• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا کو غربت کا سامنا ہے۔ براعظم افریقہ کا ہر ملک بھوک سے بلک رہا ہے۔ دوسری طرف سنگدل ترقی یافتہ ممالک کی احساس انسانیت سے عاری ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں۔ جیبوتی کے لاکھوں لوگ لقمے لقمے کی خاطر جان سے گزر جا تے ہیں جبکہ ملٹی نیشنل کمپنیاں لاکھوں ڈالر خرچ کرکے کروڑوں ٹن خوراک سمندربیچ ڈمپ کردیتی ہیں۔ ہر ایک کمپنی اپنا سالانہ ہدف پورا کرنے کے لئے کبھی افریقی ممالک کا رخ نہیں کرتی،بلکہ انسانوں کے بجا ئے مچھلیوں کو کھلادیتی ہے۔ خوراک کے ان عالمی ٹھیکیداروں کی استعماری روش کے سبب ایک نیا عالمی بحران دنیا کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ اس بحران کا سرنامہ لکھا جاچکاہے۔ ایک حیران کن حقیقت یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں کھانے پینے کی چیزیں بھی راکٹ ، میزائل اور ایٹم بم سے کہیں کارگر ہتھیار سمجھی جاتی ہیں۔ دنیا بھر کو معاشی تنگی اور اقتصادی کساد بازاری کا شکوہ ہے، لیکن ملٹی نیشنل کمپنیاں ، دنیا کی رگوں سے ایک ایک پیسہ چوسنے والی جونکیں کبھی بدحالی کا شکار نہیں ہوتیں۔ اس وقت دنیا بھر میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی تعداد ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں تک جاپہنچی ہے۔ ان ہزاروں کمپنیوں میں سے 37ہزار کا تعلق دنیا کے صرف 14امیر ترین ممالک سے ہے، اس سے مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے سر کردہ تمام کمپنیاں امریکہ کی ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں پھیلی کمپنیوں میں سے پہلی تین بڑی کمپنیاں ہیں۔ ان تینوں کا تعلق امریکہ سے ہے، اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ تینوں کمپنیاں یہودیوں کی ہیں۔ ان کمپنیوں کامجموعی سرمایہ 265ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ان کے نفع سے اسرائیلیوں کی بندوقوں کے لئے گولیاں خریدی جاتی ہیں جو نہتے اور بے گناہ فلسطینیوں پر برسائی جاتی ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء ایک مشہور ملٹی نیشنل کمپنی کی پہچان ہیں۔ اس وقت یونیورسٹیاں ،اسپتال ،ہوائی جہازاور تمام ہوٹلوں میں یہی نظام سب سے زیادہ مقبول ہے۔ مسلمانوں کے دل سے نفرت ختم کرنے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں۔ قرآنی آیات و احادیث کو اس کے اشتہارات پر چھاپا جاتا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کے ریسٹورنٹ کا رخ کریں اور امریکہ کی ترقی میں حصہ ڈالیں۔ اسرائیلی اخبار لکھتا ہے:’’ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ہر سال مسلم ممالک سے اربوں ڈالر کا منافع حاصل ہوتا ہے۔ اگر وہاں پر ان مصنوعات کا بائیکاٹ ہوگیا تو اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ جائے گااور امریکہ برباد ہوجائے گا۔‘‘ چند سال پہلے اسلامی ممالک نے جب امریکی و مغربی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا تو انہیں اپنی شہ رگ ڈوبتی محسوس ہوئی۔ عالم اسلام سے ماہانہ اربوں سمیٹ کر لے جانے والی کمپنیاں دو دن میں خاک چاٹتی نظر آئیں۔