• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئٹہ کے بعد موت کے فرشتے نے کراچی کا رخ کرلیا ہے‘ کراچی میں اس کا آنا جانا پہلے بھی تھا مگر اس مرتبہ تو وہاں لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ حکمرانوں کی وہی پرانی روش رہی‘ انہوں نے پیسے کا مرہم رکھنے کی کوشش کی۔ پیسہ اہم سہی مگر اس کی حیثیت اتنی بھی نہیں کہ وہ جان سے اہم بن جائے۔ اس بار بھی وہی رسمی کارروائیاں ہوتی رہیں‘ اس بار بھی تعزیتی پیغامات جاری ہوئے اور اس بار بھی کہا گیا کہ حکومت دہشت گردی ختم کرکے رہے گی۔ پتہ نہیں یہ دہشت گردی اس وقت ختم ہوگی جب شہروں کے شہر اجڑ جائیں گے۔
سینیٹ سے ایک انسداد دہشت گردی ایکٹ منظور ہوا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ترمیمی بل گولی کا راستہ روک سکتا ہے‘ کیا کوئی ترمیم موت کو زندگی میں بدل سکتی ہے اور کیا دھماکے روک سکتی ہے۔ یتیم بچوں کو باپ کا سایہ مہیا کرسکتی ہے‘ جس ماں کا جوان لخت جگر شہید ہوجائے‘ اسے چین کی نیند لوٹا سکتی ہے۔
صاحبو! فرقہ واریت کی آگ لگی ہوئی ہے ایک خاص مسلک کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے انتظامیہ ناکارہ ہو کر رہ گئی ہو‘ بند کمروں سے بیانات پر اکتفا کرنے والوں نے یہ کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ جس غریب خاندان کا سربراہ کسی دھماکے کی نذر ہوجائے اس خاندان کی پوری زندگی صرف آہوں اور سسکیوں کا ثمر رہتی ہے، ان کے مقدر میں دھماکہ رسوائی لکھ جاتا ہے۔ جب گھر کا کفیل چلا جائے تو گھر صبح شام ماتم کرتا ہے، یتیم بچے تعلیم سے محروم ہوجاتے ہیں‘ تعلیم تو دور کی بات ان کے گھر کا کرایہ درد سر بن جاتا ہے‘ گھریلو اخراجات روزانہ دھماکے کی یاد دہانی کراتے ہیں‘ صرف کہہ دینے سے دہشت گردی ختم نہیں ہوتی‘ خاتمے کیلئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جہاں چند وزیر دہشت گردوں کے مددگار بن جائیں‘ جہاں کوئی ایک صوبائی حکومت مددگاروں کی ہمنوا بن جائے وہاں سوائے ماتم کے کیا ہوسکتا ہے۔ پاکستانی شہروں میں جنگل کا قانون ہے۔ ابھی رات ہی مجھے کراچی کا ایک نوجوان بتارہا تھا کہ لوگ کراچی شہر میں مہنگے موبائل فون لے کر گھروں سے نہیں نکلتے بلکہ مہنگے فون گھر پر چھوڑ کر سستے فون باہر لے جاتے ہیں کیونکہ وہاں فون چھیننا معمول بن چکا ہے۔ میں اس نوجوان کی باتوں پر دیر تک غور کرتا رہا اور پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ جہاں موت بانٹنا معمول بن چکا ہو وہاں موبائل فون کی کیا حیثیت ہے۔
سیاستدان حکمرانی کررہے ہیں زندگی کے باغ میں لاشیں بکھری پڑی ہیں‘ لاشوں کی پروا کئے بغیر سیاست ہورہی ہے‘ راگ الاپا جارہا ہے کہ جمہوریت نے لوگوں کو بہت کچھ دیا۔ جی ہاں! جمہوریت نے لوگوں کے گھروں میں صف ماتم بچھائی‘ جمہوریت نے کتنے بچوں کو یتیم کردیا‘ کتنی عورتوں کو بیوہ بنادیا‘ کتنی ماؤں کو جوان بچوں سے محروم کردیا‘ مہنگائی نے جینا مشکل بنادیا‘ یہی ثمر ہے پانچ سالہ جمہوری دور کا۔ اس بار تو کسی نے مداخلت بھی نہیں کی‘ اس بار تو مدت بھی پوری ہوئی۔ پانچ سال کے بعد ثمر یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں تمام اصولوں کو روند کر لوٹا سازی میں مصروف ہیں۔ کل تک کوئی کسی کے ساتھ تھا‘ آج کسی کے ساتھ ہے‘ کل تک کوئی اور ”زندہ باد“ تھا آج کوئی اور ”زندہ باد“ ہے۔ سچ کڑوا ہے مگر سچ یہ ہے کہ موجودہ اقتدار سے لطف اندوز ہونے والی تمام جماعتوں کا نہ کوئی اصول ہے نہ کوئی نظریہ‘ صرف نظریہ اقتدار ہے کل تک جو پرویز مشرف کے گیت گاتے تھے آج وہ پھر سے معتبر بنے بیٹھے ہیں۔ کل کے جگنو آج پھر جگنو‘ کل کے کبوتر آج پھر کبوتر۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے والے‘ ایک دوسرے کو گلے لگاتے پھر رہے ہیں۔ لوگوں کی فکر نہیں سیاست بچانے کی فکر پڑی ہے۔ لاشوں پر سیاست کررہے ہیں‘ یہ نہیں سوچتے کہ دہشت گردی روکی جائے۔ بس ایک دوسرے پر الزام تراشی کررہے ہیں۔ ملک بدامنی کی آگ میں جل رہا ہے‘ ہر طرف بکھرے ہوئے لاشے ہیں اور اہل سیاست‘ نیا میلہ لگانے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔
موجودہ دہشت گردی کے پیچھے اندرونی بیرونی ہاتھ ملوث ہیں تو ان ہاتھوں کو توڑ دینا چاہئے۔ اگرچہ یہ بات سچ ہے کہ اس وقت دہشت گردی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں پوری مسلم دنیا کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ شام‘ عراق‘ لبنان سمیت مسلمان ملکوں کی اکثریت شیعہ سنی کی تقسیم میں پڑی ہوئی ہے کوئی گریٹ گیم ہے‘ اس بڑے کھیل نے مسلم دنیا کو ہلاکر رکھ دیا ہے مثلاً شام میں بشارالاسد کے مخالفین سے بیرونی طاقتوں کے لوگ کھلم کھلا نہ صرف ملتے ہیں بلکہ ان کی ٹریننگ بھی کررہے ہیں‘ یہی صورتحال عراق اور دیگر ممالک میں ہے مسلمان دنیا کیلئے لمحہٴ فکریہ ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو قدرت نے اسے جغرافیائی طور پر انتہائی اہم بنایا ہوا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ماضی قریب میں ایک سپر طاقت کو ڈبونے میں پاکستان کا خصوصی کردار رہا‘ اب پھر سے عالمی طاقتوں میں طاقت کے توازن کیلئے پاکستان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ جب سے گوادر چین کے حوالے کیا ہے اور ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا معاہدہ ہوا ہے اس کی تکلیف بڑی دور دور تک ہوئی ہے اور تو اور گوادر کی خلیجی ریاستوں کو بہت تکلیف ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کیلئے مشکل ترین حالات بنائے جائیں گے۔ فرقہ واریت کی ہوا کو اور تیز کیا جائے گا۔ اس آگ میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ سرور ارمان کا شعر ہی پڑھ سکتا ہوں کہ
مقتل کھلے ہوئے ہیں مقفل خدا کا گھر
مذہب شکم پرست اناؤں کی زد میں ہے
حیرت سے تک رہی ہیں عقیدت کی بستیاں
ایک کائنات کتنے خداؤں کی زد میں ہے
تازہ ترین