ترین اور ترقی یافتہ ترین ممالک کی صف میں شامل کروالیا ہے لیکن ہمیشہ کی طرح اس روز بھی جاپان کی ترقی پر رشک کے ساتھ ہی پاکستان کا خیال میرے ذہن میں آیا جو آزادی کے پینسٹھ برس بعد بھی تیسری دنیا کے ممالک میں شامل ہے جہاں کے عوام ترقی کے خواب دیکھتے دیکھتے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں لیکن وہاں کے حکمراں صرف اپنی ترقی کو یقینی بنا کر حکومت نئے حکمرانوں کےلئے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور یہ عمل پینسٹھ برس سے جاری ہے۔ میری سوچ بھی دیگر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرح ہی تھی جو بلاشبہ ترقی یافتہ مماک میں رہنے پر خوشی کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن جب بھی اپنے ملک کے ناقص حالات انکے سامنے آتے ہیں تو ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ دس منٹ کا سفر طے ہوچکا تھا اور میں ٹوکیو کے وسطی علاقے میں واقع اپنے دفتر پہنچ چکا تھا ،اس وقت پونے تین بج چکے تھے تین بجے اگلی میٹنگ ہونا تھی چند لمحوں کےلئے میں نے کھڑکی سے نیچے نظر ڈالی تو خوبصورت سڑک پر سیکڑوں رنگ برنگی گاڑیاں کھلونوں کا منظر پیش کر رہی تھیںاچانک ہی ایک زبردست جھٹکے کی آواز نے چونکا کر رکھ دیا، دفتر میںرکھی فیکس مشینیں ایک زور دار آواز کے ساتھ نیچے گرگئی تھیں جبکہ پورا آفس زلزلے کے زبردست جھٹکوں سے لہرا رہا تھا، عام طور پر جو جاپانی اسٹاف ہلکے پھلکے زلزلے کے جھٹکوں پر مسکرا رہا ہوتا تھا لیکن آج ان کے چہروں پر بھی خوف کے سائے منڈلا رہے تھے، بلڈنگ میں خطرے کے سائرن بجنا شروع ہوگئے تھے، لفٹیں بند ہوچکی تھیں اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آفس کی یہ عمارت سیمنٹ کی نہیں بلکہ لچکدار سریے کی بنی ہوئی ہے جو ایک طرف سے دوسری طرف پوری طاقت سے ہل رہی تھی، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ عمارت شاید کسی بھی لمحے ٹوٹ کر گرجائے گی، کئی جاپانی میزوں کے نیچے بیٹھ کر شاید اگلے چند لمحوں میں آنے والی موت کا انتظار کررہے تھے۔ کمپیوٹر، فیکس مشینیں اور دفتر کا سارا سامان زلزلے کے مسلسل اور ناقابل یقین حد تک طاقتور جھٹکوں سے گر چکا تھا، سامنے والی عمارت کے کچھ حصے نیچے گرتے دیکھے جاسکتے تھے، تقریباً ایک سے ڈیڑھ منٹ تک جاری رہنے والا سات اعشاریہ تین کی شدت کا یہ جھٹکا ٹوکیو میں زلزلے کا پہلا وار تھا کچھ دیر بعد عمارت کا لرزنا کچھ کم ہوا تو چند لوگوں نے سیڑھیوں کے ذریعے نیچے اترنے کی کوشش کی تو ایک بار پھر شدید زلزلے نے در و دیوار کو ہلا کر رکھ دیا اور تمام لوگ واپس اپنے اپنے دفتروں میں پنا ہ لینے پہنچے، کافی دیر تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور ہر شخص اس وقت کو اپنا آخری وقت سمجھ رہا تھا۔ لائٹ جاچکی تھی، فون بند اور موبائل جام ہوچکے تھے، مواصلات کا نظام ناکارہ ہوچکا تھا۔ آج جاپان بھی ان تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہوچکا تھا جن سے پاکستانی عوام کو ہر روز محروم ہونا پڑتا ہے،کافی دیر کے بعد نیچے اترنے کا موقع ملا تو ٹوکیو کسی جنگ میں ہارے ہوئے شہر کا منظر پیش کررہا تھا، لوگ گاڑیاں کھلی چھوڑکر سڑکو ں پر آچکے تھے، جدید ترین عمارتیں ویران ہوچکی تھیں اور لاکھوں لوگ سڑکو ں پر موجود تھے، سگنل نظام بند ہوچکا تھا ، ٹرینیں بند ہوچکی تھیں، تمام پروازیں معطل ہوچکی تھیں، بجلی بند ہوچکی تھی، صرف چند لمحوں میں ہنستے مسکراتے چہروں پر موت کا خوف لرزاں تھا، دور سے پولیس کی گاڑیوں کے سائرن، ایمبولینسوں کے سائرن اور مقامی انتظامیہ کے اعلانات لوگوں میں مزید خوف پیدا کررہے تھے۔