• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

استنبول سے اُڑے جہاز نے ڈھائی گھنٹے بعد جیسے ہی میلان ایئرپورٹ پر لینڈ کیا، میں اصلی گاڈ فادروں، سسلین مافیا کے دیس اٹلی میں تھا، گاڈ فادر کہانی بھی فلمی بلکہ ویری فلمی۔

ایک معمولی شخص غیر معمولی صلاحیتیں، بظاہر انسان، دماغ شیطان، اس عظیم سپوت نے جرائم کو سائنسی بنیادیں فراہم کیں، مجرموں کی باقاعدہ تربیت کی، قاتلوں کے اسکواڈ بنائے، گاڈ فادر اول مرا تو اُس کا بیٹا گاڈ فادر دوم بنا۔

اس نے والد کے ’جرائمی سلسلے‘ کو امریکہ، مغربی یورپ سمیت آدھی دنیا تک پھیلا دیا، یہ بھی سنتے جائیے، سسلین مافیا کا تعلق سسلی سے، سسلی شمالی افریقہ، اٹلی کے درمیان ایک جزیرہ، اٹھارہویں صدی میں یہاں شام، عرب، روم، فرانس، اسپین کے مافیاز کا قبضہ تھا۔

تب کی اٹلی حکومت نے حملہ کرکے جزیرے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی، پھر 1861میں اٹلی حکومت نے ان مافیاز سے مذاکرات کیے، مذاکرات کامیاب ہوئے، 1861میں سسلی متحدہ اٹلی کا صوبہ بن گیا۔

ویسے تو سسلی کے سب سے بڑے جرائم پیشہ گروہ کو cosa nostra (کوسا نوسٹرا) کہا جاتا ہے مگر دنیا اسے سسلین مافیا کے نام سے جانتی ہے، سسلین مافیا کی بنیاد انیسویں صدی میں رکھی گئی۔

شروع شروع میں ان کا کام غریبوں کو ظالم وڈیروں سے بچانا ہوا کرتا مگر بعد میں یہ خود ظالم وڈیرے بن گئے، قتل و غارت، منشیات، اسمگلنگ، ڈکیتیاں، منی لانڈرنگ، اغوا سمیت ہر جرم میں یہ ماہر کہلائے۔

1920تک سسلین مافیا کو عروج حاصل رہا، 1920میں اٹلی حکومت نے وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا، مافیا کے بڑوں کو چن چن کر مارا اور یہ مافیا تتربتر ہو گیا۔

لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ مافیا دوبارہ منظم، متحد، مضبوط ہوا اور خاص طور پر جب سسلین مافیا کی کمانڈ توتو رینا کو ملی تو یہ پھر سے دہشت کی علامت بنا مگر جب سسلین مافیا کے جرائم حد سے بڑھے۔

عوام سڑکوں پر آئی، اٹلی حکومت نے مافیاز کے خلاف قانون پاس کیا، مافیاز کے خلاف 10فروری 1986سے 30جنوری 1992تک میکسی ٹرائل چلا۔

سسلین مافیا باس توتو رینا گرفتار ہوا، اسے 26مرتبہ عمر قید کی سزا ہوئی اور یہ بالآخر 17جنوری 2017کو جیل میں کینسر کی وجہ سے مر گیا، تب سے سسلین مافیا تو پہلے جتنا مضبوط نہیں مگر اس کا موجودہ باس دینارو دنیا کے 10خطرناک مجرموں میں سے ایک۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی، میلان ایئرپورٹ سے باہر آیا تو دوست، بھائی، فیملی فرینڈ ڈاکٹر غلام صابر کے اسسٹنٹ حشمت یار خان اور عمران ارشاد لینے کیلئے موجود، حشمت یار خان پشاور کا پٹھان اور عمران ارشاد گوجرانوالہ کا جٹ۔

ہماری منزل اٹلی، سوئٹرز لینڈ کی سرحد پر قصبہ لوینو، جہاں جھیل کنارے صابر بھائی کا گھر، ڈاکٹر صابر نیچرل میڈیسن کے ڈاکٹر، ان کے اٹلی، پاکستان میں کلینک، یورپ میں ان کی 200دوائیاں چل رہیں۔

10ہزار گورے مریض، عشاء کے قریب لوینو پہنچا، جلدی سویا، جلدی اُٹھا، صبح اٹھ کر گھر کی چھت پر پڑی کرسی پر آکر بیٹھا، کیا منظر، ہلکے ہلکے بادل، بادلوں سے جھانکتا سورج، پھلدار درختوں، پھولوں سے بھرا لوینو قصبہ، قصبے کو تین اطراف سے گھیرے ہوئے نیلے پانی کی جھیل اور یہ سب چاروں طرف سے سرسبز پہاڑوں کے گھیرے میں، دوپہر کے وقت سوئٹرز لینڈ کے شہر لوگانو جا پہنچا۔

