• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شہزادہ اے منوں پاکستان کے ممتاز صنعتکار ہیں۔ وہ منوں گروپ آف انڈسٹریز کے پریذیڈنٹ ہیں۔ انہوں نے میرے نام نومبر 2012ء میں ایک خط لکھا تھا، جو ”نامہ بر“ نے آج مجھے پہنچایا ہے۔ اس تین مہینے کی تاخیر کے باوجود یہ خط باسی نہیں ہوا بلکہ آج بھی تر و تازہ ہے، سو پیش خدمت ہے:
جناب عطاء الحق قاسمی صاحب
آپ کا کالم ہمیشہ بڑے شوق سے پڑھتا ہوں اور محظوظ ہوتا ہوں، تبصرہ نہیں کرتا کیونکہ ایک اتنے بڑے دانشور اور ذہین آدمی کے بیان پر تبصرہ مناسب نہیں سمجھتا۔
ایک دفعہ مسعود اور ڈاکٹر فوزیہ کے گھر پر آپ سے ملاقات ہوئی تھی تو میں نے آپ سے کہا کہ میں آپ کے کالم وزیر آباد کی پرانی یادوں سے بہت متاثر ہوا اور مجھے اپنا گاؤں او ربچپن بھی یاد آ گیا۔ چھت پر سونا، بستر اور چارپائیاں خود لگانا، بارش میں سب کچھ اٹھا کر پرچھتی کے نیچے آ جانا۔ پھر آپ نے کہا کہ اب یہ سب کچھ غائب ہو چکا ہے فقط حسین یادیں رہ گئی ہیں یعنی ترقی آ گئی ہے۔
آج 29نومبر بروز جمعرات کو اسی کڑی کا کالم روزنامہ جنگ میں شائع ہوا ہے۔ انداز آپ کا دلچسپ اور مختلف ہوتا ہے لیکن اس کا مفہوم بھی وزیر آباد جیسا ہے ۔ لاہور کی سب پرانی خصوصیات ترقی کی نذر ہو رہی ہیں پرانا لاہور نظر ہی نہیں آتا۔
1964ء میں پہلی مرتبہ دبئی گیا تھا۔ بہت پسماندہ شہر تھا کراچی اس کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ ان کے شیخ اور امراء ہمارے گھر کراچی میں آ کر ہمارے گھر اور کراچی کی بہت تعریف کرتے تھے۔ 1964ء میں دبئی میں ایک پُرتکلف طعام کے لئے مجھے لے جایا گیا۔ اس کی سڑک کی پرانے پھٹے کپڑوں کی تھی اور ریستوران لکڑی، بانس اور کچی مٹی کا تھا۔ گرمی کی شدت تھی اور کھانا بہت لذیذ تھا۔ میں نے انہیں ایک ونڈو اے سی تحفہ میں دیا ۔ پچھلے ہفتے مجھے پھر دبئی جانے کا اتفاق ہوا 1964ء کا دبئی مکمل طور پر دفن ہو چکا ہے اس کی جگہ پر زور ترقی اور اونچی عمارتوں اور کشادہ سڑکوں نے لے لی ہے یعنی دبئی بھی ترقی کی نذر ہوچکا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک کتاب پڑھی روڈ ٹو مکہ، جس کے مصنف محمد اسد ہیں۔ اسد آسٹریا کا شہری تھا اور آسٹریا میں 1900ء میں پیدا ہوا۔ سفر کا شوقین تھا اور صحافی تھا۔ 1920ء میں سعودی عرب گیا اور بادشاہوں کی قربت نصیب ہوئی اور 1927ء میں وہ مسلمان ہو گیا۔ اس کتاب میں سعودی عرب کی 1890ء کے بعد کی طرز زندگی، اس کی پسماندگی اور نہایت دشوار زندگی کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ سارے ملک کا طرز معاش اونٹوں، ریت اور چشموں پر تھا اور لوگ دور دراز علاقوں میں چھوٹے چھوٹے کنبے ،کنوؤں کے پاس رہتے تھے۔
اس کتاب میں ان کے طرز زندگی کی اچھائیاں، افراد کی قربت اور محبت اور دشوار زندگی کی تفصیل بڑی خوبصورتی سے بیان کی گئی ہے۔ ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ جب آپ یہ کتاب پڑھیں گے تو یہ ساری باتیں مٹ چکی ہوں گی اس کی جگہ ترقی نے لے لی ہو گی اور پرانی باتیں دلچسپ کہانیاں بن جائیں گی۔ اسد صاحب علامہ محمد اقبال کے قریبی دوست بن گئے تھے وہ 1950ء میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے سفیر مقرر ہوئے۔
تو قاسمی صاحب ترقی پرانی طرز زندگی پر حاوی ہو رہی ہے۔ پرانا وزیر آباد، لاہور، دبئی اور سعودی عرب ترقی کی نذر ہو گئے ہیں۔ میرے اور آپ کے لئے پرانی یادیں دلکش رہیں گی، اگلی نسل کے پاس تو یہ بھی نہیں ہو گا۔ والسلام
خیر اندیش
شہزادہ عالم منوں
شہزادہ منوں کے خط نے مجھے ایک دفعہ پھر اداس کر دیا ہے۔ میں ان یادوں سے نکل کر اپنے اردگرد کی حقیقی زندگی میں واپس آنا چاہتا ہوں مگر اسی دوران پھر مجھے کوئی شہزادہ منوں رستے میں چلتے چلتے مل جاتا ہے اور ان دنوں کو یاد کرنے لگتا ہے جب لوگ غریب تھے مگر ان کے ہاتھوں میں کاسہٴ گدائی نہیں ہوتا تھا۔ جب دیہات تو دیہات ، شہر بھی پُرسکون تھے۔ جب شام کو میونسپل کمیٹی والے آتے تھے اور گلیوں میں نصب شمعوں کا ”تیل پانی“ چیک کرتے تھے ، جب خاکروب صرف حاضری رجسٹر نہیں بلکہ اپنے فرائض انجام دیتے ہی دکھائی دیتے تھے، جب شادیاں میرج ہال میں نہیں گھروں سے باہر ”تنبو“ اور قناتیں لگا کر ہوتی تھیں، جب مہمانوں کو سرو کرنے کے لئے باوردی ویٹر نہیں، دولہا دلہن کے کزن ہوتے تھے، جب کھانا ”ورتانے“ کے لئے فیملی کا سب سے سمجھ دار شخص دیگوں پر ”متعین“ کیا جاتا تھا۔ وہ کھانا کم پڑتے دیکھتا تو قابوں میں کھانا ڈالتے وقت ہاتھ قدرے کھینچ لیتا، جب مہمان کرسی میز پر نہیں فرش پر بچھی دریوں پر آمنے سامنے بیٹھتے تھے اور ایک پلیٹ میں کھانا کھاتے تھے۔ جب دولہا گھوڑے پر اور دلہن پالکی میں بیٹھ کر آتی تھی، جب لوگ اپنے پیاروں کی موت پر ان کی میت ایمبولینس میں نہیں اپنے کاندھوں پر اٹھا کر قبرستان تک جاتے تھے۔ جب کلاشنکوف نہیں ہوتی تھی ، راکٹ لانچر نہیں ہوتے تھے ، فرقہ پرست ”لشکر“ نہیں ہوتے تھے، لسانی اور علاقائی دہشت گرد نہیں ہوتے تھے۔ ہیروئن نہیں ہوتی تھی، لوگ اپنے بھائیوں ، بہنوں اور دیگر عزیز و اقارب کو فون پر ہیلو ہیلو کہہ کر فارغ نہیں ہو جاتے تھے ایک دوسرے کے گھروں میں جاتے تھے، گپ شپ کرتے تھے، ہنستے کھیلتے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ دکھ سکھ ”پھولتے“ تھے۔ جب ہماری بستیوں میں پولوشن نہیں تھی، گرد و غبار اڑاتی اور چیختی چلاتی گاڑیوں کی بہتات نہیں تھی، جب چیزیں خالص ملتی تھیں، جب بچہ اسکول پڑھنے جاتا تھا تو بخیر و عافیت واپس گھر بھی آ جاتا تھا، جب ہمارے ہاں کوئی ایسا ”فلتھی رچ “ نہیں تھا جو اپنی دولت کی نمائش اس طرح کرتا کہ غریبوں کے دلوں سے آہیں سنائی دینے لگتیں۔ یہ میرے اس پاکستان کا نقشہ ہے جو اب خواب و خیال بن کر رہ گیا ہے۔
شہزادہ منوں نے دبئی اور سعودی عرب کی غربت سے امارت تک کی داستان بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اب یہ لوگ بھی اپنی پرانی قدروں سے دور ہو گئے ہیں۔ میرا دکھ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ان لوگوں نے کچھ کھونے کے بعد کچھ پایا بھی ہے جبکہ ہم نے سب کچھ کھو دیا ہے اور جو پایا ہے اس کی ”مالیت“ کھوئی ہوئی دولت سے کہیں کم ہے۔ لیکن شہزادہ منوں صاحب ، اس کے باوجود ہم ”دیوار گریہ“ کے سائے تلے رونے پیٹنے کی بجائے کیوں نہ ملک کی ازسرِنو تعمیر کا خواب دیکھیں اور اس راستے پر گامزن ہو جائیں جو بیک وقت ترقی اور سکونِ قلب کی منزل کی طرف لے جانے والا ہو! آئیں آج اس خواب کی تعبیر کی طرف پہلاقدم اٹھاتے ہیں۔
تازہ ترین