• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین میں اسٹیٹ بینک کی رپورٹ جو معاشی حالات کا پردہ چاک کر رہی ہے، پیش کر رہا ہوں، جس میں بتایا گیا کہ بجلی، گیس، پٹرول کے نرخ بڑھانے کے باوجود ٹیکس وصولی کی شرح گر چکی ہے۔ 2019میں غیر ملکی سرمایہ کاری 5ہزار 7سو ملین ڈالر سے آدھی ہو کر تقریباً 2ہزار 5سو ملین ڈالر رہ گئی۔ بجٹ خسارہ جو 2018میں 6.6فیصد تھا، 8.9فیصد تک بڑھ گیا ہے تجارتی خسارہ، امپورٹ کم ہو کر رہ گئی تو دوسری طرف ایکسپورٹ بھی نہیں بڑھ رہی ہے۔ سال 2019اختتام پذیر ہو چکا ہے۔ اس سال دنیا سمیت پاکستان میں بھی بہت کچھ ہوا۔ سال ختم ہوتے ہی حکومت کا پہلا ڈیڑھ سال بھی مکمل ہو گیا ہے۔ عمران خان جو عوام کو کرپشن سے نجات دلا کر خوشحالی اور ترقی کے سہانے خوابوں کے ساتھ حکومت میں آئے تھے، کی حکومت میں معیشت کا جو حال ہوا وہ خود عمران خان نے 22نومبر کو میانوالی میں خطاب کرتے ہوئے بتا دیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں یوں بات کی، یہ اللہ کا کرم ہے کہ آج ہمارا روپیہ صرف 35فیصد گرا اور ڈالر آج 155کا، یہی ڈالر 300پر بھی جا سکتا تھا۔ عمران خان نے یہ بیان دے کر روپے کی مستقبل میں گراوٹ کا بینچ مارک مقرر کر دیا ہے۔ اب اگر کسی بھی وجہ سے روپے کی قدر گری تو سٹے باز اس کو 300روپے تک لے جانے کی کوشش کریں گے۔ گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا 2019کے پہلے 6ماہ مسلسل گراوٹ دیکھی گئی اور 26جون کو روپیہ تاریخ کی کم ترین سطح پر دیکھا گیا۔ اس دن لوگوں نے ایک ڈالر 164روپے سے زائد میں خریدا۔ جولائی میں مالی سال کے آغاز سے ہی روپے کی گرتی قدر کسی حد تک روک لی گئی اور اس کی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد، قرض کی اقساط کی فراہمی کے ساتھ ہی سعودی عرب کی جانب سے ایندھن کی موخر ادائیگی پر فراہمی نے روپے کی قدر کو مستحکم کرتے ہوئے ڈالر اور دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں کمی کی جانب گامزن کیا۔ خان صاحب نے اپنی حکومت کے قیام کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد بھی مہنگائی کی ذمہ داری سابقہ حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی اس لیے آئی کہ وہ اتنا بڑا خسارہ چھوڑ کر گئے۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنا مرکزی بینکوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مرکزی بینک کے سربراہ نے ایسی پالیسی اپنائی جس نے مہنگائی کو جنم دیا۔ اسٹیٹ بینک کی ماہانہ بنیادوں پر مہنگائی سے متعلق جاری رپورٹ کے مطابق اکتوبر تک عمومی مہنگائی کی سطح 11.1فیصد تھی۔ جنوری 2019میں عام استعمال کی اشیا میں عمومی طور پر 7.2فیصد کی شرح سے اضافہ رہا، جس میں غذائی اجناس کی قیمتوں میں 2.4فیصد اضافہ، طویل عرصے تک اسٹور کی جانے والی غذائی اجناس کی قیمتوں میں 5.3فیصد اضافہ جبکہ جلدی خراب ہونے والی غذائی اجناس میں 16.7فیصد قیمتوں میں کمی تھی۔ پھر توانائی میں 21فیصد مہنگائی ہوئی جبکہ توانائی کے علاوہ مہنگائی 10.4فیصد تھی اور عام استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں عمومی اضافہ 11.1فیصد ہوا ہے، جس میں غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ 13.6فیصد ہوا ہے۔ غلے کی قیمت میں 11.5فیصد جبکہ جلد خراب ہو جانے والی غذائی اشیا کی قیمت 26.7فیصد تک مہنگائی ہو گئی۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹس کے مطابق نومبر کے دوران شہروں میں کھانے پینے کی اشیا 16.6فیصد اور دیہی علاقوں میں 19.3فیصد کی شرح سے مہنگی ہوئی ہیں۔ غربت کا تناسب جو جو ن 2018میں آبادی کا 31.3فیصد تھا، اب جون 2020تک گر کے 40فیصد تک پہنچ جائے گا۔ اس طرح پاکستان میں خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 6کروڑ 90لاکھ سے بڑھ کر 8کروڑ 70لاکھ ہو جائے گی۔ یعنی غربت میں 26فیصد کا نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پاکستان کے قرض میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اس پر عمران خان بطور اپوزیشن لیڈر کڑی تنقید کیا کرتے تھے۔ عمران خان کا دعویٰ تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد قرضوں میں کمی کریں گے مگر ان کے برسر اقتدار آنے کے بعد قرضوں میں کمی آنے کے بجائے بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

قومی اسمبلی میں پوچھے گئے سوال پر وفاقی وزارتِ خزانہ کے جواب میں بتایا گیا کہ حکومت کے قیام سے ستمبر 2019ء تک وفاقی حکومت نے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے 9ہزار 300ارب روپے کا قرض لیا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کے بھی قرض پر اثرات مرتب ہوئے ہیں اور روپے کی قدر میں گراوٹ سے ملک کو 2ہزار 600ارب روپے کا نقصان ہوا ہے اور قرض میں 28فیصد اضافہ صرف روپیہ گرنے کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اگست 2018سے ستمبر 2019کے درمیان مجموعی طور پر 10ارب 26کروڑ ڈالر کا نیا قرض لیا ہے، جس میں دوست ملکوں سے 1.8ارب ڈالر کے قرضے حاصل کیے۔اس کے علاوہ دیگر امداد اور قرض دینے والے اداروں سے 2ارب 75کروڑ ڈالر قرض حاصل کیا گیا، اس میں ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر ادارے شامل ہیں۔ پاکستان نے مارکیٹ بیس قرض بھی بڑی مقدار میں حاصل کیا ہے اور 4ارب 80کروڑ ڈالر اور کمرشل بینکوں کے کنسورشیم سے 2ارب 23کروڑ ڈالر قرض لیا ہے۔ نئے سال میں حکومت نے عوام پر ایک اور بم گراتے ہوئے ایل پی جی 25روپے کلو، پٹرول 2.61، مٹی کا تیل 3.10، ہائی اسپیڈ ڈیزل 2روپے 25پیسے اور لائٹ ڈیزل 2روپے 8پیسے مہنگا کر دیا ہے اور بجلی بھی 4روپے 88پیسے فی یونٹ بڑھا دی۔ ساتھ ساتھ بجلی کے علاوہ گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہو گیا ہے لیکن فی الحال گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

تازہ ترین