• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلامی نظریاتی کونسل … ایک آئینی ادارہ

تحریر:محمد صادق کھوکھر۔۔لیسٹر
اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے جس کا مقصدِ قیام پاکستان کے قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کیلئے پارلیمنٹ کی رہنمائی کرنا ہے۔ یہ کوئی نیا ادارہ نہیں۔ جسے جنرل پرویزمشرف، بینظیربھٹو یا نوازشریف نے قائم کیا ہو بلکہ اس کی تشکیل آئین پاکستان کے نفاذ کے ساتھ ہی ہو گئی تھی۔ جس مقصد کیلئے یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا۔ اس نے بڑی حد تک اس میں کامیابی حاصل کی ہے۔ مگر نہ جانے کچھ حضرات کو یہ ادارہ کیوں بوجھ دکھائی دیتا ہے؟خود نمائی کے لیے جب کچھ کہنے کو نہیں ہوتا۔ تو نظریاتی کونسل پر تبرا شروع ہو جاتا ہے۔ چند دن قبل وفاقی وزیر فواد چوہدری نے یہی حرکت کی۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے جب نیب آرڈیننس کی چند دفعات کو غیراسلامی قرار دیا تو فواد چوہدری آؤ دیکھا نہ تاؤ بلا دلیل اس کے وجود کو ہی غیر ضروری قرار دینے لگے۔ حالانکہ کونسل نے بڑے مدلل انداز سے آرڈیننس کے تین نکات کی نشاندہی کی تھی کہ یہ غیر اسلامی ہیں۔ یعنی ملزم کو الزام کے ثبوت سے قبل ہی گرفتار کر کے جیل میں رکھنا، دوسرا وعدہ معاف گواہ بننا اور تیسرا پلی بارگین جس میں لٹیروں کے ساتھ سودے بازی ہوتی ہے۔ بلا شبہ یہ تینوں نکات نا صرف غیراسلامی ہیں بلکہ غیراخلاقی اور عام مروجہ قوانین کے بھی خلاف ہیں۔ لیکن سائنسی امور کے وزیر کی روشن خیالی، اجتہادی فکراور عقلی منطق کا یہ عالم ہے کہ عقلی دلائل دینے کی بجائے یہاں بھی "ہتھ چک" ہتکنڈا استعمال کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کی فکر کھائے جا رہی ہے کہ کونسل پر سرکاری خزانے سے کڑوروں روپے کی رقم خرچ ہو رہی ہے۔ ایسی ہی فضول خرچی انہیں رویتِ ہلال کمیٹی میں نظر آتی ہے۔ دوسری طرف انہیں علم ہی نہیں کہ رقم تو سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت پر بھی ضائع ہو رہی ہے۔ جس کی سربراہی ایک ایسے شخص کے پاس ہے جو نہ سائنس کو جانتا ہے نہ ٹیکنالوجی کو۔ لیکن اپنی کج فہمی اور ناعاقبت اندیشی کے باعث ایک دن حکومت کو ضرور لے ڈوبے گا۔ ان کے ایک ہم نشین دانشور نے خوب لکھا ہے کہ "عمران خان کے وزیروں کے ٹبر میں وہ واحد وزیر ہیں جو دانشمندانہ، عاقلانہ اور سائنٹیفک بات کرتے ہیں" مجھے بھی ان سے پورا اتفاق ہےاسی لیے تو ان کی "عاقلانہ حرکات" کے باعث ان کا امیج نکھر کر سامنے آرہا ہے۔مجھے محترم عمران خان پر بڑی حیرت ہوتی ہے۔ قوم کو ان سے بڑی امیدیں تھیں کہ یہ ملک کی قسمت بدل دیں گے۔ لیکن انہوں نے جو ٹیم منتخب کی ہے۔ اس ٹیم کے وزراء اپنی کارکردگی بتانے کی بجائے غیر متعلقہ امور میں ہر وقت الجھے رہتے ہیں۔ ریلوے کے وزیر اپنی وزارت کی بجائے دیگر معاملات کے متعلق پشین گوئیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ وزیرِ دفاع ملکی دفاع کی بجائے حکومتی دفاع میں الجھے رہتے ہیں اورحکومتی اتحادیوں کو منانے کے جتن کرتے رہتے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر مذہبی اور خارجہ امور سنبھالے ہوئےہوتے ہیں۔ مواصلات کے وزیر احتساب کا داروغہ بن کر گرجتے ہیں۔ اندیشہ ہے کہ حکومت نے جو بکاؤ مال اکٹھا کیا ہوا ہے۔ وہی حکومت کیلئے وبالِ جان بن جائے گا۔ غور کریں فواد چوہدری کو اسلامی نظریاتی کونسل اور رویت ہلال کمیٹی کے اخراجات فضول خرچی لگتے ہیں۔ عوام ان سے پوچھنے کا حق رکھتے کہ آخر بے کار وزراء کی فوج ظفر فوج کی فضول خرچیوں کا کیا جواز ہے؟ جن کی کارکردگی بتانے والا کوئی نہیں۔ ذرائع ابلاغ میں ہر وقت فردوس عاشق اعوان، شیخ رشید اور فواد چوہدری وغیرہ چھائے رہتے ہیں۔ غالبا" اس لیے دوسرے کسی وزیر کو اپنی کارکردگی بتانے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ ان کے سگھڑ پن کا یہ عالم ہے کہ بقول ان کے پارلیمنٹ کے ایک دن کے اخراجات چار لاکھ سے زیادہ ہوتے ہیں۔ لیکن ممبرانِ اسمبلی تو دور کی بات قائدِ ایوان تک حاضر ہونے زحمت نہیں کرتے۔ نتیجتا اکثر اجلاس کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے ملتوی ہو جاتے ہیں۔ اگر صرف وزراء ہی اجلاس میں آجائیں تو شاید کورم پورا ہو جائے۔ اس سے آپ ان کی کارکردگی کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ فواد چوہدری کی اپنی وزارت کی کارکردگی کبھی سامنے نہیں آئی لیکن انہیں مذہبی معاملات میں دخل اندازی کا بڑا شوق رہتا ہے۔ اس سے قبل انہوں نے کئی دفعہ رویت ہلال کمیٹی کو نشانہ بنایا اور بڑے طمطراق سے اپنا سائنسی کیلنڈر بھی بنا ڈالا۔ جب مفتی منیب الر حمٰن نے موصوف کو علمی اور منطقی جواب دیا تو فواد صاحب کو اپنے کیلنڈر کے مطابق بھی عید کرنا نصیب نہ ہوئی۔ بلکہ عید کے روز ساری حکومتی کابینہ مفتی منیب الرحمٰن کے ساتھ کھڑی تھی اور یہ منہ دیکھتے ہی رہ گے۔ اب انہیں نظریاتی کونسل کی کارکردگی اور فنڈز کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ وزیرِ موصوف کو علم ہی نہیں کہ یہ آئینی ادارہ ہے۔ اگر مدینہ کی طرز پر ریاست قائم کرنی ہے تو اس طرح کے اداروں کی ضرورت تو ہمیشہ رہے گی۔ وزیرِ اعظم عمران خان اگر ملک کو ریاستِ مدینہ کی طرح تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ تو انہیں ایسے کھوٹے سکوں سے نجات حاصل کرنا چاہیے جو اسلامی نظریاتی کونسل کو بوجھ سمجھتے ہوں۔ ورنہ یہ حضرات حکومت کو ناکام بنا کر خود آنے والی حکومت میں ہو ںگے اور عمران خان اور ان کے مخلص ساتھی تبدیلی کا منہ دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔
تازہ ترین