• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی سو برس بعد یہ پہلا موقع ہے کہ برطانیہ کا شہزادہ ہیری اور بیوی میگھن شاہی حیثیت سے دستبردار ہو گئے ہیں۔ یہ فیصلہ ان دونوں نے پاکستان کی پارلیمنٹ کی طرح 12منٹ میں نہیں بلکہ پورا سال لگا کر سوچ بچار کے ساتھ کیا ہے۔ ان کا فیصلہ ٹرمپ کی طرح نہیں کہ پل میں تولہ اور پل میں ماشہ ہو جائے، ملک چاہے چین ہو کہ ایران، خیر ان سرکاری قسم کی باتوں سے آئیں ہم اندرونِ خانہ ہونے والی جھڑپوں کا تذکرہ بھی کر لیں۔ دیورانی اور جٹھانی کی تو ہر خاندان میں حسد، رنجشیں اور عداوت نہ صرف ہمارے ہاں بلکہ ساری دنیا اور تو اور ٹی وی کے ہر ڈرامے میں موجود ہوتی ہیں۔ خلاصہ کرنے کیلئے اس شاہی علیحدگی کو آپ بڑی بہو اور چھوٹی بہو میں فساد قرار دے سکتے ہیں۔

یہ پیراگراف اس تحریر کا انٹرو ہے جو میں آپ کے سامنے پیش کرنے جا رہی ہوں۔ روبینہ زیدی نے سیالکوٹ یونیورسٹی سے ایم فل کیا ہے جس میں انہوں نے صفیہ اختر کے خطوط بعنوان زیرِ لب اور حرف آشنا کو موضوع بنایا ہے۔ وہ خطوط، جذبات اور محبت میں ڈوبے ہوئے تھے جیسے ہماری پرانی فلموں کے ڈائیلاگ جب وہ محبوب کی ساری غلط کاریوں کو معاف کر دیتی ہے۔ سلمیٰ کوئی اَن پڑھ خاتون نہیں تھیں، جاں نثار اختر سے محبت کی شادی کی تھی۔ خط لکھنے اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہونے میں ان کو خاندانی سطح پر ہی دلچسپی تھی کہ وہ مجاز لکھنوی کی بہن تھیں۔ صفیہ نے جان نثار کے نام متعدد خط لکھے۔ صفیہ بہت پڑھی لکھی تھیں، وہ وفا کے نام پر فنا ہو جانے والی خواتین میں تھیں کہ شوہر کو محبوب کی منزل پر بھی قائم رکھتی تھیں۔ روایتی خاتون کی طرح شوہر کی بے اعتنائی پہ گلہ گزار نہیں ہوتی تھیں بلکہ بے رخی کو بھی دلجوئی سمجھ لیتی تھیں۔ صفیہ نے یہ خطوط 9سال میں اپنی شادی شدہ زندگی کے دوران لکھے۔ پہلا مجموعہ ’’زیرِ لب‘‘ 1956میں اور دوسرا مجموعہ ’’حرف آشنا‘‘ جان نثار اختر نے ان کی وفات کے بعد شائع کرایا۔صفیہ اور جاں نثار، نوکریوں کے باعث بہت کم عرصہ اکٹھے رہے تو ملاقات کا وسیلہ تو خط و کتابت ہی تھا۔ کمال یہ ہے کہ کبھی خرچ چلانے کا حوالہ ہے تو کبھی بچوں کا مگر کہیں بھی اس خاتون نے کسی قسم کا گلہ نہیں کیا، بلا کسی شرط، شاید یہ یکطرفہ محبت تھی مگر بے لوث تھی۔ جس زمانے میں یہ خطوط شائع کیے گئے تو بہت پتی ورتا خاتون کی تعریف کی گئی۔ ہر چند ان کی زندگی میں وہ ایک اور خاتون سے مراسم رکھے ہوئے تھے مگر سلمیٰ نے کبھی جاں نثار سے بیوفائی کا گلہ بھی نہیں کیا اور یہ خطوط، جوان بچیوں کو بہشتی زیور کی طرح پڑھنے کو دیے جاتے تھے۔ ان خطوط اور جاں نثار اختر کے ساتھ ان کے تعلق کے حوالے سے سلمیٰ حقی (ان کی ماموں زاد بہن نے) ایک خاتون کی حیثیت سے سلمیٰ کے علاوہ جاں نثار کے بارے میں بہت سے سوالات اٹھائے اور ان کو بعنوان ’’ذکر صفیہ بہ زبانِ سلمیٰ‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں شہیدانِ وفا کا خون بہا کیا۔ دیباچہ آصف فرخی نے تحریر کیا۔

سلمیٰ حقی نے صفیہ کی اس وارفتگی کو عورت کے الگ وجود کی حیثیت اور شناخت اور مرد کے وجود کو باہمی رشتے کیلئے ایک اہم مقام دیا ہے، سلمیٰ حقی، چونکہ گھر کی بھیدی تھیں وہ سلمیٰ کے یوں فدا ہونے کے احساس کو تہنیت کے ساتھ نہیں دیکھتیں، روبینہ زیدی کو سلمیٰ حقی کا یہ اعتراض قطعاً پسند نہیں آیا۔ جاں نثار اختر نے بھی تو اپنی میز کے کونوں، کھدروں کے غلافوں اور بستر کے نیچے سے یہ خطوط نکال کر ’’زیرِ لب‘‘ مرتب کیا۔ کمال یہ ہے کہ لوگوں نے شادی کے نو سال بعد ہی مرنے والی پر داد و تحسین، اس کی مکمل وفاداری پر تو برسایا مگر جاں نثار نے صفیہ کی زندگی میں کسی اور سے جو تعلق استوار کئے تھے، اس پر کسی ادیب نے بھی سوائے سلمیٰ حقی کے انگلی نہیں اٹھائی بلکہ ہماری محقق روبینہ زیدی نے تو ’’محبوب کی لغزشوں کی پردہ دار بننے اور دل و دماغ کے تمام دریچے کھلے رکھنے اور درد کو محبت کا ناگزیر ثمر سمجھا‘‘ روبینہ نے بہت محنت اور خلوص کے ساتھ تحقیق کی ہے۔ پتھروں کی پوجا کرنے والی خاتون میں یہ علمیت کہاں سے آ گئی کہ اس نے جاں نثار کو اور میرے دوست جاوید اختر جو صرف آٹھ سال کا تھا، ان کی گفتار و کردار کو مشرقیت میں اور ہماری فلموں کی طرح تجزیے کی کٹھالی میں ڈالا ہے۔

تازہ ترین