• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب آپ میرے ساتھ پشاور چلیں گے۔

تاریخ کی بانہوں میں مچلتا ہوا یہ شہر آہستہ آہستہ جدید تہذیب کا رُخ کر رہا ہے۔ بازاروں میں سارے نئے برانڈ آگئے ہیں مگر اس وقت سخت سردی اور بارش نے لوگوں کو کھیسوں، لوئیوں اور چمڑے کی جیکٹوں میں لپیٹا ہوا ہے۔ میں اس شہر کی شوکت اور قدرت کا تو پہلے ہی قائل تھا لیکن 1979میں افغانستان میں روسی فوجوں کی آمد، پھر 2001نائن الیون کے بعد پشاور کے گلی کوچوں نے دہشت گردی کا جس پامردی سے مقابلہ کیا ہے اور بالآخر انسانیت کے دشمنوں کو جس طرح پچھاڑا ہے، میں اسے واجب تعظیم خیال کرنے لگا ہوں۔ اس کے باسی، اس کا ریڈنگ اسپتال، ڈاکٹرز، نرسیں، پولیس والے‘ سب کو عقیدت بھرا سلام۔

ہم یہاں فرنٹیئر ماڈل اسکول میں یونیفارم پہنے بچوں بچیوں میں موجود ہیں۔ رات بھر بارش ہوتی رہی ہے۔ ہوا میں خنکی ہے لیکن سورج نے ہمت کی ہے۔ بادلوں کو پسپا کر دیا ہے۔ اس کی کرنیں خنکی سے لڑ رہی ہیں۔ نوجوانوں میں قومی زبان کے فروغ کا منصوبہ ہمیں سخت سردی میں اس عظیم شہر میں لے کر آیا ہے۔ موضوع وہی ہے ’آپ کا علاقہ پاکستان کو کامیاب ملک بنانے میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے‘۔ خیبر پختونخوا تعلیم کے اعتبار سے دوسرے صوبوں سے ہمیشہ آگے رہا ہے۔ اب بھی قدیم یونیورسٹیوں اور دینی مدارس کے ساتھ ساتھ نئی یونیورسٹیاں بھی علم، ٹیکنالوجی اور جدید رُجحانات کی روشنی پھیلا رہی ہیں۔ پشاور تو ہمیشہ سے حملہ آوروں، سیاحوں، تہذیبوں کی گزرگاہ رہا ہے۔ نئے تمدنوں، تبدیلیوں کا خیر مقدم کرتا رہا ہے۔ مضامین ہر ضلع سے موصول ہوئے ہیں۔ طلبہ کے ساتھ ساتھ طالبات بھی پیش پیش ہیں۔ بعض اوقات منصفین کے لئے مسئلہ ہو جاتا ہے کہ کسے فوقیت دیں۔ نوجوانوں کی تحریریں دیکھ کر اقبالؔ بار بار یاد آتے ہیں:

نہیں نااُمید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

کے پی کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ثناء اللہ عباسی جیسا صاحبِ مطالعہ، دیانتدار انسپکٹر جنرل پولیس مل گیا ہے۔ ان سے درخواست کی گئی کہ وہ قرأت، نعت خوانی اور تقریری مقابلوں میں اوّل، دوم اور سوم آنے والوں میں سرٹیفکیٹ بانٹیں۔ ہرچند کہ ان کی اسلام آباد میں میٹنگ ہے، وہ جاتے جاتے بچوں بچیوں کے ساتھ چند لمحات گزارنے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔ میں دونوں کی طرف دیکھ رہا ہوں۔ آئی جی کی آنکھوں میں بھی ایک چمک ہے۔ بچے بھی انہیں اپنے درمیان پاکر خوش ہیں۔ پولیس کی وردی ہیبت کے بجائے محبت کی علامت بن رہی ہے۔ آئی جی سرٹیفکیٹ بانٹ رہے ہیں۔ ہر بچے کے سر پر ہاتھ پھیر رہے ہیں۔ مختصر سی تقریر میں وہ بچوں بچیوں کو مبارکباد دے رہے ہیں۔ پھر آنے کا وعدہ کر رہے ہیں۔

مضمون نویسی کے مقابلے کی تقریبِ تقسیمِ انعامات کے مہمانِ خصوصی پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف خان، وائس چانسلر یونیورسٹی آف پشاور ہیں۔ بہت مصروف لیکن قومی زبان کے فروغ کے نیک مقصد کی خاطر وہ وقت پر پہنچ گئے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر نذیر تبسم ہیں۔ اُردو پشتو کے شاعر، نقاد، ٹی وی پر ادب کے پروگرام کرنے والے ناصر علی سید۔ شاعرہ، ٹی وی فنکار بشریٰ فرخ، شاعر دانشور عزیز اعجاز، صحافی امجد عزیز ملک، نجی بینک کے عاصم مختار اور فرنٹیئر ماڈل اسکول کے خواجہ یاور نصیر اور مضمون نویسی کے مقابلے میں حصّہ لینے والے طلبہ و طالبات جو دور دراز کے اضلاع سے آئے ہیں۔ ہمیں میاں نواز شریف، جنرل (ر) پرویز مشرف سب کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ بہترین معیاری شاہراہیں تعمیر ہو گئی ہیں۔ فاصلے سمٹ گئے ہیں۔ ہری پور، سوات، بٹگرام، مانسہرہ، مردان، صوابی ہر جگہ سے پشاور پہنچنا آسان ہو گیا ہے۔ شہر کے اندر بی آر ٹی تنگ کرتی ہے۔ ورنہ منزلیں طے کرنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ سب مقررین قومی زبان کے فروغ کا خیر مقدم کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ پاکستانی زبانوں، ثقافت، تمدن کی وسعتوں کا بھی ذکر کر رہے ہیں۔ اور ہمارے لیے تحسین کے جملے بھی کہ ہم نے پشاور کا انتخاب کیا اور اس سردی میں یہاں آئے ہیں۔

اوّل انعام ہری پور کی رافعہ جاوید، دوسرا انعام مانسہرہ کے اعجاز الرحمٰن اور تیسرا مردان کی امامہ روغانی کے حصّے میں آیا ہے۔ ہری پور سے صالحہ مریم، بٹگرام سے کاشف عبید کاوش، سوات سے جلال احمد، صوابی سے سید محمد یوسف، بنوں سے عتیق الرحمٰن، ہری پور سے کنول طارق، نوشہرہ سے ہاجرہ گل، سوات سے اختر حسین ابدالی، مردان سے نازش بتول، یہ سب ہمارے مستقبل کے افسانہ نگار، شاعر، صحافی اور اینکر پرسن ہیں۔ حرف و معانی کی فصلیں کاشت بھی ہو رہی ہیں، پک بھی رہی ہیں۔ وائس چانسلر پشاور یونیورسٹی اپنے مستقبل کو دیکھ کر بہت خوش ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بہت ضروری ہے۔ وہ زور دے رہے ہیں کہ آج کے دَور میں علم کی معیشت پر عمل کا محور ہے۔ اس کے لیے لکھنے کی صلاحیت ناگزیر ہے اور بچوں کو ان کی اپنی مادری زبان میں پڑھایا جائے تو وہ بہت جلد سیکھتے ہیں۔ ہمیں تدریس اور تربیت کا معیار بلند کرنا ہوگا۔ اساتذہ کا وقار اور مقام بحال کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر نذیر تبسم کہہ رہے ہیں ہمارے ہاں تعلیم یافتہ بہت ہیں، علم یافتہ بہت کم۔ کے پی میں قومی زبان کے فروغ اور اپنی پاکستانی زبانوں سے محبت کا پیغام پھیل رہا ہے۔ مختلف اضلاع سے آنے والے نوجوان اپنے اپنے شہروں میں واپس جاکر یہ خوشبو بانٹیں گے۔ ہمیں کچھ لمحات یونیورسٹی آف پشاور کے شعبۂ اُردو میں ڈاکٹر روبینہ شاہین، دوسرے اساتذہ اور طالب علموں کے ساتھ گزارنے کا موقع بھی مل رہا ہے۔ غالبؔ و میرؔ کی اُردو آئندہ نسلوں کو منتقل ہو رہی ہے، حرف و معانی کا راستہ مستحکم ہو رہا ہے۔

تازہ ترین