ایک امریکی مصنف ایرک اسکولسر نے لکھا تھا فاسٹ فوڈ نے امریکی باشندوں کو پوری طرح اپنے شکنجے میں کس لیا ہے۔امریکہ میں موٹاپے کی تازہ لہرمیں انہی کھانوں کا بنیادی کردار ہے۔ تہذیبی و معاشرتی اثرات کے ساتھ ساتھ ان کھانوں کا معیشت پر بھی بہت برا اثر پڑا ہے۔اس وقت پورے امریکہ میں جتنی رقم فاسٹ فوڈ پر خرچ کی جاتی ہے اس کا ایک حصہ بھی لوگ تعلیم ،کتابوں اور رسائل کی خریداری پر خرچ نہیں کرتے یہاں تک کہ گاڑیوں پر بھی اتنی رقم نہیں خرچ کی جاتی۔امریکہ کی مجموعی صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ امریکہ کی 80فیصد تجارت ملٹی نیشنل کمپنیاں کرتی ہیں۔ امریکہ کی بڑی ایک سو کمپنیوں نے 1995میں 20کھرب ڈالر کا نفع کمایا۔ اس نفع کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ پاکستان کا اس سال کا بجٹ 32کھرب 59ارب روپے تھاجبکہ صرف 100کمپنیوں کا پندرہ سال پہلے کا نفع 164کھرب روپے تھا۔ دنیا کی پہلی پچاس ملٹی نیشنل کمپنیوں میں سے 43کا تعلق امریکہ سے ہے۔ دنیا کی 500بڑی کمپنیاں قابل ذکر ہیں، ان پانچ سو میں سے 414صرف تین بڑے استعماری ممالک کی ہیں، یعنی امریکہ کی 161، جاپان کی 128، اور یورپ کی 125کمپنیاں ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ دنیا کی اصل حکمرانی کس کے پاس ہے؟ اس وقت دنیا کی اصل مالک یہی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں۔ دنیا کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پھندے میں پھانسنے کے لئے آزادانہ تجارت کا نعرہ لگایا گیا۔ اس نعرے کا مقصد ایشیائی ممالک سے رہا سہا سرمایہ بھی لوٹنا تھا۔ صرف اسی سے اندازہ لگائیے کہ آپ جب کمپیوٹر خریدنے کے لئے بازار جاتے ہیں تو دکاندار سے ایک خاص کمپنی کا کمپیوٹر طلب کرتے ہیں۔ آپ کمپیوٹر خریدتے ہیں اور گھر کی راہ لیتے ہیں، مگر ایک لمحے کو رکیے ، سوچیے کہ آپ کے اس کمپیوٹر خریدنے سے ملٹی نیشنل کو کس قدر فائدہ پہنچا؟ کمپیوٹر بنانے کا پہلا مرحلہ امریکہ کی ریاست کیلی فورنیامیں مکمل ہوجاتاہے۔ اس کے بعد کمپیوٹر کا بیرونی ڈھانچہ برازیل میں بنتاہے، پھر اسی کمپیوٹرکے بڑے پرزے ارجنٹائن میں بنتے ہیں اور چھوٹے پرزے ’تائیوان ‘ میں۔ آخرمیں بکنے کے لئے پاکستان بھیج دئیے جاتے ہیں۔
یہ آزادانہ تجارت کی کرم فرمائی ہے کہ پاکستان میں بکنے والے ایک کمپیوٹر میں سے امریکہ، برازیل،ارجنٹائن اور تائیوان نفع کماتے ہیں۔ ذرا مزید آگے بڑھ کر دیکھئے! صرف برگر تیار کرنے اور پرکشش انداز میں پیش کرنے کے لئے یونیورسٹی بنائی گئی ہے۔ ـ’’ہیمبر گر ‘‘ نامی یونیورسٹی بنانے کا واحد مقصد اس ملٹی نیشنل کمپنی کے کاروبار کو دنیابھرمیں پھیلانا تھا۔ یہ یونیورسٹی 1961میں فریڈ ٹرنر نے بنائی جو کہ میکڈونلڈ کے سابقہ اعلیٰ عہدیدار رہ چکے ہیں۔اب تک اس یونیورسٹی سے 80ہزار افراد پیزا سازی کی تربیت لے چکے ہیں۔ سالانہ تقریبا 7000نوجوان یہاں سے سند حاصل کرتے ہیں۔ پوری دنیا میں جہاں کہیں اس کے برگر بیچے جاتے ہیں وہاں اس یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ افراد بھی لازما ہوں گے۔ دنیاکے کسی کونے میں ممکن نہیں کہ اس یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ افراد کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اس میں اچھا عہدہ حاصل کرسکے۔ برگر بنانا سکھانے والی اس یونیورسٹی میں 26زبانوں میں ترجمہ کرنے والے مترجمین بھی رکھے گئے ہیں۔ برگر کی یونیورسٹی میں ان مترجمین کا کیا کام؟ ماناکہ وہاں تعلیم و تربیت کے لئے پروفیسر حضرات کا ہونا ضروری ہے، لیکن یہ مترجمین کا کیامطلب؟ اندازہ لگائیے کہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کا شکنجہ مضبوط کرنے کے لئے یونیورسٹی تک بناڈالی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ دنیا بھرکی ثقافت جاننے اور اس کے مقابلے میں امریکی ثقافت کو فروغ دینے کے لئے مترجمین کی فوج بھرتی کی گئی ہے۔ یہ مترجمین دنیا بھر میں بدلتے حالات کی خبر دیتے ہیں اور ہر ملک کی اندرونی صورتحال سامنے رکھ کر وہاں استعماری عزائم پورے کرنے کے منصوبے بناتے ہیں۔
یہ بات کوئی بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ گلوبلائزیشن ، کھلا پن، معاشی سدھار اور آزاد منڈی جیسی اصطلاحات کا مقصد ترقی پذیر ممالک کو بازار کی خواہشوں کے حوالے کرکے ان کے گرد سامراج کا گھیرا تنگ کرنا ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آج کی 200 بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں سے 195کا تعلق سابق سامراجی ممالک سے ہے۔ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بس خدائی کا دعویٰ نہیں کیا، مگران کے اثاثے اور ان کی ہوس خدائی کے دعویداروں نمرود، فرعون اور شدّاد کو بھی شرمائے دے رہی ہے۔ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں چاہیںتو یہ دنیا صرف تیس منٹ میں تباہ ہوجائے۔ اگر پانچ سو ملٹی نیشنل کمپنیز میں سے چند کمپنیاں اتحاد کرلیں تو وہ دنیا کے آدھے سے زیادہ وسائل پر قابض ہوسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر پوری دنیا کے برقی نظام کی مالیت 188 ارب ڈالر ہے، تین کمپنیاں مل کر یہ سارا نظام خرید سکتی ہیں۔ دنیا بھر میں ڈاک کے نظام کی مالیت 113 ارب ڈالر ہے۔ پانی صاف کرنے کا نظام 58 ارب ڈالر، ریلوے کا نظام 109 ارب ڈالر، دنیا کی زیر کاشت زمین 178 ارب ڈالر، پوری دنیا کی صحت اور صفائی کا نظام 211 ارب ڈالر، اور دنیا کی تمام بڑی شاہراہیں 186 ارب ڈالر میں خریدی جاسکتی ہیں۔ دنیا کے یہ سارے اثاثے پانچ سو کمپنیوں کی فہرست میں شامل پہلی 20 کمپنیاں خرید سکتی ہیں، اور خدانخواستہ اگر ایسا ہوگیا تو پھر اگر یہ کمپنیاں چاہیں گی تو بلب روشن ہوں گے،ڈاک کی ترسیل ہوگی، ٹرین اپنا سفر طے کرے گی، زمین پر گندم کاشت ہوگی اور سڑک پر پہیہ چلے گا، جب یہ کمپنیاں چاہیں گی تو مریض کا علاج ہوگا،گویا پوری دنیا ان کمپنیز کے مالکان یا حصہ دار افراد کے اشارہ ابرو کی محتاج ہوجائے گی۔ استعماری ملٹی نیشنل کمپنیاں کبھی بھی انسانیت کی بھلائی نہیں سوچ سکتیں۔ یہ اپنے بچے ہوئے کھانے کو کھلے سمندر میں مچھلیوں کی خوراک تو بناسکتے ہیں، لیکن فقر و فاقہ سے بلکتے کروڑوں انسانوں کو ایک لقمہ تک مفت نہیں دے سکتے۔ کسی بھی ملک میں جاکر تحقیق کرلیجیے عالمگیریت کے بہانے سے غریب ممالک کے بچے کھچے وسائل پر قبضہ جمایا جارہاہے۔
تازہ ترین