• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لیجئے مارچ کا وہ مہینہ بھی آ گیا جس کا عید کے چاند کی طرح انتظار تھا مگر قانونی اور غیر قانونی موشگافیوں، پیچیدگیوں اور افواہوں کا بازار اب بھی گرم ہے۔ انگریزی محاورے کی سی کیفیت ہے۔ "There are many a slips between the cup and the lips." انتخابات کو شفاف بنانے کے لئے اتنی شرائط عائد کی جا رہی ہیں جنہیں سو فی صد پورا کرنا امیدواروں کے بس میں نہیں۔ دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
-1 ایک افواہ تھی کہ عدالت عظمیٰ انتخابات کو روک دے گی جبکہ اس کی جانب سے دوٹوک الفاظ میں کہا گیا کہ ”کوئی خواب میں بھی نہ سوچے کہ ہم انتخابات کے التوا کا حکم دیں گے۔ البتہ ہم نے نئی حد بندیوں کے متعلق کہا تھا جن کا تعین منصفانہ اور غیر لسانی بنیادوں پر ہو مگر انتخابی کمیشن نے اس پر معذرت کر لی کہ قلیل مدت میں یہ ممکن نہیں تاہم ہم اپنے موٴقف پر اصرار کر رہے ہیں“۔-2 فوج کے متعلق بھی اسی قسم کی افواہیں تھیں مگر اس کی طرف سے صاف صاف اظہار کر دیا گیا کہ اس کی طرف سے نہ کوئی رکاوٹ ڈالی جائے گی اور نہ وہ کسی کی حمایت کرے گی۔-3 ایک افواہ یہ بھی اڑی کہ خود صدر مملکت انتخابات کو آگے بڑھانے کے خواہاں ہیں کیونکہ ان کے خیال میں پی پی پی کی گزشتہ پانچ سال میں کارگزاری معیاری نہیں رہی جبکہ صدر بار بار واضح کر رہے ہیں کہ انتخابات وقت پر ہوں گے۔-4 وزیراعظم نے صاف طور پر کہہ دیا کہ قومی اسمبلی 16مارچ سے قبل تحلیل نہیں ہو گی۔ 16مارچ کو اس کا آخری اجلاس ہو گی۔ نوٹی فیکیشن ہو یا نہ ہو اس روز مدت پوری کرنے کے بعد اسمبلی آئینی طور پر خود تحلیل ہو جائے گی بشرط یہ کہ کوئی ٹیکا یا تھونی نہ لگائی جائے۔ دستور کی دفعہ 224کی رو سے قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے پر60دن میں اور اگر توڑی جائے تو90 دن کے اندر انتخابات کرانا لازمی ہیں۔ یہاں چونکہ اسمبلی اپنی مدت پوری کر رہی ہے لہٰذا اس کو انتخابات کے لئے60دن ملیں گے۔ ان 60دنوں میں کمیشن کو درخواستیں وصول کرنا، انتخابی نشانات تقسیم کرنا، درخواستوں کی جانچ پڑتال کرنا، نامکمل درخواستوں کو مسترد کرنا، اپیلیں سننا اور قطعی فہرستیں شائع کرنا ہوں گی۔ کمیشن جانچ پڑتال کے لئے30دن چاہتا تھا مگر کمیٹی نے اس کے لئے 15دن مختص کئے۔-5 ابھی تک الیکشن کی تاریخ مقرر نہیں ہوئی۔ اب یہ بحث شروع ہوئی ہے کہ تاریخ کون مقرر کرے گا کیونکہ انتخابی قواعد میں اس کی تصریح نہیں کہ جانے والی وفاقی حکومت یا عبوری حکومت یا انتخابی کمیشن۔ قانون کے وفاقی وزیر کے مطابق 1976ء کے قانون کے تحت یہ آئینی حق صدر مملکت کو حاصل ہے۔ قانونی ماہرین کو اس سے اتفاق نہیں، ان کی رائے میں یہ استحقاق عبوری حکومت کے نگراں کو حاصل ہے جو انتخابی کمیشن کے مشورے سے اس تاریخ کا تعین کرے گا اور صدر مملکت باضابطہ طور پر اس کا اعلان کریں گے۔ ایک قانون دان کے مطابق جونہی قومی اسمبلی کی مدت پوری ہو وزیراعظم اور اس کی کابینہ اسی وقت سے سرکاری طور پر کوئی فیصلہ کرنے سے محروم ہو جاتی ہے۔ چونکہ انتخاب کے سارے معاملات انتخابی کمیشن طے کرتا ہے لہٰذا اسی کو تاریخ مقرر کرنے کا حق ہے۔-6 ایک اور الجھن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کرانے سے پیدا ہو گئی ہے کیونکہ سب کے قیام کی تاریخیں مختلف ہیں۔ قومی اسمبلی کی تاریخ 16مارچ ہے جبکہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی کی 27مارچ، سندھ اسمبلی کی 4/اپریل، پنجاب اور بلوچستان کی اسمبلیوں کی 8/اپریل اسی لئے حزب اختلاف کے قومی رہنما نے کہا کہ پنجاب اسمبلی 8/اپریل سے پہلے تحلیل نہیں کی جائے گی۔ اس اختلاف کا بھی متفقہ حل تلاش کرنا ہو گا۔-7 ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ 2013-14ء کا بجٹ کون پیش کریگا؟ دراصل بجٹ کا بنیادی خاکہ تو ایف بی آر اور وزارت خزانہ کے اہلکار تیار کرتے ہیں۔ وزیر خزانہ اور اعلیٰ عہدیدار اس کی نوک پلک درست کرتے ہیں اور محصولوں اور رعایتوں میں کمی بیشی کو قطعی بناتے ہیں۔ چنانچہ طے ہوا کہ نئی حکومت کے وزیر خزانہ بجٹ پیش کریں گے۔ اس اعلان سے عبوری حکومت کی مدت مئی2013ء سے آگے نہیں بڑھے گی۔ گو نئے وزیر خزانہ کو بجٹ کو سمجھنے اور سمجھانے کا زیادہ وقت نہیں ملے گا۔ یہ بھی عندیہ دیا گیا ہے کہ اس مرتبہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنروں کی پنشنوں میں 5فیصد کا اضافہ ہو گا۔-8 انتخاب میں ایسے شخص پر پابندی ہو گی جس نے اپنے، اپنی شریک حیات یا اپنے بچوں کے نام پر 20لاکھ یا اس سے زائد رقم کا قرضہ لے رکھا ہو اور پیدا آور اغراض کے بجائے غیر پیدا آور اغراض کیلئے استعمال کیا ہو اور بعد میں اس کو سیاسی وابستگی کی بنیاد پر معاف کرایا ہو۔ اسٹیٹ بینک ایسے نادہندگان کی فہرست پیش کریگا۔ کمیشن نے یہ واضح کیا کہ وہ لوگوں کو انتخاب میں حصہ لینے سے روکنا نہیں چاہتا بلکہ اس کا مقصد سرکاری رقوم کی واپسی ہے۔ (رقم دس لاکھ ہونی چاہئے)۔-9 کمیشن نے پہلے جو اعداد و شمار شائع کئے تھے اس میں ووٹروں کی کل تعداد 8کروڑ 43لاکھ بتائی تھی، نظرثانی کے بعد ان کی تعداد 8کروڑ 54لاکھ ہو گئی ہے یعنی11لاکھ کا اضافہ۔ مردوں کی تعداد 4کروڑ 78لاکھ تھی جو اب 4کروڑ 83لاکھ ہو گئی۔ خواتین کی تعداد 3کروڑ 65لاکھ تھی جو اب 3کروڑ72لاکھ ہو گئی۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد میں زیادہ اضافہ ہوا۔-10 سب سے بڑا مسئلہ عبوری وزیراعظم کے تقرر کا ہے جس کی نامزدگی مشاورت سے عمل میں آئے گی۔ وزیراعظم نے27فروری کو قومی اسمبلی کے حزب اختلاف کے لیڈر کو خط لکھا ہے کہ براہ کرم عبوری وزیراعظم کیلئے دو نام جلد از جلد ارسال فرمایئے تاکہ ایک نام پر اتفاق رائے کر لیا جائے۔ اگر یہ موقع کھو دیا تو معاملہ کمیٹی کے سپرد ہو جائیگا۔ چوہدری صاحب نے صحافیوں کو بتایا کہ خط مل گیا ہے، مشاورت کے بعد دو، تین روز میں خط ہی کے ذریعے ناموں سے مطلع کرونگا۔-11 ایک دلچسپ خبر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان کیلئے اہل سیاسی جماعتوں کی فہرست جاری کر دی ہے جسکے تحت 123جماعتیں انتخابات میں حصہ لینے کی اہل ہوں گی۔ ایم کیو ایم کو اب تک اثاثوں کی تفصیل جمع نہ کرانے اور پاکستان تحریک انصاف کو پارٹی کے انتخابات مکمل نہ ہونے پر انتخابات کیلئے نااہل قرار دے دیا۔ ایم کیو ایم نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم پابندی سے اپنے اثاثوں کی تفصیلات جمع کراتے رہے ہیں۔-12 یہ جو اس وقت الیکشن کمیشن گریجویشن کی جعلی اسناد کی تصدیق میں الجھا ہوا ہے ان کا تعلق موجودہ پارلیمنٹیرین سے ہے کیونکہ آنے والے انتخابات میں گریجویشن کی کوئی شرط نہیں، ان میں تو انگوٹھا چھاپ بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ انتظار کیجئے کہ کوئی اور مزید شوشہ حائل نہ ہو اور انتخابات بہ خیر و خوبی مکمل ہو جائیں۔ کوئٹہ کے شہداء کیلئے دعائے مغفرت اور پسماندگان کیلئے دعائے صبر۔
تازہ ترین