• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

16 دسمبر سے 26 دسمبر 2019ء تک 10دن ہم نے ملائیشیا کا مطالعاتی سفر کیا۔ اس دوران ہمارا کوالالمپور، پتراجایا، کیلاتن، کوالاکتیل، ملاکا، جترا، قدح، پاہانگ، پیننگ، لنکاوی سمیت ملائیشیا کی 14 ریاستوں میں سے 11 ریاستوں میں جانا ہوا۔ شہروں کے علاوہ دیہات میں بھی گئے کہ کسی بھی ملک اور قوم کی اصل تہذیب و ثقافت کا صحیح اندازہ گائوںجاکر ہی ہوتا ہے۔ اس دوران ملائیشیا میں بسنے والے ہر طبقے اور مختلف مکتب فکر سے ملاقاتیں رہیں۔ کالجوں، یونیورسٹیوں اور مدارس میں جاکر اہل علم و فضل سے متفرق موضوعات پر تبادلۂ خیال کا موقع ملا۔ قارئین! ہم نے ملائیشیا سے کیا کچھ سیکھا اور آپ کیا سیکھ سکتے ہیں؟ اس پر گفتگو سے قبل آپ ملائیشیا کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تاکہ اس کے پس منظر اور پیش منظر کو جان سکیں اور بات کی تہہ تک پہنچنے میں قدرے آسانی ہو۔ ملائیشیا جنوبی ایشیا کا ابھرتا ہوا ایک اسلامی ملک ہے۔ بہت پہلے وہ ’’ملایا‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ پندرہویں صدی عیسوی میں یہ عالم اسلام کا ایک اچھا حصہ شمار ہوتا تھا۔ ایک صدی بعد یعنی سولہویں صدی عیسوی میں وہ مختلف استعمار کا شکار ہوا۔ پہلے اس پر پرتگیزیوں نے قبضہ کیا، پھر ڈچ قوم نے اسے آ دبوچا اور آخر میں برطانوی استعمار کے زیرتسلط آگیا۔ ملائشیا کے باشندے برطانوی استعمار سے آزادی کی کوشش کرتے رہے یہاں تک کہ 1957ء میں آزادی حاصل کرلی۔ گویا ملائیشیا پاکستان سے پورے 10سال چھوٹا ہے۔ ملائیشیا نے آزادی کے بعد ایک وفاقی پارلیمانی دستور بنایا، جس کی دفعہ 3 کی تحت یہ صراحت کی گئی کہ وفاق کا مذہب ’’دینِ اسلام‘‘ ہوگا، البتہ دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی پرامن طریقوں سے رہ سکیں گے۔ دستور میں یہ بھی لکھا گیا کہ وفاق میں شامل 14ریاستوں میں سے ہر ریاست کی نظریاتی اور دستوری سربراہی اس ریاست کا سلطان اور بادشاہ کرے گا۔‘‘ اب بھی طریقہ کار یہی رائج ہے کہ ہر ریاست کا بادشاہ جو موروثی ہوتا ہے، اپنے آپ میں سے کسی ایک شخص کو 5سال کیلئے وفاق کا سلطان منتخب کرتا ہے۔ یہ سلطان وفاق کا آئینی سربراہ ہوتا ہے، ان تمام بادشاہوں کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ وہ اپنے عہدے کا حلف قرآن پر اٹھاتے ہیں اور اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ دینِ اسلام کا تحفظ کریں گے اور ملک و قوم کےوفادار رہیں گے۔ ملائیشیا میںانتظامیہ کی سربراہی وزیراعظم کرتا ہے۔ اسکی پوری پارلیمنٹ ہوتی ہے۔ وزیراعظم کیلئے پارلیمنٹ کا اعتماد حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ 1957ء سے 1970ء تک ملائیشیا سیاسی اور معاشی لحاظ سے مستحکم نہ ہوسکا، لیکن اس کے بعد جب ملائیشیا تنکو عبدالرحمن کی قیادت میسر آئی تو ملک ترقی کرنے لگا۔ اس کے بعد ملائیشیا کو مہاتیر محمد کی صورت میں ایک نجات دہندہ مل گیا۔مہاتیر محمد نے چند دہائیوں میں ملائیشیا کو کہاں سے کہاں تک پہنچادیا۔ جب وہ ملائیشیا کے وزیراعظم بنے تو اس وقت ملائیشیا کا شمار تیسری دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں ہوتا تھا لیکن ان کی انتھک جدوجہد کی بدولت صرف دو دہائیوں کے بعد ملائیشیا معیشت، سرمایہ کاری اور صنعت وحرفت میں یورپ اور امریکا کا مقابلہ کرنے لگا۔ دنیا بھر کے 54ممالک ایسے ہیں جن کا سارا سرکاری کام کمپیوٹر میں منتقل ہوچکا ہے۔ ان میں ملائیشیا کا دارالحکومت ’’پتراجایا‘‘ بھی شامل ہے۔ ملائشیا جیسے پسماندہ ملک کو اگر مہاتیر محمد جیسا دور اندیش حکمران نہ ملتا تو وہ کبھی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں نہ آتا۔ بڑی بات یہ ہے کہ معاشی اور مادّی ترقی کے ساتھ ساتھ ملائیشیا نے اپنے دین اور مذہب سے بھی رشتہ نہ صرف قائم رکھا ہوا ہے، بلکہ اسے مزید مضبوط کرنے کی فکر جاری ہے۔ ملائیشیا کی مساجد عبادت گاہیں بھی ہیں اور دانش گاہیں بھی۔ ملائیشیا کی مساجد کا نظام بہت ہی عمدہ،اورقابلِ تقلید ہے، مساجد کثیرالمقاصد کیلئے استعمال ہوتی ہیں۔ ہر مسجد کیساتھ خواتین کیلئے بھی جگہ بنائی جاتی ہے۔ سب کی تعلیم و تربیت کیلئے بھی یہ استعمال ہوتی ہیں۔ بڑی سے بڑی شخصیت حتیٰ کہ وزیراعظم کا نکاح بھی مسجد ہی میں ہوتا ہے۔ صبح سے لے کر شام تک مساجد ’’اسلامک اوراکنامک سینٹر‘‘ کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی پروگرام چل رہا ہوتا ہے۔ ملائیشیا میں کسی بھی قسم کی فرقہ واریت بالکل نہیں ہے۔ ہر مسجد میں بڑی لائبریری بھی ہوتی ہے، خواتین اور مردوں کیلئے ایک باوقار لباس بھی سلیقے کے ساتھ رکھا ہوا ہوتا ہے۔ مساجد کو سوشل ورک کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یوں رفاہی کام اور خدمت انسانیت کا ایک بڑا پلیٹ فارم یہ مساجد ٹھہری ہیں۔ ملائیشیا میں امیر اور غریب کے بچے ایک ساتھ ہی پڑھتے ہیں۔ ملائی قوم بہت ہی ایماندار، جفاکش، محنتی، عاجز اور ملنسار ہے۔ صبر و تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں لڑائی جھگڑے اور فسادات بالکل نہیں ہوتے۔ ملائیشیا بحیثیت مجموعی جس رخ پر جارہا ہے وہ بڑی حد تک امید افزا اور عالم اسلام کیلئے اطمینان کا موجب ہے۔ یہ ہم سے ایک عشرے بعد آزاد ہوا، لیکن اس کی ترقی کی رفتار قابلِ رشک ہے،ملائیشیا میں سیاسی استحکام ہے، فعال، دیانتدار اور مدبر قیادت ہے۔ قومی یکجہتی ہے، ہر شخص پر بس ایک ہی دھن سوار ہے کہ اپنے وطن کو عظیم سے عظیم تر بنانا ہے۔ کوئی ایسا کام نہیں کرنا جس سے ملکی ترقی میں رکاوٹ پڑے۔

آئیے!ہم بھی نئے سال کاآغاز اس عہد سے کریں کہ ہم بھی اپنے ملک کے لیے ایسا ہی سوچیں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین