• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برصغیر کے معروف کالمسٹ کلدیب نیئر نے کوئٹہ اور کراچی کے دھماکوں کے حوالے سے اپنے ایک حالیہ کالم میں سوال اٹھایا ہے کہ اکثر مسلمان یہ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن کراچی اور کوئٹہ کی حالیہ دہشت گردی میں انہوں نے اس فقرے کو بھولے سے بھی یاد نہیں کیا کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، اس کی آخر کیا وجہ ہے ؟
میرے حساب سے یہ بات ہی سرے سے غلط ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، صرف پاک و ہند کے مسلمانوں اور علماءحضرات کی ہی بات نہیں بلکہ اکثر مسلمان کالمسٹ بھی یہی لکھ رہے ہیں۔ اوباما، بش اور ٹونی بلیئر بھی یہی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت دہشت گرد نہیں لیکن جو بات پریشان کن ہے وہ یہ ہے کہ اگر دہشت گردوں کا کوئی مذہب یا دھرم نہیں ہوتا تو آج تک کسی عالم دین یا مفتی اعظم نے ان کو دین اسلام سے خارج کرنے کا اعلان کیوں نہیں کیا ؟ اس کے برعکس جب کوئی دہشت گرد مارا جاتا ہے یا ہلاک کیا جاتا ہے تو دنیا بھر کے متعدد مسلم چینل ”شہید“ کہہ کر پکارتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ جس جنگ میں دنیا ملوث ہوچکی ہے اس کو اسلام اور کفر کی جنگ کا نام دیا جا رہا ہے، شیعہ ،سنّی تنازع کہتے ہیں، اسے تہذیبوں کی جنگ بھی کہہ رہے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے، جب یوگوسلاویہ کے ملاسو وچ کے خلاف جنگ لڑی گئی تو چونکہ وہ مسلمانوں کے خلاف نہ تھی بلکہ ایک کیتھولک عیسائی ڈکٹیٹر کے خلاف تھی کیا مجال کہ کسی عیسائی یا مسیحی ملک نے اس کے خلاف جلوس نکالا ہو یا کسی دکان پر پتھر تک مارا ہو لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ جب یو این او یا امریکہ (کہ ملاسو وچ کے خلاف بھی انہوں نے ہی کارروائی کی تھی) کسی ایسے ملک یا شخص کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو اس کے خلاف مسلمان چیخ و پکار شروع کردیتے ہیں۔ یہ بات بھی چھوڑیئے آگے چلتے ہیں جو لوگ پاکستان میں بم دھماکے کرتے ہیں کیا ان کا تعلق اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ نہیں ؟ جو کچھ بالی انڈونیشیا میں ہوا کیا اس کا تعلق ایک خاص مذہبی پارٹی سے نہیں ؟ کیا پاکستان کے گرجا گھروں پر حملوں میں یہ لوگ ملوث نہیں پائے گئے ؟ کیا بھارت میں جگہ جگہ بم دھماکوں میں ان کا نام نہیں آتا ؟ کیا 9/11 کے المیے میں ایک بھی غیر مسلم شریک ہے ؟ دنیا ان واقعات سے ناواقف نہیں، جیسے پاکستان میں شیعہ، سنّی فسادات سے ناواقف نہیں۔ اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا تو کیا ایسا کرنے والوں کو کمیونسٹ، دھریہ، لا مذہب اور کافر سمجھا جائے ؟ چلیئے ایسا ہی سہی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو ان کی پشت پناہی مذہبی نظریئے سے کیوں کی جاتی ہے ؟ پچھلے دنوں میں نے کسی پاکستانی اخبار میں پڑھا تھا کہ کوئی عالم دین (مجھے نام یاد نہیں آ رہا) نے مسلمانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اور حضرات ابراہیمؑ کی تعلیمات کو بھی عام کریں اس سلسلے میں اس عالم دین کی خواہشات اپنی جگہ مقدم ہے مگر ان کا اس بات سے ناواقف ہونا کہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں جو تعلیم مسلمان دیتے ہیں وہ مسیحی تعلیم سے متصادم ہے، ایسا کرنے سے واہ واہ تو ہوسکتی ہے کہ مسلمان بڑے فراخدل ہیں لیکن مذہبی طور پر اس سی نئے جھگڑے جنم لیں گے اور اگر مسلم سکولوں میں اس تعلیم کو پیش کرنا ضروری سمجھا جا رہا ہے تو اس کے لئے مسلمان علماءکے بجائے مسیحی مذہبی رہنماﺅں کی خدمات حاصل کی جانی چاہئے۔ میرے حساب سے اگر مسلمانوں اور مسیحیوں یا بھارت میں مسلمانوں اور ہندوﺅں کے درمیان اخوت و بھائی چارے کی فضا کو قائم کرنا ہے تو اس کے لئے مسلم علما اپنے اندر صبر، رواداری اور برداشت کا جذبہ پیدا کریں۔ وہ اپنی بات صبر سے سنائیں اور دوسروں کی بات صبر سے سنیں، دوسروں کے نقطہ نظر کا احترام کریں اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ احترام کا مطلب اتفاق نہیں ہے، احترام کا مطلب یہ ہے کہ آپ خود کو اس مختلف رائے کا پابند سمجھیں۔ رواداری کی معراج یہ ہے کہ آپ دوسروں کے مختلف رائے رکھنے کا نہ صرف حق تسلیم کریں بلکہ انہیں اس پر عمل کرنے کا حق اور اجازت بھی دیں بشرطیکہ وہ خلاف قانون نہ ہو، خلاف قانون رائے رکھنے کا حق تو ہر کسی کو ہے لیکن خلاف قانون عمل کرنے کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں، مان لیا کہ جمہوریت سب سے پہلے اسلام نے ہی متعارف کرائی تھی لیکن اس کی کیا وجہ ہے کہ کسی ایک اسلامی ملک یا ریاست میں بھی اس کا اطلاق نہیں ہوتا، آئیے یہاں میں آپ کو ایک ہوش ربا واقعہ سناتا ہوں۔ قیام پاکستان کے بعد جب مشرقی و مغربی پاکستان کے مختلف سیاسی حلقوں میں (دبے دبے لفظوں میں) قائداعظم
محمد علی جناح کے لامحدود اختیارات پر سرگوشیاں شروع ہوئیں تو مسلم لیگ کے چیف آرگنائزر چوہدری خلیق الزماں نے قائداعظم کو کرہ ¿ ارض کا سب سے عظیم رہنما قرار دیتے ہوئے ڈنکے کی چوٹ پر کہا کہ ”ایک اسلامی مملکت کے حاکم اعلیٰ کو لازماً آمریت اختیار کرنی چاہئے، خلفائے راشدینؓ مجلس شوریٰ سے مشورہ ضرور کرتے تھے لیکن اس مشورے کو ماننے یا مسترد کرنے کا اختیار ان کے پاس تھا، پاکستان کے حکمران کے پاس بھی اس اختیار کا رہنا اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہے، اسلامی طرز حکومت میں آخر فیصلہ کا اختیار اسمبلیوں کو سونپنے کی کوئی گنجائش نہیں“۔
یہ تو دور پرلے کی بات تھی، مملکت خداداد کے ایک ”عظیم عالم“ نے بھی پچھلے دنوں اسی قسم کا اعلان کیا تھا۔ ”پاکستان میں یورپی جمہوریت قائم نہیں کی جائے گی“ بہت خوب، اگر وہ یورپی جمہوریت قائم نہیں کریں گے تو پھر کون سی جمہوریت لاگو کریں گے ؟ بھارتی جمہوریت کیسی رہے گی لیکن اس کا کیا کریں گے کسی بھی ایک مسلم ملک میں جموریت نامی چڑیا نہیں پائی جاتی اور پھر یوں بھی مسلمان اس جمہوریت وموریت کے بکھیڑوں میں نہیں پڑے اس لئے بہتر یہی ہے کہ جیسے تیسے ملک چل رہا ہے چلنے دیں کہ یہاں جمہوریت کیا اسمبلیوں کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے، انتخابات ہوں گے تو اسمبلیاں وجود میں آئیں گی۔
جو ہم ادھر سے گزرتے ہیں کون دیکھتا ہے
جو ہم ادھر سے نہ گزریں گے کون دیکھے گا !
تازہ ترین