• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوبہ بلوچستان کی گوادر بندرگاہ اپنے محل وقوع کے اعتبار سے اقتصادی و تزویراتی اہمیت کی حامل ہے۔ اِس حقیقت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے گوادر پورٹ کو فعال بنانے کیلئے کئی عشروں سے مختلف حکومتی ادوار میں دوست ممالک کے تعاون سے کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ یہ کاوشیں اب بتدریج کامیابی سے ہمکنار ہونے لگی ہیں جس کا ثبوت منگل کے روز گوادر پورٹ سے افغان ٹریڈ کے باقاعدہ آغاز سے ملتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ دبئی سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی پہلی کھیپ لیکر کارگو بحری جہاز گوادر کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہو گیا ہے۔ پہلی شپمنٹ فرٹیلائزر پر مشتمل ہے جسے براستہ سی پیک افغانستان روانہ کیا جائے گا۔ چائنا ہاربر اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی کے حکام اور مقامی کالج کی طالبات نے آنے والے جہاز کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ واضح رہے کہ پاکستان کی حکومت نے گزشتہ سال گوادر پورٹ سے افغان ٹرانزٹ تجارت کا اجازت نامہ جاری کیا تھا۔ اچھی بات ہے کہ جہازوں کی لنگر اندازی و دیگر سہولتوں کیلئے ضروری انفراسٹرکچر مکمل کرنے کے بعد تجارتی نقل و حمل کا یہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ بحری راستے سے پاک افغان تجارت کےعمل میں آنے سے گوادر پورٹ کے مکمل فعالیت کی طرف بڑھتے قدموں کی نشاندہی ہوتی ہے لیکن حکومت پاکستان کو افغان تجارت سے جڑے دوسرے پہلوئوں پر بھی توجہ مرکوز کرنا ہوگی جیسے کہ ماضی میں یہ ہوتا رہا کہ پاکستان سے جانے والا سامان واپس سرحد سے ملک میں اسمگل ہوا جس کے لا محالہ منفی اثرات ملکی صنعتوں پر مرتب ہوئے۔ اسی طرح باہر سے آنے والے جہازوں و کنٹینروں کو عملے کی ملی بھگت سے راستے میں کھولنے کی شکایات بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ ضروری ہے کہ اس حوالے سے کوئی حکمتِ عملی تیار کی جائے اسی صورت میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ملکی اقتصادیات کیلئے سود مند ثابت ہو گی۔

تازہ ترین