• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں کی جانے والی مبینہ بدعنوانی کے منکشف ہونے کے بعد اب ضروری ہے کہ اس میں ملوث تمام افرادکے ناموں کو مشتہر کیا جائے۔ یہ کوئی ذاتی دشمنی یا کسی کی بے عزتی کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ایسا کرنے کی اصل وجہ " محمودوایاز" کی واضح تفریق کو ختم کرنا ہے۔ ہمارے سیاستدان سب سے زیادہ عتاب کاشکار رہتے ہیں۔ (یقیناً وہ معصوم نہیں) ان کی " دشنام طرازی"کی ہرممکن کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی کبھی توناکردہ گناہوں کی بدنامی بھی ان کے سرآتی ہے۔ ایسے میں عام آدمی کے ذہن میں یہ تاثربنا ہوا ہے کہ ملک کے تمام مسائل کی جڑ صرف و صرف سیاستدان ہیں۔ صرف انہی کی وجہ سے ملک کا اتنا براحال ہے اور عام آدمی انہی کی غلطیوں کی سزا بھگت رہا ہے۔ لیکنذرا توقف کیجئے! کیا واقعی ایسا ہے؟کیا ہر برائی کے پیچھے صرف سیاستدانوں کا ہاتھ ہوتا ہے؟ یا عام لوگ بھی کسی سے کم نہیں؟ صرف موقع کے منتظر ہوتے ہیں کہ موقع ملتے ہی وہ بھی اسی " حمام "میں ۔۔۔اورنا ملنے کی صورت میں مظلومیت کاپرچار تو ہے ہی۔ جی جناب! سترہ گریڈ سے لیکر22 گریڈ کے افسران اور ان کی بیگمات کس حیثیت میں BISP کے پیسوں سے مستفید ہورہے تھے۔ یقیناً اپنے آپ کوغریب دکھانے کے لیے انہوں نے " جھوٹادعویٰ" بھی کیا ہوگا۔اس کا مطلب ہے کہ صرف سیاستدان جھوٹا نہیں عام آدمی بھی "جھوٹا "ہے، بلکہ " مفادپرست" ، اپنی " عزت اور غربت" کاسودا کرنے والا، وقتی فائدہ کے لیے اپنی " انا" کوقربان کرنے والا۔کیا ایسے لوگوں کے ہجوم میں بحیثیت قوم ہم میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ ہم کسی اورپرانگلی اٹھاسکیں؟ کسی اور کے کردارپرکیچڑ اچھالیں جب اپنا دامن بھی داغ دار ہو؟یقیناً نہیں۔ لہذا اب یہ حکومت اور سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے کہ ان چندہزار افراد کے نام سامنے لائے جائیں اور ان سے " ریکوری" بھی کروائی جائے۔ کیونکہ یقیناً یہ بہت " بڑی رقم" نہیں ہوگی اور ملک سے پیسہ باہر بھی نہیں گیا ہوگا۔ لہذا اس لوٹی ہوئی دولت کوبازیاب کرانا زیادہ آسان ہوگا ۔تو ٹیسٹ کیس سمجھتے ہوئے ایک کوشش کرلی جائے۔ کم از کم کچھ توخزانے میں آئے گایا اصل حقدار کو رقم دے کر ملک میں غربت کی شرح کو کچھ کم کیا جاسکے گا۔ اب ذرااس طرف آتے ہیں کہ ہماری معصوم عوام ہر بات کی امید حکومت سے لگاتی ہے اور ہربات کا الزام بھی حکومت کودیتی ہے ۔توذرا طے کرلیا جائے کہ اصل میں " حکومت کہتے کس کو ہیں؟" یا " حکومت کی تعریف کیا ہے؟" کیا صرف الیکشن جیت کر منتخب ہوئے چند افراد کے گروہ (جس میں وزیراعظم اور اس کی کابینہ)کو حکومت کہتے ہیں یا اس میں پوری حکومتی مشینری شامل ہے۔جس میں مختلف وزارتیں اور ان کے عملے کے افراد، مختلف سیکشنز اور ان کے عملے کے افراد یعنی وزیر کے بعد ہر وزارت کا سیکریٹری سے لیکر چپراسی تک بیوروکریسی کے تحت حکومت مشینری میں شامل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر سرکاری ملازم حکومت کا حصہ ہے ایسے میں برائی کا الزام صرف چند " منتخب افراد" کے ذمہ کیوں؟ یہ سارے سرکاری ملازمین بھی ان برائیوں کے برابر کےذمہ دار ہیں ۔کیونکہ ساری کاغذی کارروائیاں یہی افراد کرتے ہیں۔ کیسے کیسے ایک ایک دستخط اور فائلیں بکتی ہیں، کیسے کیسے یہ سرکاری عہدیدار ذاتی مفاد کے لیے ملکی وسماجی مفاد کو پس پشت ڈالتے ہیں، کس طرح سے (under the table)خفیہ اور غیرقانونی ڈیل کرکے معاملات کو طے کیا جاتا ہے۔ہر کوئی جانتا ہے یہی وجہ ہے کہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی موجودگی میں نئی بنی ہوئی بلڈنگ زمین بوس ہوجاتی ہیں یا مخدوش قرار دے دی جاتی ہیں، اینٹی نارکوٹکس کے ادارے کی موجودگی کے باوجود منشیات کھلے عام بک رہی ہے۔ اینٹی انکروچمنٹ سیل کی موجودگی میں بڑے شہروں میں ندی نالوں، فٹ پاتھوں تک پہ قبضہ وغیرہ وغیرہ ۔جس جس ادارے کی موجودگی کو دیکھئے اوراپنے اردگرد کا جائزہ لیجئے تو اندازہ ہوجائے گا کہ کیسے کیسے " شرفا" ہرطرف موجود ہیں۔ اب یہ فیصلہ کرلیجئے اخلاقی پسماندگی اوپرسے ختم نہیں کی جاسکتی اس چیز کو تبدیل وزیراعظم کی سطح پہ نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ ماں باپ کو زیادہ ذمہ داربننا ہوگا، اساتذہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، "شخصیت سازی "بہت اہم ہے اوریہ صرف نچلی سطح سے ہوسکتی ہے۔ اوپری سطح پہ "قانون کی بلادستی" "Rule of law" قائم کرکے ہی تبدیلی لائی جاسکتی ہے ورنہ لگے رہیے الزام تراشی میں ۔لوٹی ہوئی دولت ہاتھ نہ آئے گی بلکہ مزید لوٹ لی جائے گی۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین