• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ جس جگہ آپ برسوں سے کسی سرسبز درخت کو دیکھتے آئے ہوں ، اسے اچانک کاٹ دیا جائے تو وہ جگہ کتنی ٹنڈ منڈ ، نامعتبر اور ویران سی نظر آنے لگتی ہے ؟ …
آج چار سو پھیلی معاشرتی آلودگی کو چھوڑ کر ماحولیاتی آلودگی کی بات کرنا کچھ عجیب سا لگ رہا ہے ۔ ممکن ہے کہ جہالت کے مہیب سایوں سے صرف نظر کر کے گھنے پیڑوں کی مہرباں چھائوں کا ذکر آپ کو بے وقت کی راگنی لگے ۔ بجا کہ خاک و خون ، آہ و فغاں ،بارود کے دھوئیں اور تخریب بدوش شور شرابے اور توڑ پھوڑ کے نامہرباں موسموں میں اشجار کی بات کرنا غیر ضروری سا معلوم ہوتا ہے ۔ مانا کہ لہو لہو بہار میں لالہ و گل کے حسن اور بہار کی شادابیوں کا تذکرہ کچھ جچتا نہیں۔ پھر بھی پوچھنا تو بنتا ہے کہ حسب معمول شجر کاری کا حالیہ موسم بھی ہماری طرح آپ کے پاس سے دبے پائوں گزر گیا یا آپ نے کوئی پودا شودا بھی لگایا؟ کیا آپ نے کسی نوزائیدہ پیڑ کی جڑوں کو پانی دیا یا ہماری طرح اپنے مفادات کی آبیاری ہی میں مصروف رہے ؟ اللہ نہ کرے کہ آپ نے ایسا کچھ کیا ہو لیکن سچی بات ہے کہ ہمارا بے رحم کلہاڑا تو شجر کاری کے اس خوبصورت موسم میں بھی سایہ دار پیڑوں پر چلتا رہا کہ ہم دیہاتیوں کے پاس گیس ہے نہ بجلی ۔ ہم اور ہمارے ووٹ دوسروں کے مفادات کا ایندھن ہیں اوریہ شجر خود ہمارے چولہوں اور تندوروں کا ایندھن۔ اس میں حیرت کی کیا بات ہے کہ ہم لوگ اگر گدھے کا گوشت کھا سکتے ہیں توکیا ایسے چوپائیوں کو اپنی نمائندگی کے لیے منتخب نہیں کر سکتے ؟
حضور والا! آزادی تحریر کی بھی کچھ حدود قیود ہیں۔ کچھ ایسے بھی خونخوار جاندار ہوتے ہیں ، جن پر کھل کر نہیں لکھا جا سکتا۔البتہ درختوں جیسے بے ضرر جانداروں پر قلم اٹھانے میں کوئی قدغن نہیں ۔ ہمارے وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں اپنے اس غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا ہے کہ جہاں اور جس بھیس میں بھی ہوں ، دہشت گردوں کے سرپرست اور مددگار بچ نہیں سکیں گے …اب کون نہیں جانتا کہ دہشت گردوں کے سرپرست اور مددگار کس کس بھیس میں اور کون کون سے مقامات پر بیٹھے ہیں؟ مگر نام ان کا وزیراعظم نے بھی نہیں لیا۔ پھر ہم کس کھیت کی مولی ہیں؟ سو ، کیکر، شیشم، چیڑ، بیر، پھلاہی ،دھریک، پاپلر، سیمل، سفیدہ، نیم اور توت ایسے جانداروں کی بات کرتے ہیں ۔اگر انسانوں کے قاتلوں کا ذکر مشکل ہے تو پیڑوں کے قاتلوں کا تذکرہ ہی سہی ، جو ہم اور آپ بھی ہیں ، ٹمبر مافیا بھی اور ہماری حکومتیں بھی ۔ انتہا پسندی کا خاتمہ تو مشکل ہے لیکن درختوں کی بیخ کنی سے تو ہمیں کسی نے نہیں روک رکھا۔ ہر سال ملک میں دو مرتبہ شجر کاری کی مہم چلائی جاتی ہے مگر جنگلات میں مسلسل کمی ہو رہی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مہم سرکاری اور عوامی سطح پر محض نمائشی اور نیم دلانہ سی ہوتی ہے ، جس میں محکمہ زراعت اور جنگلات کے کرتا دھرتا لمبا مال بناتے ہیں۔ البتہ چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر درختوں کا قتل عام سب مل کر سارا سال جاری رکھتے ہیں۔
