• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے گورنر ہائوس لاہور میں بلوچستان کے قائم مقام گورنر عبدالقدوس بزنجو کی میڈیا کے سینئر افراد کے ساتھ ایک میٹنگ کا اہتمام پنجاب کے ہر دلعزیز گورنر چوہدری محمد سرور نے کیا۔ اس موقع پر پنجاب کے گورنر چوہدری محمد سرور نے بلوچستان کے قائم مقام گورنر کو خوش آمدید کہتے ہوئے چند اہم باتیں یونیورسٹیوں کے ماحول اور تعلیمی سرگرمیوں کے حوالے سے کیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی اور دیگر یونیورسٹیوں نے صوبہ بلوچستان اور دیگر صوبوں کے طلبہ کو داخلہ دینے کا سلسلہ شروع کیا اور ہم صوبہ بلوچستان کے طلبہ کیلئے مزید سیٹوں کا اضافہ کرنے کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں لیکن بلوچستان کے بعض طلبہ نے یہاں آکر پریشر گروپ بنا لیے اور یونیورسٹی کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اور نظم و ضبط خراب کیا۔ چنانچہ میں اس چیز کو بالکل برداشت نہیں کروں گا۔ میں نے پانچ وائس چانسلروں پر مشتمل ایک کمیٹی بھی بنائی ہے جو اس قسم کے واقعات کی انکوائری کرے گی اور ماضی میں جو واقعات ہوئے، ان کے بارے میں بھی رپورٹ دے گی۔ بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے، وہاں سے آنے والی طالبات کیلئے بھی ہم مختلف یونیورسٹیوں میں سیٹیں دیں گے لیکن ہم کسی سیاسی تنظیم، کسی سیاسی جماعت اور طلبہ تنظیم کو یونیورسٹیوں میں دخل اندازی کی بالکل اجازت نہیں دیں گے۔ نظم و ضبط کے حوالے سے کوئی غیر قانونی سرگرمی برداشت نہیں کی جائے گی اور ہم ایسا کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیں گے، وہ چاہے کسی بھی صوبے سے تعلق رکھتے ہوں، چاہے کسی بھی تنظیم سے تعلق رکھتے ہوں اور بلوچستان کے قائم مقام گورنر و اسپیکر سے کہوں گا کہ وہ بلوچستان کے طلبہ کو نظم و ضبط اور قواعد کا پابند بنانے کیلئے ان سے بات کریں۔ اس موقع پر بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر اور قائم مقام گورنر عبدالقدوس بزنجو نے پنجاب کے گورنر چوہدری محمد سرور سے دو مرتبہ درخواست کی کہ ذرا ہاتھ نرم رکھیں جس پر گورنر پنجاب مسکرا دیے۔

ہمیں اس بات پر حیرت ہوئی کہ جب بھی طلبہ کا کوئی گروپ نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرتا ہے تو جن علاقوں، سیاسی جماعتوں، گروپوں سے ان کا تعلق ہوتا ہے وہ رعایت اور نرمی کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں۔ حالانکہ انہیں ان پر دبائو ڈالنا چاہئے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے آئے ہیں اور پنجاب یونیورسٹی نے انہیں جو تعلیمی سہولت دی ہے، وہ لائق تحسین ہے۔

اب دیکھ لیں کچھ عرصہ قبل پنجاب یونیورسٹی اور قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں اسٹوڈنٹس کے انہی پریشر گروپوں کے درمیان تصادم ہوا جس میں کئی طلبہ زخمی ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی میں دوسرے صوبوں کے طلبہ کو داخلہ دینے کا آغاز پی یو کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے کیا تھا۔ انہوں نے 2012ء میں بلوچستان کےطلبہ کیلئے خصوصی اسکیم شروع کی تھی، اس اسکیم کا بنیادی مقصد پنجاب اور بلوچستان کے طلبہ کو قریب لانا تھا۔ اس وقت پنجاب یونیورسٹی میں ساڑھے تین، چار سو کے قریب بلوچستان کے لڑکے اور لڑکیاں زیر تعلیم ہیں۔ ان طلبہ طالبات کو بغیر میرٹ کے داخلہ دیا گیا تھا، اس میں کچھ ایسے طلبہ کے گروپ بھی آ گئے جن کی دلچسپی تعلیمی سے زیادہ غیر نصابی سرگرمیوں میں تھی جس کی وجہ سے پنجاب یونیورسٹی میں جھگڑے بھی ہوئے۔ یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے کہ بلوچستان کے اصل بلوچ اسٹوڈنٹس کے علاوہ کافی تعداد میں پختون اسٹوڈنٹس بھی ہیں۔ بعض نے اپنے پریشر گروپ بھی بنا لیے ہیں، موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد اختر کو چاہئے کہ وہ بلوچستان کے اسٹوڈنٹس کو داخلہ دیتے وقت ایک میرٹ پالیسی اور انٹری ٹیسٹ شروع کرائیں۔ حکومت بلوچستان سے باقاعدہ طور پر بلوچ اسٹوڈنٹس کے نام منگوائے جائیں اور پھر انٹری ٹیسٹ اور انٹرویو کی بنیاد پر ان کو داخلہ دیا جائے تاکہ جو اسٹوڈنٹس واقعی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں صرف ان کو داخلہ مل سکے اور صرف جینوئن اسٹوڈنٹس یہاں آئیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ بعض طلبہ جو تعلیم کے بجائے دوسری سرگرمیوں میں ملوث ہیں، پر نظر رکھی جائے کہ ان کے اخراجات کس طرح پورے ہو رہے ہیں۔ اگر وہ کوئی تقریب کراتے ہیں تو اس کیلئے اخراجات کہاں سے آتے ہیں۔ بلوچستان کے قائم مقام گورنر عبدالقدوس بزنجو کو پنجاب سے زیر لب کچھ گلے شکوے بھی تھے جن کا اظہار انہوں نے کیا اور کچھ لمبی بات کہہ کر ٹال گئے۔

ہمارے اس سوال پر کہ ’کیا بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں بھی پنجاب کے طلبہ کیلئے کوئی ایسی اسکیم ہونی چاہئے‘ پر انہوں نے کہا کہ ہمیں پنجاب سے طلبہ نہیں بہترین اساتذہ کی ضرورت ہے۔ ان کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ بلوچستان کی ترقی میں پاکستان کی ترقی ہے مگر سوال یہ ہے کہ نون لیگ کی حکومت میں وہاں کے ایم پی اے، ایم این اے حضرات کو جو ترقیاتی فنڈز ملے، وہ اربوں روپے تھے، وہ کہاں گئے؟ وہ بلوچستان میں ترقیاتی کاموں پر کیوں نہیں لگائے گئے۔ اس کا بھی حساب ہونا چاہئے۔ انہوں نے بتایا کہ گوادر میں پنجاب کے لوگوں نے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے، وہاں بے شمار زمینیں پنجاب کے لوگوں کی ہیں۔

موجودہ حکومت کے حوالے سے صحافیوں کے کئی سوالات کو وہ ٹال گئے۔ انہوں نے اس بات کا گلہ کیا کہ سوئی سے جو گیس برآمد ہوئی اس کا بلوچستان کو پورا حق نہیں ملا جبکہ پنجاب اور دیگر صوبوں کی حکومتوں نے اس گیس سے بے شمار پیسہ کمایا۔ ان کا یہ کہنا درست ہے کہ بلوچستان کو ترقی دینے میں پاکستان کی ترقی ہے۔ البتہ صوبہ بلوچستان میں کچھ ہمسایہ ممالک اور دوسری قوتوں کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں جن کو حل کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ اگر امریکہ ایران پر حملہ کرتا ہے تو ایسی صورت میں بلوچستان پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس حوالے سے موجودہ حکومت کو بڑی گہرائی کے ساتھ حالات کا جائزہ لینا چاہئے۔

تازہ ترین