• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلوچستان کے اکثر علاقوں میں خوف اوردہشت کے باعث سیاسی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابرہیں۔ دوماہ کے بعد انتخابات ہونے والے ہیں لیکن بلوچستان کے عوام کو یقین ہی نہیں آتا کہ ان کے صوبے میں فیئر اینڈ فری الیکشن منعقد ہوسکتاہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل گروپ) انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرچکے ہیں لیکن ریاستی اداروں کی سرپرستی میں چلنے والے کچھ پرائیویٹ لشکر ان قوم پرست جماعتوں کوالیکشن سے دوررکھنے کی ہرممکن کوشش کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے قوم پرستوں کوایک طرف سے ریاستی اداروں کی ڈبل گیم کا سامناہے اور دوسری طرف ناراض بلوچ عسکریت پسند بھی انہیں غدار قرار دے رہے ہیں۔ بلوچستان کے شورش زدہ علاقے خضدار کی گلیوں اور بازاروں میں عام لوگوں سے گفتگو کے بعدمیں اس نتیجے پرپہنچاہوں کہ اگر 2013میں بلوچ قوم پرستوں کوالیکشن میں حصہ لینے کاموقع نہ ملاتوپھر بلوچوں کو قومی دھارے میں شامل رکھنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ آج کل بلوچستان کے بڑے سردارالیکشن کے جوڑ توڑ میں مصروف ہیں اوراپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے پارٹیاں بدل رہے ہیں۔ پارٹیاں بدلنے سے ان سرداروں کو توفائدہ مل سکتا ہے لیکن بلوچستان اور پاکستان کے فائدے کا امکان بہت کم نظر آتا ہے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کے بھائی لشکری رئیسانی نے رکن قومی اسمبلی ہمایوں عزیز کرد سمیت کئی ساتھیوں کے ہمراہ مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ لشکری رئیسانی اپنے بڑے بھائی اسلم رئیسانی سے خاصے مختلف ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ پیپلزپارٹی بلوچستان کے صدر تھے۔ انہوں نے کئی معاملات پر وزیراعلیٰ بلوچستان، وزیرداخلہ رحمن ملک اور صدر آصف علی زرداری کے ساتھ اختلاف کیا۔ انہیں مرکز میں ایک وزارت دے کر چپ کرانے کی کوشش ہوئی لیکن انہوں نے پارٹی کی صدارت چھوڑ دی۔ ان کے والد غوث بخش رئیسانی نے بھی کئی پارٹیاں بدلیں۔ اب لشکری رئیسانی پیپلزپارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ(ن) میں آگئے ہیں۔ میں ذاتی طورپر ان کی بہت قدرکرتاہوں لیکن میری ناقص رائے میں ان کی ٹائمنگ ٹھیک نہیں۔ انہوں نے الیکشن سے صرف چند ہفتے قبل پارٹی بدل کریہ تاثر قائم کیاکہ ان کے لئے بھی اصل اہمیت سیاسی ہوا کے رخ کی تھی۔ وہ یہ فیصلہ کچھ پہلے کرلیتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔
بلوچستان کی سیاست پرگہری نظر رکھنے والے کئی مبصرین کا خیال ہے کہ لشکری رئیسانی کے مسلم لیگ (ن) میں آنے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ نواز شریف کے ساتھ مل کر صوبے کے حالات بہتر بنانا چاہتے ہیں بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے ایک پرانے دشمن سرداریار محمدخان رند کو مسلم لیگ (ن) میں آنے سے روکنا چاہتے تھے۔ سردار یارمحمد رند اور لشکری رئیسانی کے خاندان میں دشمنی کا آغاز 1983میں ہوا تھا جب بلدیاتی انتخابات میں رند قبیلے کے کچھ لوگ مارے گئے۔ 1985میں تاج محمد رند قومی اسمبلی اور یار محمد رند سنیٹربن گئے جس کے بعد غوث بخش رئیسانی کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال ہوا ور وہ کچھ عرصہ کے لئے افغانستان چلے گئے۔ واپس آئے تو 1987میں ایک حملے میں انہیں قتل کردیاگیا۔ اس حملے میں اسلم رئیسانی زخمی ہوئے۔ اس قتل کا الزام تاج محمد رند اور یار محمد رند کے علاو ہ نواب اکبر بگٹی پر بھیلگایا گیا کیونکہ یارمحمد رند کی نواب اکبر بگٹی سے خاصی قربت تھی۔ پھرتاج محمد رند قتل ہوئے تو ان کی ایک بیوہ نے قتل کا الزام یار محمد رند پر لگا دیا۔یار محمدرند اسے دشمنوں کی سازش قرار دیتے رہے۔ یہ دشمنی چلتی رہی اور یار محمد رند کے صاحبزادے اور سسر کو قتل کر دیا گیا۔ انہوں نے الزام رئیسانیوں پرلگایا۔ جنرل پرویز مشرف کے دورمیں سردار یارمحمد رند کا پلڑا بھاری تھا اور پچھلے پانچ سال میں رئیسانیوں کا پلڑا بھاری تھا۔ سردار یار محمد رند پانچ سال میں صرف ایک دفعہ بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرسکے کیونکہ صوبائی حکومت نے ان پر درجنوں مقدمے درج کئے۔ پچھلے دنوں ان کے چوہدری نثار علی خان کے ساتھ رابطے شروع ہوئے اور یہ خبر پھیل گئی کہ وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ یار محمد رند حتمی فیصلے کے لئے اختر جان مینگل کی واپسی کے انتظار میں تھے کیونکہ انہوں نے مینگل صاحب سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے فیصلے کا اعلان ان کی واپسی پر کریں گے لیکن لشکری رئیسانی زیادہ تیز نکلے۔ وہ یارمحمد رند کے سیاسی حریف ہمایوں عزیز کرد کے ساتھ مسلم لیگ (ن) میں جا دھمکے۔ کیا یارمحمد رند اور لشکری رئیسانی ایک ہی پارٹی میں اکھٹے ہوسکتے ہیں؟ اگر ایسا نہ ہوسکا تو رندوں اور رئیسانیوں کے مابین دشمنی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ قبائلی دشمنیاں بلوچستان کی سیاسی قوتوں کے اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔انہی قبائلی دشمنیوں کا ریاستی اداروں نے ہمیشہ فائدہ اٹھایا اور جہاں دشمنی نہ ملی وہاں زبردستی دشمنی پیدا کردی گئی۔
1963 میں سردار عطا اللہ مینگل نے قومی اسمبلی میں جنرل ایوب خان کے خلاف ایک تقریرکی جس پر وہ ناراض ہوگئے۔ انہوں نے سردار عطا اللہ مینگل صاحب کے ایک رشتہ دار کرم خان کو زبردستی مینگل قبیلے کاسردار بنا دیا جو کچھ عرصہ بعد قتل ہوگئے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں سردارعطا اللہ مینگل کے مقابلے پر نصیرمینگل کولایا گیا۔ نصیر مینگل ق لیگ کے سنیٹر ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی اکبر مینگل بی این پی مینگل گروپ میں ہیں۔ سردار ثنا اللہ زہری مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صدر ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی اسرار اللہ زہری بی این پی عوامی میں شامل ہیں جو مشرف دور میں بنائی گئی۔ یہاں اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ سردار ثنا اللہ زہری اور چنگیز مری ایسے وقت میں نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہوئے جب سیاسی ہواکا رخ مخالف سمت میں تھا۔ بلوچستان کے حالات کو وہی سیاستدان تبدیل کرسکتے ہیں جو طاقتور ریاستی اداروں کے مفادات پر قومی مفاد کو ترجیح دیں، جو کالعدم تنظیموں کی سرپرستی کرنے والے دوغلے چہروں کو بے نقاب کریں اور جو واقعی بلوچستان میں مثبت تبدیلی لانے کا جذبہ رکھتے ہوں۔ بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں سردار فی الحال ایک ایسی حقیقت ہیں جس سے فوری طور پر چھٹکارا پانا ممکن نہیں۔ کئی سردار اپنی قبائلی دشمنیوں میں الجھ کر عوام کو بھول جاتے ہیں۔ دشمن پر برتری حاصل کرنے کیلئے ریاستی اداروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتے ہیں۔ کچھ سردار ریاستی اداروں کے ہاتھوں میں کھلونا نہیں بنتے لیکن اپنی انا کے غلام بن کر عوام سے دور ہوجاتے ہیں۔ سرداروں کو اپنی قبائلی دشمنیاں ختم کرنا ہوں گی۔ عوامی سیاست کیلئے عوامی انداز اختیارکرناہوگا تاکہ بلوچستان میں خوف اوردہشت ختم ہو۔ بلوچستان کو قومی دھارے میں واپس لانا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ عدلیہ، میڈیا اور سول سوسائٹی کو چاہئے کہ بلوچستان میں گن پوائنٹ پر سیاست کرنے والوں کا راستہ روکے۔
تازہ ترین