• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کس کس رہزن کو ’’دُعا‘‘ دی جائے اور کس کس کے دامن کو حریفانہ کھینچنے کا جتن کیا جائے؟ وزیراعظم کی جانب سے پنجاب پولیس کی پاکیٔ داماں کا اعلان ہوا ہی تھا کہ لاہور میں ڈاکوئوں نے انت مچا کر نئی پولیس انتظامیہ کے نیک نام افسروں کو مشکل سے دوچار کر دیا۔ 

جہاں اور بہت سے لُٹے وہاں اس غریبِ شہر کے گھر پہ شب خون میں وہ سب کچھ لے اُڑے۔ اب تو سجدۂ شکر میں ہوں کہ عزت و جان بچی، مال متال کے لٹنے کا کیا غم جس کی کبھی خواہش ہی نہ رہی۔ 

مجھے فخر ہے تو اس بات پہ کہ میری بیٹی امر عالم کی ہمت اور زوجہ ڈاکٹر نصرت حبیب کی بہادری، ڈرائیور اختر کی حاضر دماغی اور چاچا بوٹے کی بروقت مداخلت پہ آدھ درجن ڈکیت اپنے مذموم اور خون آشام عزائم پورے کیے بنا سر پر پائوں رکھ کر بھاگنے پہ مجبور ہو گئے۔

 ہمارے مختصر خاندان کی زندگی میں اس خوفناک تجربے کے جانے کیا کیا نفسیاتی مضمرات ہوں، لیکن اس واقعہ نے بطور شہری ہماری سلامتی کو ہمیشہ کے لیے مخدوش کر دیا ہے۔ اب اپنی اور اپنے خاندان کی سلامتی ایک نیا نارمل یعنی معمول ہے۔ 

گو کہ دُنیا بھر سے چاہنے والوں نے ہماری دلجوئی میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی لیکن اب سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، یکجہتی کے دو بول اور بس۔ آپ جانو اور آپ کا کام! پولیس افسران اور خاص طور پر لاہور کے نئے سی سی پی او ذوالفقار حمید اس ڈاکے کے ملزموں کی گرفتاری کو اپنے لیے ایک چیلنج سمجھ کر متحرک نظر آتے ہیں، لیکن ابھی کوئی سراغ نہیں مل پا رہا۔ 

ڈاکو نہ ہوئے جنات ہوئے! اپنے ساتھ ہوئی زیادتی پہ کوئی کتنا ہی واویلا کرے، سلامتی کی ریاست میں شہری سلامتی ہی ہے کہ جس کی خیر نہیں۔ جسمانی سلامتی سے بڑھ کر انسانی سلامتی کی کوئی صورت نہیں جو اس ملک کے غریب و متوسط طبقوں کے شہریوں کو میسر ہو۔ 

البتہ سلامتی کے فزیکل تقاضوں کے شخصی اصرار پہ محمود و ایاز ہانپتے کانپتے ایک ہی صف میں ایسے کھڑے ہوئے کہ لٹیروں کے احتساب اور ووٹ کی عزت کے بیانیے شرمسار ہو کر کہیں کونے کھدروں میں منہ چھپا کے بیٹھ گئے۔ ’’سلیکٹڈ‘‘ بیچارے کو کوئی کیا دوش دے، وہ جو ’’سلیکٹر‘‘ پہ سوال اُٹھاتے نہیں تھکتے تھے، وہ بھی اُن کے حضور کورنش بجا لائے۔ 

عدالتِ عظمیٰ نے تو پارلیمنٹ کے کورٹ میں گیند پھینک کر عزت بچا لی تھی اب دُم کٹی پارلیمنٹ کرتی بھی کیا۔ جس مجلسِ شوریٰ میں سوائے شور شرابے اور گالم گلوچ کے کوئی قانون سازی کا بزنس نہیں ہوتا تھا، وہاں دس منٹ میں پھرتیوں کے مظاہرے دیدنی تھے۔ 

اس نقار خانے میں سینیٹر حاصل بزنجو جیسے راست جمہوریت پسند کی کسی نے کیا سننا تھی اور جن میں کچھ شرم باقی تھی وہ کہیں منہ چھپائے بیٹھ رہے۔ 

اب خیر سے حکومت اور اپوزیشن نیب میں دل پذیر ترامیم پہ متفق ہوا چاہتی ہیں اور قانون سازی ہے کہ باہمی اشتراک سے سرپٹ دوڑتی نظر آ رہی ہے۔ اس جمہوری تماشے میں اگر کوئی کامیڈی ہے تو وہ یہ کہ احتساب کی مذموم رسی ڈھیلی ہونے سے آگے کس کس کے لیے کیا انعام و اکرام منتظر ہیں اور اقتدار کی نئی میوزیکل چیئر گیم میں کس کس کی کیا باری لگنے والی ہے۔

 اب کوئی ایک سلیکٹڈ نہ رہا، سبھی سلیکٹڈ ہونے پہ تیار۔ کوئی اُصول باقی رہا نہ کوئی سیاسی تقسیم۔ اُن کے حضور سبھی سجدہ ریز ہوئے۔ ہائے جمہوری زوال کی ایسی قومی پذیرائی۔

اِن آنکھوں نے بڑے بڑے دلخراش مظاہر دیکھے ہیں اور اس ناچیز نے بڑے بڑے سانحوں کا سامنا کیا ہے۔ عشق کا نشہ تو کبھی کا کافور ہوا۔ لیکن آنکھوں میں ابھی بھی مینا و ساغر کی تمنا باقی ہے۔ مگر شیشہ و جام ہے کہ چکنا چور ہو چکا۔ اب کوئی کیا تمنا کرے، جب تمنا ہی غارت کر دی گئی۔

میرے گھر پہ ڈاکا پڑے یا عوام کی بڑی اکثریت کے مستقبل پہ، یہ ایک ہی خونچکاں کہانی ہے۔ جو کام ڈاکو کرتے ہیں وہی اس فریبی سرمایہ دارانہ نظام میں جاری و ساری ہے۔ ایک غیر انسانی مارا ماری ہے جس میں ایک طاقتور گروہ دوسرے سبھی لوگوں کو اُن کی محنت کے پھل اور تپسیائوں کے اجر کو اُچک لینے کی فکر میں ہے۔ 

ہیرا پھیری سے یا پھر ڈاکوئوں کی طرح بندوق کے زور پہ ہر طرح کی ڈاکا زنی۔ جب ایک پورے کرپٹ نظام کو کرپشن کے خاتمے کے قانون کے ہاتھوں خطرہ پڑا تو آپ نے دیکھا کہ اس کے غیر شرعی پہلو ہماری نظریاتی کونسل نے کس طہارت سے عیاں کیے۔ 

تبدیلی کی حکومت بھی افسروں اور سرمایہ کاروں کی بے چینی پہ بے چین ہوئے بنا نہ رہ سکی۔ اُس کا مقصود تو فقط اپنے سیاسی حریفوں کو رسوا اور ذلیل کرنا تھا۔ الزامات کے طومار گھڑے گئے لیکن ناقابلِ تردید شہادتوں کے بغیر احتساب کی کاٹھ کی ہنڈیا سرے نہ چڑھی۔ 

پھر بھلا کوئی بھی اصلی مقتدر اپنی ہی کٹھ پتلی کی نالائقیوں سے راج سنگھاسن کو خطرے میں ڈالنے سے رہا۔ جن کے دانت توڑنا تھے، توڑ دیے، جن کی آواز دبانا تھی، دبا دی گئی اور اب جنہیں مصنوعی تنفس کی ضرورت ہوگی ضرورت پڑنے پہ فراہم کر دی جائے گی۔ 

ایک طفیلی اور فریبی استحصالی نظام کیلئے بندوبست غلاماں ہی تو چاہئے۔ ہم نے کون سا آزادی کی جنگ لڑ کر آزادی حاصل کی تھی جو نو آبادیاتی نظام کی باقیات سے لڑتے۔ ستر برس سے زائد بیت چلے ہیں اس کشاکش میں۔ منزل کا نشاں ہے نہ اس کیلئے رختِ سفر کے امکاں۔ 

آخر کب تک ہماری نسلیں اپنے اپنے زخم سہلاتے ناکام و نامراد ہوتی رہیں گی۔ ناکامی و نامرادی تو کوئی اٹل مقدر نہیں جو ہمیشہ ہمارا قومی مقدر بنی رہے۔

ہر کوئی کب تک اپنے اپنے المیوں پہ آہ و بکا اور گریہ و زاری کرتا رہے گا اور اپنے اپنے زخم چاٹتا رہے گا۔ ویسے بھی لوگوں کو کسی ایک کے وزیراعظم بننے اور چلے جانے سے کیا سروکار۔ یہ سب سیاسی ڈرامہ چلتا رہے گا۔ 

لوگوں کی غرض تو فقط اپنے حالاتِ کار، حالاتِ روزگار، حالاتِ زمانہ، بچوں کی تعلیم و تربیت، دوا دارو اور اپنے بنیادی انسانی حقوق اور انسانی سلامتی سے ہے۔ اور اس سب کی مروجہ چالو نظام میں کوئی جگہ نہیں، بھلے آپ اُسے کیسا ہی سیاسی و اخلاقی لبادہ اُوڑھاتے رہیں۔ 

سینیٹر حاصل بزنجو نے کیا خوب کہا ہے کہ اسمبلیاں ہیں، عدالتیں ہیں، میڈیا ہے، پارٹیاں ہیں لیکن جو شے موجود نہیں وہ جمہوریت ہے۔ اسی طرح ملک مضبوط ہاتھوں میں محفوظ ہے لیکن شہری سلامتی مفقود ہے۔ تعلیمی ادارے کاروباری وبا بن کے پھیل رہے ہیں لیکن علم و ہنر عنقا ہوا جاتا ہے۔ 

علمائے دین کے سلسلے پھیلتے جاتے ہیں لیکن اخلاقی روایات منہدم ہوتی جاتی ہیں۔ میرے ڈاکو اگر پکڑے بھی گئے تو ڈاکا زنی ختم ہونے سے رہی۔

رہا کھٹکا نہ چوری کا، دعا دیتا ہوں رہزن کو

تازہ ترین