برطانیہ رواں ماہ کی 31 تاریخ کو یورپی یونین سے عملاً نکل جائے گا اور اس کے بعد برطانیہ کو گیارہ مہینے کا وقت دیا جائے گا جس میں بریگزٹ یعنی برطانیہ کے یورپی یونین سے باہر آنے کے بعد یورپ سے تعلقات کے بارے میں قواعد و ضوابط طے ہوں گے ۔
لیکن یہاں تک پہنچنے کے لئے برطانیہ اپنی سیاسی تاریخ کے جس بحران سے گزرا اور جو شدت اس کی پارلیمنٹ میں محسوس کی گئی اس کی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی۔
23جون 2016ء سے آج تک برطانوی سیاست مسلسل اضطراب کا شکار رہی اور یہ اضطراب تین وزرائے اعظم کی قربانی لیکر آخرکار 31جنوری 2020کی تاریخ تک منتج ہوا یعنی پارلیمنٹ ہاؤس میں غدار، ڈرپوک، ذلت آمیز، بغاوت، ہتھیار ڈالنے والا، مردہ پارلیمنٹ، غیر اخلاقی اور خطرناک وزیراعظم جیسے الفاظ شامل تھے جو بہرحال برطانیہ جیسے جدید مہذب معاشرے کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن جو لندن کے میئر بھی رہے ہیں اور صحافی بھی ہیں، نے اپوزیشن بلکہ اپنی جماعت کے ایک حصہ کی طرف سے بھی سخت تنقید اور فقرہ بازی کا سامنا کیا۔ نئے الیکشن بھی کرائے اور ہوشربا حد تک کامیابی حاصل کی لیکن وزیراعظم یا برطانیہ کی مشکلات ابھی تک کلی طور پر ختم نہیں ہوئیں کیونکہ برطانیہ نے اب وہ ’ڈیل‘ تیار کرنی ہے جس کے تحت برطانیہ یورپی یونین سے باہر نکل کر آزادانہ طور پر اپنے قوانین بنانے میں آزاد ہوگا۔
اب جب برطانیہ یورپی اتحاد سے باہر ہو جائے گا تو اس کے ساتھ ہی وہ سہولتیں جو یونین کے اندر رہتے ہوئے برطانیہ کو حاصل ہیں، فوری طور پر ختم ہو جائیں گی۔
اس ضمن میں بھی دو آراہیں، ایک یہ کہ برطانوی معیشت کو بہت نقصان پہنچے گا جبکہ دوسرے نقطہ نظر کے مطابق ایسا نہیں ہوگا بلکہ برطانوی معیشت زیادہ ابھرے گی۔ اب اگلے چند مہینوں یا ہفتوں میں برطانیہ کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہوگا وہ برطانیہ کی وحدت کو برقرار رکھنے کا ہوگا کیونکہ اسکاٹ لینڈ جو پچھلے چار سو سال سے طوہاً و کرہاً انگلینڈ کے ساتھ نبھا رہا ہے، اپنی آزادی کیلئے ہمہ وقت کوششیں کرتا رہتا ہے۔
6سال پہلے ایک ریفرنڈم بھی ہوا جس کے نتائج اسکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی پسند قوتوں کیلئے خاصے حوصلہ افزا تھے لیکن پھر بھی ’’اسکاٹش نیشنل پارٹی‘‘ (ایس این پی) کو کامیابی نہیں ہوئی تھی لیکن اب بریگزٹ کے مسئلہ پر اسکاٹ لینڈ کے عوام نے یورپی یونین کے اندر رہنے کے حق میں ووٹ دیا ہے بلکہ اسکاٹش پارٹی کی فرسٹ منسٹر نکولا سٹروجن بہت عرصہ سے مرکزی حکومت کو یہ عندیہ دے چکی ہیں کہ یورپی اتحاد سے نکل کر حکومت اسکاٹ لینڈ کے عوام کے ووٹوں کی بے قدری کرے گی۔
نکولاا سٹروجن بارہا یہ اعلان کر چکی ہیں کہ وہ آزاد اسکاٹ لینڈ کیلئے ایک بار پھر ریفرنڈم کروانے کا ارادہ رکھتی ہیں اور ان کی پارٹی نے کئی سالوں سے آزادی کیلئے ایک زبردست مہم بھی چلا رکھی ہے۔
یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ حالیہ الیکشن میں ایس این پی نے گزشتہ الیکشن سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں جو یقیناً اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی کی مہم میں معاون ہوں گی۔
اسکاٹ لینڈ کی طرح آئرلینڈ بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔ شمالی آئرلینڈ جو برطانیہ کا حصہ ہے جبکہ ریپبلک آف آئرلینڈ ایک علیحدہ ملک ہے لیکن ان دونوں آئر لینڈز کی سرحدیں ملتی ہیں، اب معاملہ یہ ہے کہ دونوں آئرلینڈ کے درمیان بارڈر پوسٹس ہوں گی یا نہیں؟
اب یہاں یہ خطرہ بھی بدستور رہے گا کہ آنے والے وقت میں شمالی آئرلینڈ بھی آزادی کا اعلان نہ کر دے، اب بڑا سوال برطانیہ کی اثر انداز ہونے والی قوتوں خصوصاً وزیراعظم بورس جانسن کے لئے یہ ہوگا کہ کیا بورس جانسن برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تجارت جاری رکھنے کیلئے فوری اور جامع معاہدے کا وعدہ پورا کریں گے یا وہ بریگزٹ کے بعد عبوری مدت میں مزید توسیع کی درخواست پر مجبور ہوں گے اگرچہ وزیراعظم نے واضح اعلان کیا ہے کہ وہ 2020ء کے آخر تک نیا تجارتی معاہدہ پیش کریں گے اور یورپی یونین کو مزید توسیع کیلئے نہیں کہیں گے۔
لیکن برطانیہ کے زیادہ تر ماہرین معیشت اس بات پر متفق ہیں کہ برطانیہ کے شایانِ شان ایسا معاہدہ جو اسے یورپ کے قریب ترین شراکت داروں میں شامل کروائے، اس کیلئے اضافی وقت کی ضرورت ہوگی۔
وزیراعظم بورس جانسن کی لندن کے میئر ہونے سے لے کر وزیراعظم بننے تک اور پھر اسمبلی تحلیل کرکے دوبارہ الیکشن کروانے تک کا ریکارڈ دیکھا جائے تو لگتا ہے جس طرح انہوں نے 600؍ کے برطانوی ایوان میں سے 368؍ نشستیں حاصل کر کے کنزرویٹو پارٹی کو شاندار فتح دلوائی ہے اسی طرح وہ ’ڈیل‘ کے امتحان میں بھی سرخرو رہیں گے لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ اس قسم کے تجارتی معاہدے اس قدر آسانی سے طے نہیں پا سکتے۔
اس قسم کے معاہدوں میں سالہا سال لگنا معمول کی بات ہوتی ہے نیز معاہدے کے دوران بہت سے معاملات میں برطانیہ یورپی یونین کی شرائط ماننے پر مجبور ہوگا اور اگر کسی وجہ سے برطانیہ بغیر ڈیل کے یورپی اتحاد سے باہر آیا تو یہ صورتحال اس کیلئے مزید خطرناک ہو گی کیونکہ یورپی یونین اور ’’ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن‘‘ کی شرائط علیحدہ علیحدہ ہوں گی۔
ممکن ہے امیگریشن کی شرائط بھی علیحدہ مسئلہ پیدا کریں کیونکہ ایک طرف اکیلا برطانیہ اور دوسری طرف یورپی اتحاد کے 27ملک۔ 12دسمبر 2019 کے انتخابات میں گوکہ غیر متوقع طور پر دائیں بازو کی ٹوری پارٹی نے تاریخی فتح تو حاصل کی ہے جس پر روایت پسند ٹوریز خوشی سے ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔
فنانشل ٹائمز جیسا اخبار پائونڈ کی اونچی اڑان اور معیشت کی بہتری کی نوید دے رہا ہے۔ بورس جانسن کے حامی پریس نے تو جیسے میدان ہی مار لیا ہے لیکن اس کے باوجود بقول علامہ اقبال؎
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
لہٰذا بعض برطانوی پارلیمنٹیرین کے مطابق ’’خطرناک وزیراعظم‘‘ آنے والے متوقع بریگزٹ بحران سے کس طرح نبرد آزما ہوتے ہیں، یہ آنے والے چند مہینے میں سامنے آئے گا۔