• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک ترقی و خوشحالی کی طرف تبھی گامزن ہوتا ہے جب ریاستی ادارے اور خاص طور پر ریاست کا معتبر ترین ادارہ پارلیمان اپنے فرائض بحسن و خوبی ادا کر رہا ہو۔ پارلیمان کو تقدس ہی اس لئے حاصل ہے کہ اس کے ذمہ قانون سازی کرنا ہے، یہ عمل رک جائے تو معاشرے جمود کا شکار ہو جایا کرتے ہیں۔ اچھی پیش رفت یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں حکومت نے قومی احتساب (ترمیمی) بل 2019ء سمیت چھ آرڈیننس اپوزیشن کی مشاورت کے بعد واپس لے لیے جبکہ بچوں کے اغوا اور زیادتی کی روک تھام کیلئے زینب الرٹ (جوابی ردعمل، بازیابی) بل 2019ء سمیت 6قوانین متفقہ طور پر منظور کر لیے گئے۔ زینب الرٹ بل میں زیادتی کے مرتکب کو سزائے موت یا عمر قید اور ایک سے دو کروڑ جرمانہ ہو سکتا ہے، جرائم کا فیصلہ 3ماہ میں کرنا ہوگا، بچوں سے متعلق شکایت کیلئے 1099ہیلپ لائن قائم کی جائے گی، جو سرکاری افسر 2گھنٹے کے اندر بچے کے خلاف جرم پر ردعمل نہیں دے گا، اسے بھی سزا ہو گی۔ قومی اسمبلی میں جن معاملات پر قانون سازی ہوئی ہے ان کی حساسیت کا کس کو ادراک نہیں۔ نیب قوانین کے بارے میں تحفظات اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے معاملات پر قانون سازی ایک سنگ میل ہے۔ اس سے یہ امر بھی سامنے آیا ہے کہ اگر مخالفت برائے مخالفت کی فرسودہ و متروک سیاست کو بالائے طاق رکھ دیا جائے تو پارلیمان ملک و قوم کے بیشتر مسائل حل کر سکتی ہے۔ یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ متذکرہ قانون سازی سے پارلیمان نے اپنا تقدس ہی اجاگر نہیں کیا، اپنی بالادستی بھی قائم کی ہے۔ امید ہے کہ ایوان زیریں کی منظوری کے بعد یہ بل ایوان بالا یعنی سینیٹ سے بھی جلد قبولیت کی سند پاکر صدرِ مملکت کے دستخطوں کے بعد فوری طور پر نافذ العمل ہوں گے۔ عوام کی پارلیمان سے یہ توقع بےجا نہ ہو گی کہ وہ اہم نوعیت کے معاملات پر اسی طرح قانون سازی کا سلسلہ جاری رکھے گی۔

تازہ ترین