• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کیسا اتفاق ہے کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں نے سروسز ایکٹ میں ترامیم کے بل اتفاق رائے سے منظور کر لیے ہیں اور اُن پر کسی قسم کی بحث بھی نہیں کی ہے۔ پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء میں ترمیم کا بل پاکستان ایئر فورس ایکٹ 1953ء میں ترمیم کا بل اور پاکستان نیوی آرڈیننس 1961ء میں ترمیم کے بل نہ صرف قومی اسمبلی بلکہ سینیٹ میں بھی اتفاقِ رائے سے منظور کر لیے گئے جن کے تحت وزیراعظم کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کی برّی، بحری اور فضائی افواج کے سربراہوں کی مدتِ ملازمت کا تعین اور ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کر سکتے ہیں۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ یہ اتفاقِ رائے کیونکہ اور کیسے پیدا ہوا کیونکہ اس بحث کے نتیجے میں بھی اتفاقِ رائے ہی پیدا ہوگا۔ کچھ قومی معاملات ایسے ہیں، جن پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ان پر اتفاق رائے پیدا کیوں نہیں کیا جاتا۔

چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تین ارکان کی تقرری کا معاملہ کافی دنوں سے لٹکا ہوا ہے، اس پر اتفاق رائے پیدا نہیں ہو سکا۔ اتفاقِ رائے پیدا نہ ہونے کے خوف سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پارلیمنٹ سے قوانین کی منظوری کا راستہ اختیار نہیں کر رہی ہے۔ اس نے ایوانِ صدر کو آرڈیننس فیکٹری میں تبدیل کر دیا ہے۔ اپوزیشن کے دبائو پر حکومت نے چھ آرڈیننس واپس لئے ہیں۔ حکومت نے اپنے طور پر پارلیمنٹ سے قومی احتساب بیورو (نیب) آرڈیننس منظور کرانے کی کوشش کی لیکن اس میں وہ کامیاب نہیں ہوئی۔ اس پر حکومت اور اپوزیشن میں زبردست اختلافات پیدا ہوئے اور دنیا کو یہ پیغام ملا کہ نیب آرڈیننس میں ترمیم کے معاملے میں کسی بھی سیاسی جماعت کی اپنی سوچ نہیں ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ خطے کی سیکورٹی کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلح افواج کے قوانین میں ترامیم کے بل کسی بحث کے بغیر اور اتفاقِ رائے سے منظور کر لیے گئے مگر سیاسی جماعتوں کو اس بات کا بھی احساس ہونا چاہئے کہ خطے میں سیکورٹی کی موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ پاکستان میں سیاسی اور سویلین ادارے بھی مضبوط ہوں۔ اگر سویلین ادارے مضبوط نہ ہوئے تو سیکورٹی خطرات سے نمٹنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ یہ ادارے تب مضبوط ہو سکتے ہیں جب اہم قومی معاملات پر قومی سیاسی جماعتیں اتفاقِ رائے پیدا کریں۔ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کے معاملے پر شاید اس لیے اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہوتا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں یہ کوشش کر رہی ہوتی ہیں کہ اُن کے ’’اپنے‘‘ لوگوں کا تقرر ہو تاکہ آئندہ الیکشن میں اُنہیں فائدہ پہنچ سکے۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ بطور ادارہ الیکشن کمیشن کو مضبوط کیا جائے اور اس کے لیے الیکشن سے متعلق قوانین کو بہتر بنایا جائے تاکہ الیکشن میں دھاندلی یا الیکشن کو کسی بھی طرح چُرانے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ ایسی صورت میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ چیف الیکشن اور الیکشن کمیشن کے ارکان کون ہیں، لہٰذا انتخابی اصلاحات اور انتخابی قوانین میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ اس پر سیاسی قوتیں اتفاق رائے پیدا کیوں نہیں کرتی ہیں؟

حکومت نے نیب آرڈیننس میں ترامیم کا بل واپس لے لیا ہے تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ وہ اپوزیشن سے اس معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنا چاہتی ہے لیکن حکومت اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرے گی۔ حالانکہ اس کی اس ملک کو آج فوری اور اشد ضرورت ہے۔ نیب کا یہ قانون ایک غیر جمہوری اور آمرانہ حکومت کا دیا ہوا ہے، جس کے ماخذ پروڈا اور ایبڈو جیسے احتساب کے سیاہ قوانین ہیں۔ اس قانون کی اصل منشا سیاست اور سیاسی قوتوں کو کمزور کرنا ہے۔ پاکستان کی عدالتوں میں بھی نیب کے مقدمات سماعت کے دوران فاضل جج صاحبان نے اپنے ریمارکس میں نیب آرڈیننس کی خامیوں کی واضح الفاظ میں نشاندہی کی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی نیب آرڈیننس کی کئی شقوں کو اسلام اور شریعت کے بنیادی اصولوں کے خلاف قرار دیا ہے۔ اگر مہذب دنیا کے قوانین اور نظام ہائے انصاف کا مطالعہ کیا جائے تو نیب آرڈیننس انصاف کے بنیادی تقاضوں سے متصادم نظر آتا ہے۔ اوّل تو نیب کے ادارے اور نیب آرڈیننس کو ختم ہونا چاہئے یا کم از کم اس میں ایسی ترامیم لانی چاہئیں جن سے ملزم کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ ایسے قوانین انصاف کا متوازی نظام بنا دیتے ہیں جو کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔ اس معاملے پر قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ صرف تاجروں اور بیورو کریسی کو وہ رعایتیں دینا انصاف کا قتل ہے جو دوسروں کو میسرنہ ہوں۔

نیب آرڈیننس کے ساتھ ساتھ انسدادِ دہشت گردی کے قوانین پر نظر ثانی یا اُنہیں ختم کرنے کی بھی ضرورت ہے جن کی وجہ سے ایک اور متوازی نظام قائم ہو گیا ہے۔ یہ قوانین غیر معمولی حالات کی وجہ سے بنائے گئے اور ان کی وجہ سے غیر معمولی حالات سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ خصوصی عدالتوں کے قیام پر بھی نظر ثانی کرکے ان کے بارے میں بھی اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ ہونا چاہئے۔ مذکورہ بالا تمام معاملات ایسے ہیں جن پر فوری اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ ان معاملات پر اتفاق رائے جمہوریت کے استحکام اور سویلین بالادستی کے لیے بھی ضروری ہے۔ اگر ان معاملات یا ان جیسے دیگر معاملات پر سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا نہ ہوا تو پھر صرف اتفاق سے ہی اتفاقِ رائے پیدا ہوگا۔

تازہ ترین