• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ختم تو سیاسی ولی اللّٰہ اور اُس بے چاری ہی پر کروں گا مگر شروع احسن اقبال سے کروں یا رانا ثناء اللّٰہ سے؟ آغاز رضا ربانی سے ہو یا پھر خورشید شاہ سے؟ کیونکہ ؎

ذکر ِ شب ِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی

میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی

بات فرد کی ہو یا بیانیے کی، بات بہرصورت جمہوریت سے شروع ہوتی ہے اور جمہوریت پر ختم ! اس میں کوئی شک نہیںکہ ہمارے کئی سابق اور موجودہ حکمرانوں، سیاست دانوں اور بیوروکریسی کا بدعنوانی سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیںکہ بعد از جنرل ضیاءالحق، بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی دو دو بار کی حکومتوں کو بدعنوانی کے ناگ نے ڈسا۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار رہے جب جب بھی یہ برسرِ اقتدار رہے۔ ایک دوسرے کے خلاف انہوں نے کھل کر کیس بنائے جن سے فائدہ ماضی میں پرویز مشرف نے اٹھایا اور آج خان حکومت اٹھا رہی ہے۔ حکومتی پارٹیوں کی طرف ’’ہجرت‘‘ کی خاطر جانا یا قاف لیگ و پیٹریاٹ بنوانا مسلم لیگیوں اور جیالوں کا پرانا وتیرہ تھا، گر آج کوئی متوالے اور جیالے تحریک انصاف میں موجیں مار رہے ہیں تو کوئی زیادہ حیرت والی بات نہیں!