اسی دوران ایک اور زلزلے نے بیچ سڑک پر کھڑے ہزاروں لوگوں کو ایک بار پھر شدید خوف و ہراس میں مبتلا کردیا تھا جہاں اس وقت سڑک کے دونوں اطراف موجود اونچی اونچی عمارتیں باقاعدہ زلزلے سے جھوم رہی تھیں،کہیں کہیں عمارتوں کے شیشے بھی ٹوٹ رہے تھے جن سے پیدا ہونے والی آوازیں مزید خوف و ہراس کا منظر پیش کررہی تھیں، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اس وقت کوئی ہالی وڈ کی مووی چل رہی ہے اور مجھ سمیت لاکھوں جاپانی اس فلم کے کسی منظر میں کردار ادا کررہے ہیں لیکن یہ سب حقیقت پر مبنی تھا لیکن اس وقت واقعی مبارکبا د کے مستحق تھے وہ جاپانی انجینئرز اور ماہر تعمیرات جنہوں نے زلزلے سے بچاﺅ کے لئے اتنی مضبوط عمارتیں قائم کررکھی ہیں جو سات اعشاریہ تین شدت کے زلزلے پر بھی تباہ ہونے سے بچ گئیں، مبارکباد کے مستحق تھے وہ جاپانی بلڈرز جو عمارتوں کی تعمیر میں بہترین معیار کا میٹریل استعمال کرتے ہیں، مبارکباد کے مستحق تھے وہ جاپانی سرکاری حکام جو تعمیرات کے دوران کسی بھی غلط کاری کو روکنے کے لئے مکمل نگرانی کرتے ہیں، ورنہ خدانخواستہ یہ زلزلہ اگر پاکستان کے کسی شہر میں آجاتا تو نہ جانے کیا ہوتا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں سرکاری حکام اور بلڈر مافیا کیسے کام کرتے ہیں۔ بہرحال یہ جاپان تھا لہٰذا زلزلے کو ایک گھنٹہ گزر چکا تھا لوگوں کے اوسان بحال ہونا شروع ہوگئے تھے، ٹوکیو کے وینو اسٹیشن پر اس وقت تقریباً کئی لاکھ لوگوں کا جم غفیر موجود تھے، اب تمام لوگ اپنے اہل خانہ کی فکر میں مبتلا ہوچکے تھے، جبکہ جن کے دفاتر وینو میں ہی تھے وہ اپنے دفتر میں بکھرے سامان کو صحیح کرنے کی فکر میں مبتلا تھے۔ میں بھی آفس پہنچا تو خو ش قسمتی سے انٹرنیٹ تاحال چل رہا تھا جبکہ پانی، بجلی ،گیس اور فون کی سہولتیں مکمل طور پر بند ہوچکی تھیں، زلزلے کے کچھ ہی دیر بعد معلوم ہوگیا تھا کہ زلزلے کا مرکز فکوشیما میاگی اور دیگر ساحلی علاقے تھے جہاں اس زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر آٹھ اعشاریہ نو تک ریکارڈ کی گئی تھی جس نے ان ساحلی علاقوں کو منٹوں میں ہی غرق کرکے رکھ دیا تھا اور بیس ہزار سے زائد افراد کو زلزلے کے نتیجے میں آنے والا سونامی بہا کر لے گیا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اندھیرا بھی گہرا ہوتا جارہا تھا ،امدادی ادارے حرکت میں آرہے تھے، جاپانی عوام مثالی نظم و ضبط کا ثبوت دیتے ہوئے نظر آرہے تھے، حکام نے اسٹریٹ لائٹوں کی بجلی بحال کردی تھی تاہم ریلوے لائن کو نقصان پہنچنے کے باعث ٹرین سروس معطل تھی، ٹریفک شدید جام تھا لوگ پید ل سفر کرکے کئی کئی کلومیٹر تک اپنے گھروں تک جانے کی کوشش کر رہے تھے، کھانے پینے کی دکانوں پر شدید رش لگا ہوا تھا لیکن نظم وضبط کے ساتھ لوگ کئی کئی سو میٹر لمبی لائنیں لگا کر اشیاءخوردونوش خرید رہے تھے جبکہ کسی نے بھی اپنی وقتی ضرورت سے زائد اشیاءخریدنے کی کوشش نہیں کی تاکہ دوسرے لوگوں کےلئے قلت پیدا نہ ہوسکے ، بڑے بڑے اداروں کے سربراہان ، کروڑ پتی تاجر حضرات ریلوے اسٹیشن میں زمین پر بیٹھ کر ریل سروس شروع ہونے کا انتظار کررہے تھے جبکہ ریلوے اسٹیشن میں تل دھرنے کی جگہ بھی نہ تھی جبکہ مقامی انتظامیہ لوگوں کو کھلی جگہ میں رہنے کی تاکید کررہی تھی تاکہ اگر کوئی نیا زلزلہ آئے تو جانی و مالی نقصان سے بچا جاسکے تاہم دوسری جانب جن علاقوں میں سونامی نے تباہی مچائی تھی وہاں فوری طور پر امدادی کارروائیاں شروع نہیں ہو سکی تھیں۔ ( جاپان میں زلزلہ زدگان کی امدادی کارروائیوں میں پاکستانی کمیونٹی کے کردار اور دوسال بعد سونامی سے متاثرہ علاقوں کی نئی تعمیر نوع کی صورتحال پر تحریر اگلے ہفتے ملاحظہ فرمائیں)۔
تازہ ترین