ہم ان گھسی پٹی معلومات کی تفصیل بیان کر کے آپ کو بور نہیں کرنا چاہتے کہ جنگلات قدرت کا انمول تحفہ ہیں، زمین کی زرخیزی برقرار رکھنے ،درجہ حرارت کو اعتدال پر رکھنے ، آکسیجن پید اکرنے ،ماحول کو خوشگوار بنانے ،بارشیں برسانے اور جنگلی حیات کے تحفظ ، حتیٰ کہ کرئہ ارض پر انسانی زندگی کی بقاء کے لئے ضروری ہیں۔ انٹر نیٹ سے حاصل کردہ جنگلات سے متعلق ڈھیر سارے اعدادو شمار بھی ہمارے سامنے پڑے ہیں لیکن علمیت جھاڑنے کا یہ موقع بھی ہم رضاکارانہ طور پر ضائع کر رہے ہیں۔ البتہ یہ دو جملے سن لیجئے کہ وطن عزیز کے کل رقبے کے تقریباً 4.5فیصد پر جنگلات ہیں جبکہ جنگلات کا رقبہ کسی بھی ملک کے کل رقبے کا 25فیصد ہونا ضروری ہے ۔ یہاں ہر ڈوبتے سورج کے ساتھ جنگلات کا یہ برائے نام رقبہ بھی بتدریج کم ہو رہا ہے ۔ پروین شاکر کے ایک ’’نوحے‘‘ نے بڑی پذیرائی حاصل کی ہے کہ :
اس بار جو ایندھن کےلئے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے
اور مجید امجد ؔ نے کیا دل سوز بات کہی تھی کہ :
اس جلتی دھوپ میں یہ گھنے سایہ دار پیڑ
میں اپنی زندگی انہیں دے دوں جو بن پڑے
البتہ ہم ان کی زندگیاں چھیننے میں ماہر ہیں ۔ درختوں پر یہ ظلم ڈھانے میں ہماری حکومتیں ٹمبر مافیا کے شانہ بشانہ چلتی ہیں ۔ آپ نے اخبار میں اس قماش کے اشتہارات تو اکثر دیکھے ہوں گے کہ ’’سرکاری دفتر کی تعمیر و توسیع میں ایستادہ درختان از قسم شیشم 8عدد ،توت 5عدد،کیکر 10عدد کی نیلامی مورخہ فلاں کو دفتر زیر دستخطی میں کی جائے گی ‘‘۔ اور صاحب ، صرف لاہور ہی نہیں ، دیہی سڑکیں بھی چوڑی کرنے کی آڑ میں بے شمار قدیم درخت صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے ہیں۔ انگریز سرکارنے ہر سڑک کے کناروں اور سرکاری دفاتر کے احاطوں میں لا تعداد درخت لگائے تھے ۔’’سیہ تپتی سڑک پر یہ سر سبز پیڑوں کے سائے ‘‘…خود ہم بچپن سے چکوال میانوالی روڈ پر قطار در قطار سر سبز درختوں کو دیکھتے چلے آئے ہیں ، جنہیں پرویز مشرف دور میں سڑک چوڑی کرنے کے بہانے بیچ کھایا گیا ۔ حالانکہ ان میں سے بہت سارے سڑک کی توسیع کی زد میں نہیں آتے تھے ۔ آخر ایاز امیر صاحب نے شور مچایا ( ہمارا اور ان کا گائوں اسی سڑک پر ایک دوسرے کے قریب واقع ہیں ) تب چند درختوں کی جان بخشی ہوئی مگر اس وقت تک ان کی اکثریت مقتل کی بھینٹ چڑھ چکی تھی اور اب یہ سڑک ٹنڈ منڈ ،نا معتبر اور ویران سی لگتی ہے ۔ بحیثیت قوم ہمارے نزدیک جنگلات کا وہی مطلب ہے ،جیسے استاد نے شاگرد سے پوچھا کہ جنگلات کسے کہتے ہیں؟ شاگرد نے جواب دیا ’’ ایسی جنگ جو لاتوں سے لڑی جائے ‘‘ …چونکہ ہم لوگ لاتوں کے بھوت واقع ہوئے ہیں ، لہٰذا لگتا ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے تحفظ کےلئے شجر کاری کی اہمیت اجاگر کرنے اور درختوں کے کٹائو سے ماحولیاتی آلودگی ،بارشوں میں کمی ،گلوبل وارمنگ میں اضافے اور لینڈ سلائیڈنگ جیسے خطرناک حالات سے آگاہی کے لئے ترغیب و تلقین کی بجائے لاتوں ہی سے قائل ہوں گے ۔ آخر میں شیو کمار بٹالوی کی ایک شاہکار نظم سنئیے :
کُجھ رُکھ مینوں پُت لگدے نیں
کجھ رکھ لگدے ماواں
کجھ رکھ نوہاں دھیاں لگدے
کجھ رکھ میرے دادے ورگے
پَتر ٹاواں ٹاواں
کجھ رکھ میری دادی ورگے
چُوری پائونڑ کاواں
کجھ رکھ میرے یاراں ورگے
میں چُماں تے گَل لَاواں
اِک رکھ میری محبوبہ ورگا
مِٹھا تے دُکھاواں
کجھ رکھ میرا دل کردا اے
میں چُماں تے مَر جاواں
تازہ ترین