آج کل عام آدمی اور تجزیہ کار بہت بول رہے ہیں، اور کچھ میری طرح کے بھی ہیں جو بہت چُپ ہیں۔ بولنے والوں نے دو نتائج نکالے ہیں۔ ایک یہ کہ تسلسل کے ساتھ بگڑتی بین الاقوامی صورت حال اور بالخصوص ہمارے دل کی قربتوں میں بستے ایران اور دماغ میں بسیرا کرنے والے امریکہ کے آسمانوں پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں جو آتش و آہن کی بارش کا باعث بن سکتے ہیں، علاوہ ازیں بھارت کا سیکولرازم کا بت پاش پاش ہو گیا، اور ہندوازم کا جن بوتل سے باہر آچکا ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ احسن اقبال اور رانا ثناءاللہ یا رضا ربانی و خورشید شاہ بھلے ہی اپنے کردار اور دلائل یا قسموں اور ارادوں سے عہد حاضر کے حکومتی ہتھکنڈوں کو بےثمر اور بےاثر ثابت بھی کردیں، مگر وہ کمی یا بیماری تو دور نہیں کی جاسکتی کہ ماضی میں جماعتوں کو سیاسی قائدین انسٹیٹیوشنز نہیں بنا سکے ! بحث تو اس بیماری پر بہت ہوسکتی ہے کہ وجہ بیماری کیا اور کون رہے، مگر آج نہیں۔ آج فقط اتنا ہی کہ احسن اقبال جو الزامات سمجھنے اور نیب لگانے سے قاصر ہے جب وہ رہائی پائیں گے تو کیا سوچیں گےکہ وہ کسی کے ابا نہیں ہیں یا بیٹا نہیں؟ عالم یہ ہے کہ احسن اقبال پر کرپشن ثابت ہوتی دکھائی نہیں دے رہی، مسئلہ یہ بھی کہ آمدن سے زیادہ اثاثے ان کے پاس نہیں، نارووال میں ایک گھر مکمل کرنے میں کئی برس لگا دئیے، اسلام آباد میں وہ کرایہ پر رہ رہے ہیں۔ پس ایک ہی کیس ممکن ہے کہ وہ نون لیگی ہیں یا پھر قانون کو سمجھانے و سلجھانے کیلئے کہہ دیا جائےکہ اختیارات سے تجاوز کیا گیا ہے۔ اوپر سے اب احسن اقبال کو بھی کون سمجھائے، وہ ٹھہرے پروفیسر، جب پوچھا گیا کہ آپ حالیہ ترمیم ’’شمیم‘‘ سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں تو پروفیسر سے وکیل تک نے بھری عدالت میں ناں کر دی۔ اجی پروفیسر صاحب! کیوں جانا جے کھیڑیاں دے نال؟ ستر سال کی عمر اور طویل مشقتوں کے بعد رانجھن اب مجھیاں تو چرانے سے رہا، پارٹی اور اولاد ہی بچا سکتا ہے، نا؟ سو بچ جاؤ ! ورنہ اسمبلی بھی آفریدی وزیر کی قسموں کو مانے گی اور رانا ثناءاللہ کی قسموں کو پارلیمانی گناہ تصور کیا جائے گا۔ بہرحال رانا ثناءاللہ کا منشیات کیس کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ ایک جائز مطالبہ ہے جو احتساب کے حساب کتاب کیلئے موزوں رہے گا۔ اس احتساب سے رضا ربانی کا ایک محبت نامہ یاد آگیا جو انہوں نےدسمبر 2016 کے آخر میں بنام خواص و عوام لکھا تھا۔ خط کیا ایک تھیسس تھا وہ، گر نون لیگ نے ان وقتوں میں پڑھا ہوتا تو آج کی لمبی پڑھائیوں سے جان چھوٹی ہوتی۔ ربانی تجاویز کے مطابق 12 ممبران پر مشتمل ایک وفاقی کمیشن برائے احتساب ہو جس کی مدت 3 سال ہونی چاہئے۔ 2 ممبران قومی اسمبلی، 2ممبران سینیٹ سے ہوں جن میں ایک ایک حکومتی اور ایک ایک اپوزیشن کے نمائندہ ہو۔ ایک ممبر سپریم کورٹ کا حاضر سروس جسٹس ہو جس کی منظوری چیف جسٹس آف سپریم کورٹ دیں۔ اسی طرح ایک ممبر لیفٹیننٹ جنرل لیول کا حاضر سروس ہو جس کی منظوری جوائنٹ چیفس آف اسٹاف دے۔ ایک سول سروسز کا نمائندہ 22 ویں گریڈ کاآفیسر ہو۔ سول آرمڈ فورسز اور پولیس کا ایک نمائندہ بھی ممبر ہو۔ بار ایسوسی ایشنز کا ایک نمائندہ۔ ایک نمائندہ جرنلسٹس، ایک نمائندہ پروفیشنلز کا بھی ہو۔ فیڈرل کمیشن فار اکائونٹبلیٹی (FCA) کے تمام ممبران 3سال کے لئے اپنا چیئرمین منتخب کریں۔ آہ! اس کے لئے یقیناً نیب آرڈیننس اور ایف آئی اے ایکٹ 1974ءمیں ترامیم لانا ضروری تھیں مگر یہاں سیاست دان ’’خود‘‘ ایک صفحہ پر آتے کب ہیں؟واضح رہے اس وقت چھ ادارے ہیں جو انسداد بدعنوانی کے لئے ’’سرگرم عمل‘‘ ہیں جن میں سے 2 کا تعلق مرکز اور 4 کا صوبوں سے ہے۔ علاوہ بریں دو عدالتیں بھی ہیں ایک احتساب عدالتیں اور دوسری صوبائی سطح پر اسپیشل اینٹی کرپشن کورٹس۔

بہت بولنے والوں کی بات تو اوپر کردی۔ ہاں، وہ میری طرح کے بہت چپ رہنے والوں کی خاموشی کہتی ہے کہ اگر مسئلہ احتساب کو قومی مسئلہ قرار دے کر اس پر سنجیدگی سے عمل نہ کیا تو داخلہ و خارجہ، دفاع و اصلاحات اور خزانہ و صنعت و پیداوار و تجارت کی وزارتوں کی محنتیں بھی رائیگاں رہیں گی۔

اور خاموشی یہ بھی کہتی ہے کہ سیاسی روحانی جمہوری پیشواؤں کے سبب سدا سے اِس بےچاری جمہوریت کو ایسے رگڑا لگتا ہے جیسے سنگدل عاشقوں سے محبت کو لگے... مگر اس عمر میں سیاسی ولی اللہ میاں نواز شریف اور سیاسی سادھو جنابِ زرداری اولاد اور پارٹی بھی نہ بچائیں تو کیا کریں؟

تازہ ترین