• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کے نئے آرمی چیف جنرل منوج مکند نروانے کی یہ دھمکی کہ ’’پارلیمنٹ حکم دے تو کشمیر کا وہ حصہ لینے کے لیے بھی فوجی کارروائی کریں گے جو پاکستان کے پاس ہے‘‘ محض زبانی جمع خرچ ہے یا اِس کے پیچھے توسیع پسندی اور ہوسِ ملک گیری پر مبنی بدنامِ زمانہ ہندو مفکر چانکیہ کا عیارانہ فکر و فلسفہ اور ہندو نسل پرستی اور تنگ نظری پر مشتمل آر ایس ایس کے متعصبانہ نظریات کارفرما ہیں جن کی علم برداری کا راستہ بھارت کے موجودہ حکمرانوں نے علی الاعلان اپنا رکھا ہے؟ یہ سوال پوری پاکستانی قوم سے سنجیدہ غور و فکر اور ہمہ جہت تیاری کا طالب ہے تاکہ بھارت کے کسی بھی شرپسندانہ اقدام کو عبرتناک انجام سے دوچار کیا جا سکے۔ جنرل منوج مکند نے میڈیا سے گفتگو میں مقبوضہ کشمیر میں مہینوں سے جاری انسانی حقوق کی بدترین پامالی کا کوئی ذکر کیے بغیر بظاہر آزاد کشمیر میں بھارت کی فوجی کارروائی کا جواز فراہم کرنے کی خاطر دعویٰ کیا کہ ’’کنٹرول لائن پر بہت سرگرمیاں ہو رہی ہیں، شارٹ ٹرم خطرہ دراندازی جبکہ طویل مدتی خطرہ روایتی جنگ ہے، ہم اسی کی تیاری کر رہے ہیں‘‘۔ جنرل منوج نے شمالی اور مغربی سرحدوں پر بیک وقت جنگ کی بات کرکے واضح کیا کہ آزاد کشمیر پر قبضے کی ممکنہ کارروائی کے دوران اگر چین سے کسی قسم کا خطرہ ہوا تو بھارت اس کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی بھی کررہا ہے۔ بھارتی آرمی چیف نے مسلمہ متنازع علاقے کی حیثیت اور اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے حقِ خود اختیاری کی بین الاقوامی ضمانت کے حامل کشمیر پر اپنے غاصبانہ تسلط کو مکمل کرنے کے لیے جس ڈھٹائی کے ساتھ مذموم ارادوں کا اظہار کیا ہے، اِس پر قرار واقعی کارروائی کرنا محض پاکستان نہیں بلکہ اقوامِ متحدہ اور پوری عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔ تاہم اگر آج کی بزعم خود مہذب دنیا بین الاقوامی تنازعات میں ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے اصول کے قائل ہو چکی ہے تب بھی پاکستان بہرصورت کشمیری عوام کے حقوق کے لیے اپنا فرض نبھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرے گا۔ یہی وہ بات ہے جو افواجِ پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھارتی آرمی چیف کی یاوہ گوئی کا جواب دیتے ہوئے اِن الفاظ میں کہی ہے کہ ’’بھارت 27فروری 2019کو ہمارے جواب کا مزہ چکھ چکا ہے اور آئندہ اُسے اس سے بھی زیادہ سخت جواب ملے گا‘‘۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھارتی آرمی چیف کے بیان کو بھارت کے داخلی خلفشار سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دیتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی فاشسٹ ذہنیت کے مظاہروں اور انسانیت سوز مظالم کے سدِباب میں مؤثر کردار ادا کرنے کا مطالبہ بھی کیا جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں دنیا کو بالکل درست طور پر خبردار کیا ہے کہ آر ایس ایس کے ہندو انتہاپسند نظریات نے ایک ارب آبادی کے ایٹمی ملک پر اپنا تسلط قائم کر لیا ہے، اور یہ صورتحال بھارت اور پورے خطے میں کسی بڑے قتل و غارت کا سبب بن سکتی ہے۔ فی الحقیقت بھارت کے جنگی جنون کی روک تھام خود عالمی امن کے تحفظ کا تقاضا ہے کیونکہ جنوبی ایشیا کی ایٹمی طاقتوں میں جنگ ہوئی تو اس کے تباہ کن اثرات کا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لینا یقینی ہے۔ لہٰذا دنیا کو آزاد کشمیر پر قبضے کی کھلی بھارتی دھمکی کا فوری نوٹس لینا چاہئے اور اِس حقیقت کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ پاکستان اپنے خلاف جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لے گا اور اِس کے نتائج جو بھی نکلیں اُن کی ذمہ داری پاکستان پر نہیں بلکہ جارح فریق اور اسے روکنے میں ناکام رہنے والی عالمی برادری پر ہوگی۔ تاہم بھارت کو جواب دینے کے لیے فوج کی سطح پر تیاری ہی کافی نہیں، اِس کے لیے بھرپور قومی اتحاد و یکجہتی کا اہتمام بھی لازمی ہے اور ملک کی سیاسی قیادت کو اِس سمت میں بلاتاخیر نتیجہ خیز اقدامات عمل میں لانا ہوں گے۔

تازہ ترین