رات گئے واپسی ہوئی، اگلی صبح منزل میلان، جسے اٹلی والے میلانو کہیں، جو دنیائے فیشن، آرٹ کا گھر، جو کپڑوں، جوتوں، چاکلیٹ سمیت بیسیؤں اشیا کی فیکٹریوں کا مرکز، جو ساڑھے 13لاکھ سے زائد آبادی کے ساتھ اٹلی کا دوسرا بڑا شہر، جو درختوں، پارکوں، کشادہ سڑکوں، خوبصورت عمارتوں، دنیاکے ہر برانڈ کے آؤٹ لیٹ والا شہر۔

دن ٹھنڈا، دھوپ نکلی ہوئی میں میلان کے عین مرکز میں کبوتروں، سیاحوں اور دنیا کے پانچویں قدیم ترین میلان کیتھیڈرل چرچ کے سحر میں گم، اٹلی کے اس سب سے بڑے چرچ کو مکمل ہونے میں 6صدیاں لگیں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے، ایک چرچ، اتنا عرصہ، کیوں، وجہ یہ، ایک تو سلطنت روم میں کبھی امن، کبھی جنگ، چرچ بنتا، رُکتا رہا، دوسرا مسئلہ سرمائے کا، اکثر سرمایہ کم پڑ جاتا، چرچ کی تعمیر رک جاتی۔

تیسرا یہ منصوبہ اتنا بڑا کہ چرچ میں 34ہزار سے زائد تو مجسمے لگائے گئے، لہٰذا یہ 1386میں شروع ہوکر 1965میں ختم ہوا، میلان چرچ سے جڑی عمارت گیلیریا ویٹوریو، یہ دنیا کے پرانے شاپنگ مالوں میں سے ایک، گیلیریا ویٹوریو کے پہلو میں مونا لیزا کی مسکراتی پینٹنگ بنانے والے لیونارڈو ڈاونچی کا مجسمہ۔

تھوڑے فاصلے پر آرک آف پیس اور صفورزا کا قلعہ، یہی سائنٹا ماریہ چرچ کی دیوار بھی جس پر لیونارڈو ڈاونچی کی بنائی ہوئی دیومالائی پینٹنگ ’دی لاسٹ سپر‘ مطلب آخری عشائیہ، جس میں حضرت عیسیٰؑ کو اپنے حواریوں میں بیٹھا دکھایا گیا ہے، جہاں وہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ آپ میں سے ایک حواری ہم سے غداری کرے گا۔

میلان میں کمال کا دن گزرا، ہلکی ہلکی ٹھنڈ، میسنی میسنی دھوپ، جب چاہا چلنا پھرنا شروع کر دیا، جہاں چاہا بیٹھ گیا، سینکڑوں سیاح مگر کسی کو کسی کی خبر نہیں۔

جوڑے ایک دوسرے میں گم، اکیلے اپنے آپ میں مست، شام کے سائے گہرے ہونے لگے تو ٹیکسی پکڑی، میلان ریلوے اسٹیشن پر آیا، اگلی منزل روم، وہ شہر جس کا قرآن پاک میں بھی ذکر، جس کو زمانہ قدیم میں ہزار سال وہی مقام حاصل رہا۔

جو آج واشنگٹن کو، جو اٹلی کا سب سے بڑا شہر، جس کی آبادی ساڑھے 25لاکھ، جو دریائے امینیے اور دریائے تبیر کے سنگم پر آباد، جو آٹھویں صدی قبل مسیح کا شہر، جس پر رومی بادشاہوں کی سات پشتوں نے حکمرانی کی۔

جو 410کی تبدیلیوں اور 476میں رومی سلطنت کی تباہی پر ایسے کھنڈر بنا کہ دس لاکھ کی آبادی بیس ہزار تک آن پہنچی۔

روم شہر دو حصوں میں تقسیم، ایک ویٹیکن سٹی، جہاں پوپ کا حکم چلے، باقی شہر پر میئر کی حکومت، روم کے تین ہوائی اڈے، جدید ریلوے اسٹیشن، زیر زمین ریل کا نظام، شہر میں بیسیوں ٹرام اسٹیشن، روم جانے کیلئے تیز ترین ٹرین کا ٹکٹ خریدا۔

ٹرین میں بیٹھا، ٹرین چلی، 5سو کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ مطلب میلان سے روم سوا تین گھنٹوں میں پہنچ گیا، روم ریلوے اسٹیشن سے باہر نکلا، ٹیکسی لی، ہوٹل کا پتا بتایا، دس منٹ بعد جب ٹیکسی ہوٹل کے سامنے رکی۔

ڈرائیور کو کرایہ دینے کیلئے میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا، تو مجھے یقین ہو گیا کہ میں گاڈ فادروں، سسلین مافیاکے دیس میں پہنچ چکا، کیونکہ جیب موجود تھی مگر بٹوا غائب تھا۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین