• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترقی یافتہ دور کے اجتماعی کرب میں مبتلا معاشرے میں صرف ایک بچے کی ہنسی اور شرارت ہی ہے جو انسان کو چند لمحوں کے لئے سچی خوشی سے ہمکنار کرتی ہے۔ بچے کے ساتھ بچہ بن جانا بھی وقتی طور پر دکھ اور کرب سے نجات کا باعث بنتا ہے۔ پھولوں کی مانند نازک بچوں کو خاص توجہ، اپنائیت اور پیار نہ ملے تو وہ کُملا جاتے ہیں۔ انسان اپنی ذات پر ہر دکھ برداشت کرلیتا ہے مگر بچوں کی ہلکی سی پریشانی اُسے بے بس اور نڈھال کر دیتی ہے۔ مگر وہ بچے جو سن، بول اور دیکھ نہیں سکتے یا جن کے جسم کا کوئی حصہ مفلوج ہے اور وہ حرکت نہیں کر سکتے اُن کے والدین کس آزمائش میں مبتلا ہیں، صرف وہی جانتے ہیں۔ ان بچوں کو خاص (Special) کہا جاتا ہے کیونکہ یہ عام معاشرہ ان کے لئے مس فٹ ہے۔ ان کے لئے خاص ماحول، خوراک، توجہ اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں خاص اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا ذہن تندرست اور مثبت سوچ کا حامل ہوتا ہے۔ بدن کی طاقت انہیں دوسروں کو مٹانے کا سبق نہیں دے سکتی۔ ویسے بھی انسان کے وجود میں ذہن سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ذہن کی صفت غور و فکر ہے۔ یہ نہ ہوتا تو انسان بھی دیگر جانوروں کی طرح جبلی سطح پر زندگی گزار رہا ہوتا۔ بدن کی پامالی ذہن میں پرورش پانے والی فکر کی کلیوں کو پژمردہ ضرور کر سکتی ہے مگر اس کو کام کرنے سے روک نہیں سکتی جب کہ مفلوج ذہن کے حامل لوگوں کو اس لئے مخبوط الحواس اور پاگل کہا جاتا ہے کہ ان کے عمل پر فکر کا پہرہ نہیں ہوتا جو ان کے عمل کو اختیار کے دائرہ کار میں رکھ سکے۔ وہ انسانوں جیسی ہیئت تو رکھتے ہیں مگر ان کا عمل فکر سے عاری اور جبلت کا غلام ہوتا ہے جبکہ جسمانی طور پر معذور افراد بعض اوقات زیادہ ذہین ثابت ہوتے ہیں اور اس کا ادراک اسپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی طرف سے منعقدہ ایک پُروقار تقریب میں پنجاب بھر سے آئے ہوئے ذہین طالب علموں کو دیکھ کر ہوا۔ رحیم یار خاں کا ایک طالب علم جس کا قد ڈھائی فٹ تھا،کمر ٹیڑھی مگر وہ میڈیکل کالج کا اسٹوڈنٹ تھا۔ تمام عمر لوگوں کی بیماریوں کا علاج کرنے کا عزم لے کر سخت محنت کر رہا تھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کی تعلیم اس کے اپنے بدن کی لاچاری کو کم کرنے کا باعث نہیں بن سکتی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے پنجاب کے تمام بورڈز میں نمایاں پوزیشنز لینے والے خاص طلبا و طالبات میں نقد انعامات تقسیم کرتے ہوئے اس غلطی کا برملا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس کا ازالہ ہے کہ گزشتہ دورِ حکومت میں وہ اپنے تعلیمی پروگرام میں اسپیشل بچوں کے لئے کوئی نمایاں کام نہیں کر سکے۔ اس لئے اس بار اس حوالے سے انقلابی اقدامات کا آغاز کیا گیا ہے جن میں ٹیچر ٹریننگ اداروں اور 2 ڈگری کالجز کے قیام کے ساتھ ساتھ لائبریریوں، کمپیوٹرز اور UPS کی سہولت بہم پہنچانے کے ساتھ ساتھ اس شعبے کے لئے مختص چند لاکھ کا بجٹ اب بڑھا کر ایک ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ اسپیشل تعلیم کے تمام ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد اضافے کا اعلان بھی کیا گیا جو ایک مثبت پیشرفت ہے کیوں کہ ان بچوں کو پڑھانا آسان کام نہیں اس کے لئے خاص لگن اور جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب یہ اساتذہ اور دیگر ملازمین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اپنے فرائض کو خدمت کے دائرہ کار تک محیط کر دیں۔ مایوسی اور لاچاری کی دھند کو چیر کر سورج کی روشنی تک پہنچنے والے طلبا و طالبات کی حوصلہ افزائی کیلئے اس طرح کی تقاریب کا انعقاد یقینا خوش آئند ہے کیوں کہ اصل مسئلہ انعامات تقسیم کرنے کا نہیں بلکہ ان کی جدوجہد کو اکنالج کرنے اور سراہنے کا ہے مگر اسپیشل بچوں کے حوالے سے صرف ایک دن کے اجتماعات اور انعامات کافی نہیں، ان کی تعلیم اور خود انحصاری کے لئے ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ جو بچے سُن نہیں سکتے وہ بول بھی نہیں سکتے اس لئے سماعت سے محروم ہر بچے کو آلہٴ سماعت مہیا کرنے اور گونگے بچوں کے لئے اسپیچ تھراپی کے ساتھ ساتھ جسمانی معذور بچوں کے لئے وہیل چیئر وغیرہ کا انتظام کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ علاوہ ازیں ان کیلئے مختص کوٹہٴ ملازمت صرف فائلوں اور نوٹی فکیشنز تک محدود نہ رہے بلکہ اس پر عمل بھی کرایا جائے۔ ان کے اندر زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرنے کیلئے کاوشیں ابتدائی دور سے شروع ہوں گی تو بات بنے گی۔ دنیا کے تمام ممالک میں اسپیشل بچوں کی موجودگی اس بات کی غماز ہے کہ ہمارے سائنسدان، نفسیات دان اور معاشرہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے۔ فطرت کسی کو معذور پیدا نہیں کرتی حالات و واقعات اس کا باعث بنتے ہیں۔ کزن میرج، ایک ہی خون گروپ، دوران حمل مسائل کا شکار مائیں اور ادویات کا استعمال معذوری کا باعث بنتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ عوام کی آگاہی کا جامع پروگرام ترتیب دیا جائے اور معذوری کا باعث بننے والی وجوہات کے سد باب کے لئے اسپتالوں میں خصوصی مراکز قائم کئے جائیں تاکہ آئندہ دنوں میں کوئی بچہ مفلوج جسم اور محرومی کے ساتھ پیدا نہ ہو بلکہ تندرست اور نارمل بچے اس دنیا میں آئیں اور ان کی موجودگی معاشرے کو خوبصورت بنا دے۔ یہ الگ بات ہے کہ مفلوج ذہنوں کے حامل لوگوں کے لئے تاحال کوئی ورکشاپ، اسپتال یا ادارہ قائم نہیں ہوسکا جہاں عقیدوں کے یرغمال، خواہشات کے غلام اور منفی رجحانات کے قیدیوں کا علاج ہو سکے۔ اگر جسمانی معذوری کے حامل لوگ خاص ہیں تو ذہنی پسماندگی میں مبتلا کیوں نہیں؟ انہیں بھی خاص توجہ اور علاج کی ضرورت ہے ۔
تازہ ترین